Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
17 - 145
پس زوجہ زید نے کہ جائداد متروکہ بیچ کر زید کو باردیون سے سبکدوش کیا اور ان قرضخواہوں میں ایک خود وہ تھی جس نے آپ کچھ نہ لیا اور باقی دائنوں نے جنہیں اختیار نقض بیع حاصل تھاثمن مبیعہ سے اپنااپنا قرض لیا اور بیع پرکچھ اعتراض نہ کیا تو اب ورثہ زید کہ بغرض تقسیم وتصرف بے جا بے قصد استخلاص ترکہ بادائے مہرو دیگر دیون دعوی کرتے ہیں یہ دعوی ان کامحض نامقبول اورشرعاً قابل سماعت سے معزول۔
فی فتاوی الفاضل العلامۃ خیرالدین الرملی رحمۃ اﷲ علیہ سُئل فی رجل مات وعلیہ دین فباع بعض ورثتہ شیئا من عقارہ فی وفاء دینہ ھل لبقیۃ ورثتہ نقضہ ام لا اجاب ان لم تکن الترکۃ مستغرقۃ بالدین لاینفذ بیعہ الا فی حصتہ فلبقیۃ الورثۃ نقضہ فی حصصھم و ان کانت مستغرقۃ بہ لاینفذ بیعہ فی حصتہ اذا کان بغیر اذن الغرماء اوبغیر اذن القاضی فللغرماء نقضہ والحال ھذہ واﷲ اعلم۱؎ اھ  واﷲ تعالٰی اعلم۔
فاضل علامہ خیرالدین رملی علیہ الرحمہ کے فتاوٰی میں ہے کہ اس شخص کے بارے میں پوچھاگیا جس پرقرض تھا اور وہ مرگیا تو اس کے بعض وارثوں نے اس کاقرض اداکرنے کے لئے میت کی جائداد کاکچھ حصہ فروخت کردیا، کیاباقی وارثوں کویہ بیع توڑنے کا حق ہے یانہیں؟ آپ نے جواب دیا اگرقرض نے ترکہ کا احاطہ نہیں کیاہوا تو بیع فقط فروخت کرنے والے کے حصہ میں نافذ ہوگی باقی وارثوں کو اپنے حصوں میں بیع کے توڑنے کا حق ہوگا اور اگرقرض نے ترکہ کا احاطہ کیاہوا ہے توخود بائع کے حصہ میں بھی بیع نافذ نہ ہوگی جبکہ وہ بیع قرضخواہوں اور قاضی کی اجازت کے بغیر ہو اورقرضخواہوں کو حق پہنچتاہے کہ وہ بیع کو توڑدیں۔ یہاں صورت حال ایسی ہی ہے اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے  اھ  واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ الفتاوٰی الخیریۃ     کتاب البیوع     دارالمعرفۃ بیروت     ۱ /۲۲۳ و ۲۲۴)
مسئلہ ۴۴ : (مسئلہ مذکورنہیں غالباً یوں ہوناچاہئے، کوئی شخص فوت ہوا جس کا قرض ترکہ کو محیط ہے۔ ایک بیٹا زید او ردوبیٹیاں کبرٰی اورصغرٰی اس کی وارث ہیں، قرض کی ادائیگی کے لئے زید اور صغرٰی جائداد بیچناچاہتے ہیں جبکہ کبرٰی اس سے منع کرتی ہے، کیا وہ قرض کی ادائیگی کے لئے ترکہ کی جائداد فروخت کرسکتے ہیں، اور کیا کبرٰی کو منع کاحق ہے؟)
الجواب : زیدوصغرٰی کو بے رضائے ارباب دیون بیع ترکہ کا اختیارنہیں اور اگربیع کریں گے تونافذ نہ ہوگی کہ دین ترکہ کو مستغرق ہے۔
فی الاشباہ ولاینفذ بیع الوارث الترکۃ المستغرقۃ بالدین و انما یبیعہ القاضی ۲؎ قال الحموی قولہ ولاینفذ بیع الوارث الخ یعنی ان بیعہ موقوف علٰی رضاء الغرماء قال فی البزازیۃ فی السابع من کتاب الوصایا لایمنلک الوارث بیع الترکۃ المستغرقۃ بالدین المحیط الا برضاء الغرماء ۱؎ اھ ۔
الاشباہ میں ہے : وارث کا ایسے ترکہ کی بیع کرنا نافذ نہ ہوگا جوقرض میں گھراہواہے، فقط قاضی اس کی بیع کرسکتاہے۔ حموی نے فرمایا کہ صاحب اشباہ کے قول ''وارث کی بیع نافذ نہ ہوگی'' سے مراد یہ ہے کہ اس کی بیع قرضخواہوں کی اجازت پرموقوف ہوگی۔ بزازیہ کتاب الوصایا کی ساتویں فصل میں ہے وارث قرضخواہوں کی اجازت کے بغیر ایسے ترکہ کی بیع کا مالک نہیں جو قرض سے گھراہوا ہو اھ (ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث         القول فی الملک     ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۲۰۵)

(۱؎ غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر     الفن الثالث    القول فی الملک     ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۲۰۵)
