Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
16 - 145
مسئلہ ۳۸ :کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی حیات میں بحالت نفاذ تصرفات ایک دکان اپنے نبیرہ کے نام اپنے روپے سے خریدکردی اور اسے بولایت اس کے باپ کے اس دکان پرقبضہ کرادیا، اب زید نے انتقال کیا، اس صورت میں وہ دکان حسب فرائض ورثہ زید پر منقسم ہوجائے گی یاصرف نبیرہ کو ملے ؟ بیّنوا توجروا ۔

الجواب : صورت مستفسرہ میں جب کہ زید نے وہ دکان اس کے نام خریدی اوربولایت اس کے پدر کے اسے قابض کردیا تووہ نبیرہ اس کامالک ہوگیا اور وہ دکان متروکہ زید نہ قرارپائے گی کہ حسب فرائض اس کے ورثہ پرتقسیم ہو۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۹ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی وارث چھوڑ کر انتقال کیا اور ہندہ نے اپنے پوتوں میں سے ایک پوتے کوجسے اپنا متبنٰی کیاتھا نسبت اپنی جائداد کے وصیت کیا بعد انتقال ہندہ اس کے ورثہ مذکورین اورنبیرہ موصی لہ میں پنچایت ہوئی سرپنچ و پنچان مقبولہ فریقین نے فیصلہ کردیا کہ تین بسوہ جائداد ہندہ سے بابت وصیت نافذہ فی الثلث نبیرہ موصی لہ کو دئیے اور باقی مال ورثہ پرتقسیم کردیا۔ اب پسرہندہ نے انتقال کیا اس کے اور بیٹے اپنے بھائی پردعوٰی کرتے ہیں کہ وہ تین بسوہ حسب فرائض ہم پرمنقسم ہوجائیں، اس صورت میں حکم شرع کیاہے؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں وہ تین بسوہ کہ نبیرہ موصی لہ نے بابت وصیت حسب فیصلہ پنچایت پائے ان کامالک صرف یہی موصی لہ ہے۔ اس کے اوربھائیوں کا اس میں کچھ حق دعوٰی نہیں، نہ وہ حسب فرائض ان پرتقسیم ہوسکیں کہ یہ متروکہ ان کے باپ کانہیں بلکہ اسے مال جدہ سے از روئے وصیت پہنچے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۴۰ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غلام محمد فوت ہوا اس نے ایک زوجہ اور ایک پسر اورسہ دختران وارث اپنے چھوڑے، ذی مہرقابض جائدادہے ترہ مورث کاتقسیم نہیں ہونے دیتی اورکہتی ہے پانچ ہزارروپیہ دین مہرمیرے کابموجب وصیت مورث کے اداکردو، بعدادا کرنے دین مہر کے جائداد تقسیم کرلو۔ اس صورت میں ترکہ مورث کابدوں ادائے دین مہر کے تقسیم ہوسکتاہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : ادائے دیون تقسیم ترکہ پرمقدم ہے پس جب تک مہر اور دیگردیون بھی اگرہوں ادانہ ہولیں  تقسیم نہ کرناچاہئے مگرہاں تعین مقدار پنج ہزاروپیہ میں تفصیل ہے اگریہ مقدار سوا اقرار مورث کے دوسرے طریقہ سے بھی ثابت ہے یامورث کاوہ مرض جس میں اس نے انتقال کیا مرض موت یعنی ایسا مرض نہ تھا جس میں غالب ہلاک ہوتا ہو یا اس کے سب سے وہ صاحب فراش یا کارہائے بیرون خانہ سے عاجز ہوگیا ہو یاورثہ نے بعد اقرار حیات مورث میں خواہ اس کے بعد تصدیق اس مقدار کے کئے تھے گو اب مجیز نہ ہوں یایہ مقدار مہرمثل زوجہ سے زائد نہیں تو ان سب صورتوں میں پورے پانچ ہزار دینالازم ہیں ورنہ بقدرمہر مثل دلایاجائے گا اورقدر زائد میں اقرار مورث کااعتبارنہ کیاجائے گا۔
فی الھندیۃ اقرفی مرض موتہ بدین من مہر لامرأۃ یصدق الٰی تمام مہرمثلہا وتحاص غرماء الصحۃ کذا فی خزانۃ  المفتین ولواقرلہا بزیادۃ علی مھر مثلہا فالزیادۃ باطلۃ کذا فی المبسوط۱؎۔
ہندیہ میں ہے کسی شخص نے مرض الموت میں اپنی بیوی کے لئے دین مہر کا اقرار کیاتو تمام مہرمثل تک اس کے اقرار کی تصدیق کی جائے گی اور وہ بیوی صحت کے قرضخواہوں میں شامل ہوجائے گی۔ خزانۃ المفتین میں یونہی ہے اور اگربیوی کیلئے مہرمثل سے زائد کا اقرار کیاتو زیادتی باطل ہے، مبسوط میں یونہی ہے۔(ت)
 (۱؎ الفتاوی الھندیۃ   کتاب الاقرار   الباب السادس     نورانی کتب خانہ پشاور     ۴ /۱۷۶)
مسئلہ ۴۱ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ فوت ہوئی زیدپسر، عائشہ دختر، خالد زوج  وارث چھوڑے۔ زیور واسباب متروکہ ہندہ، خالد اپنے تصرف میں لایا بعدہ، خالد بھی فوت ہوا۔ فاطمہ زوجہ اورزید وعائشہ پسرودختر وارث چھوڑے۔ مہربندہ کاذمہ خالد ہے، آیا زیدوعائشہ کوترکہ خالد سے مطالبہ اس زیورواسباب کاپہنچ سکتاہے یانہیں؟ اورمہرہندہ تقسیم ترکہ پرمقدم ہوگایانہیں؟ بیّنواتوجروا۔