اورکبرٰی اگراپنے مال سے ادائے دین چاہے تو زیدوصغرٰی کو اگرچہ غرماء بیع پرراضی ہوں بلکہ خود حاکم کو بیچنے سے روک سکتی ہے ورنہ مجرد منع اس کا کچھ بکارآمد نہ ہوگا کہ ورثہ کوبوجہ استغراق دین کوئی استحقاق ملکیت اس ترکہ میں نہیں۔
قال الحموی قولہ وانما یبیع القاضی اقول ینبغی ان یکون البیع بحضرۃ الورثۃ لما لھم من حق امساکہا و قضاء الدین من مالھم۲؎ اھ  ملخصا، و فی الاشباہ والدین المستغرق للترکۃ یمنع ملک الوارث۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
حموی نے کہا صاحب الاشباہ کاقول کہ ''فقط قاضی اس کو بیچ سکتاہے'' میں کہتاہوں کہ بیع وارثوں کی موجودگی میں ہونی چاہئے کیونکہ انہیں حق حاصل ہے کہ وہ ترکہ کے مال کو روک لیں اور میت کاقرض اپنے مال سے اداکردیں  اھ  تلخی اورالاشباہ میں ہے جو قرض ترکہ کو محیط ہو وہ وارث کی ملک سے مانع ہے، اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
 (۲؎غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر     الفن الثالث    القول فی الملک     ادارۃ القرآن کراچی   ۲ /۲۰۵)

(۳؎الاشباہ والنظائر     الفن الثالث    القول فی الملک     ادارۃ القرآن کراچی   ۲ /۲۰۴)
مسئلہ ۴۵ :کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک زوجہ اور چند اولاد اور متروکہ میں جائداد چھوڑ کر انتقال کیا اس کاکفن ودفن اس کے مال سے کیاگیا اور اس کی عورت نے اس کی فاتحہ ودرودوسوم وچہلم وغیرہ میں بہت روپیہ اس کے مال سے اٹھایا اب وہ دعوٰی کرتی ہے کہ میں نے ان امور میں تین سو روپے اپنے مال سے اٹھائے میں ان کے پانے کی مستحق ہوں۔ اس صورت میں یہ دعوٰی اس کا مسموع ہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا
الجواب : دعوٰی اس کاباطل ہے اور امورمذکورہ اگرچہ اس نے اپنے روپے سے کئے ہوں تبرع واحسان قرارپائیں گے اور ان کاصرف اس کے ترکہ سے واپس نہ ملے گار اور مال میت سے اٹھایا تو اسی قدر اس کے حصہ سے مجراہوجائے گا۔
فی الطحطاوی التجہیز لایدخل فیہ السبح والصمدیۃ والجمع والموائد لان ذٰلک لیس من الامور اللازمۃ فالفاعل لذٰلک ان کان من الوارثۃ یحسب علیہ من نصیبہٖ ویکون متبرعا وکذا ان کان اجنبیا۱؎ اھ ۔
طحطاوی میں ہے فاتحہ ودرود، لوگوں کا اجتماع اور ان کے لئے کھانے کااہتمام کرناتجہیزمیں داخل نہیں کیونکہ یہ چیزیں لازمی امور میں سے نہیں، یہ کام کرنے والا اگروارثوں میں سے ہے تو اس کے حصہ میں سے بے شمار ہوگا اور وہ تبرع واحسان کرنے والا قرارپائے گا، اور یونہی اگرایساکرنے والااجنبی ہو اھ ۔(ت)
 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الفرائض     المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ     ۴ /۳۶۷)
ہاں اگر کفن ودفن بطریق سنت اس نے اپنے مال خاص سے کیا ہو توبیشک بقدرقیمت کفن وخرچ قبرترکہ سے واپس لے سکتی ہے۔
فی الخانیۃ من باب الوصی بعض الورثۃ اذا قضی دین المیت اوکفن المیت من مال نفسہ لایکون متطوعا وکان لہ الرجوع فی مال المیت والترکۃ۲؎ اھ  ملخصا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
خانیہ کے باب الوصی میں ہے اگرکوئی وارث میت کاقرض اپنے مال سے ادا کردے یا میت کو اپنے مال سے کفن پہنادے تو وہ اس میں تبرع واحسان کرنے والا قرارنہیں پائے گا بلکہ وہ مال میت اورترکہ میں رجوع کرسکتاہے اھ  ملخصا۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خاں     کتاب الوصایا     باب الوصی     فصل فی تصرفات الوصی     نولکشور لکھنؤ    ۴ /۳۵۴)
Flag Counter