الجواب: برتقدیر صدق مستفتی زید وعائشہ کومطالبہ اپنے سہام شرعیہ کا اس زیورواسباب کے متروکہ خالد سے پہنچتاہے اور ان سہام اورنیز مہرہندہ اورمہرفاطمہ بھی اگرہوتقسیم ترکہ پرمقدمہ ہے۔
مسئلہ ۴۲ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حیات ایک دخترسارہ اور ایک شوہر امیرالدین وارث اپنے چھوڑ کر فوت ہوئی بعدہ شوہر کا زوجہ فتح خاتون اورمریم اورتین پسرعلاء الدین بطن فتح خاتون سے اورحمید الدین، بشیرالدین بطن مریم سے اورتین دختر سارہ بطن حیات خاتون اورسکینہ وہندہ بطن مریم سے وارث اپنے چھوڑ کرمرگیا اورامیرالدین نے اپنی حیات میں بحالت نفاذ تصرفات ایک حصہ اپنی جائداد کافتح خاتون اورعلاء الدین کودے کرالگ کردیاتھا اس صورت میں امیرالدین کومتروکہ حیات خاتون سے کیاملے گا اور وہ ورثہ امیرالدین پرکیونکر تقسیم ہوگا اورفتح خاتون و علاء الدین بھی ترکہ امیرالدین سے حصہ پائیں گے یابسبب اس کے کہ وہ بقدراپنے حصص کے حیات مورث میں لے کرجداہوگئے تھے اب نہ پائیں گے۔بیّنواتوجروا۔
الجواب: صورت مستفسرہ میں برتقدیر صدق مستفتی الخ متروکہ حیات خاتون سے چہارم امیرالدین کوملے گا اوروہ مثل اس کے اور متروکات کے بشرط عدم موانع ارث ووارث اخروتقدیم دیون ومہور زنان و وصایا ۱۴۴ سہام پرمنقسم ہوکر ۹،۹سہام فتح خاتون ومریم اور ۲۸، ۲۸علاء الدین وحمیدالدین و بشیرالدین اور ۱۴،۱۴سارہ وسکینہ وہندہ کوملیں گے اورامیرالدین کے فتح خاتون وعلاء الدین کوایک پارہ جائداد دے کرالگ کردینا مانع ارث نہیں مگر ہاں اگریہ دینابطریق تصالح وتخارج تھا یعنی امیرالدین نے وہ جائداد ان دونوں کو اس شرط سے دی تھی کہ یہ میں تمہارے اس حصہ میں دیتاہوں جوتمہیں بعد میرے پہنچے اب تمہیں میرے بعد میری جائداد میں استحقاق میراث نہیں اور انہوں نے اس معنی کوقبول کرلیا اور اس پرراضی ہوگئے تو اب انہیں دعوی نہیں پہنچتا کہ وہ اپنا حصہ برضائے خود پہلے ہی لے چکے
صرح بذٰلک الشیخ العلامۃ عبدالقادر فی الطبقات
 (شیخ علامہ عبدالقادر نے طبقات میں اس کی تصریح فرمائی ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۳ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ زید فوت ہوا اور جائداد پرقبضہ چھوڑا اور دین مہر(لہ صہ) روپیہ چھوڑا کچھ جائداد وصی وارثوں نے اپنے قبضہ میں لے لی، بقیہ جائداد مسماۃ نے یعنی زوجہ متوفی نے بہ مجبوری بہ خوف کمی قیمت تصفیہ دین مہرفروخت کرکے قرضہ شوہر اداکیا اور آپ کچھ نہ لیا، اب ورثہ دعوٰی کرتے ہیں پس بلاادائے مہراور قرضہ یہ دعوٰی صحیح ہے یانہیں؟ اور  شرعاً ایسی بیع درست ہے یانہیں؟ اوردعوٰی تقسیم بلاتصفیہ مہرہوسکتاہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا (بیان فرمائیے اجردئیے جاؤگے۔ت)
الجواب :  تقریرسوال سے ظاہر کہ دین ترکہ کومحیط تھا اور درصورت احاطہ دین ورثہ کے لئے ترکہ میں ملک ثابت نہیں ہوتی نہ بے فراغ ذمہ بادایاابراء باہم تقسیم کرسکیں۔
فی الاشباہ والنظائر الدین المستغرق للترکۃ یمنع ملک الوارث قال فی جامع الفصولین من الفصل الثامن و العشرین لواستغرقہا الدین لایملکہا بارث الا اذا ابرأ المیت غریمہ او اداہ وارثہ بشرط التبرع وقت الاداء الخ۱؎۔
الاشباہ والنظائر میں ہے جوقرض ترکہ کااحاطہ کرنے والا ہو وہ ملک وارث سے مانع ہے، جامع الفصولین کی اٹھائیسویں فصل میں ہے اگرقرض ترکہ کا احاطہ کرے تو بطورمیراث کوئی اس کامالک نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ قرضخواہ میت کوبری الذمہ قراردے دے یاکوئی وارث ادائیگی کے وقت تبرع کی شرط کرتے ہوئے اس کو اداکردے الخ(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث    القول فی الملک     ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۲۰۴)
Flag Counter