فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
احمدی بی بی نے انتقال کیا ماں اورشوہر اورایک بھائی اوردوبہنوں کوچھوڑا، چونکہ تقسیم ترکہ کا رواج نہ تھا اور نہ کسی نے اپنے حصہ کا اس وقت مطالبہ کیا اس وجہ سے احمدی بی بی کے زیورات اور برتن وغیرہ اسباب جہیز میں سے (جوکل شوہر کے قبضہ میں تھے) شوہر نے بہت کچھ اپنی دوسری منکوحہ کوپہناکرسسرال سے میکے رخصت کردیا اوربرتن میں سے بھی کچھ اپنے عزیز کوبوقت ضرورت دے دیا اورخود یعنی وہ شوہر بھی تھوڑے دنوں کے بعد انتقال کرگیا، اب یہاں چندباتیں دریافت طلب ہیں : ایک یہ کہ احمدی بی بی کے ترکہ میں سے شوہر کاکتناہوناتھا ؟ دوسرے جوزیور وغیرہ کہ شوہر نے اپنی پہلی بیوی مسماۃ احمدی کے ترکہ مشترکہ میں سے بلا اجازت دیگر ورثہ کے دوسری منکوحہ کوپہنادیا وہ اس کایعنی دوسری منکوحہ کاہوایاشوہر کے مرنے کے بعد پھرشوہر کی طرف عودکرآئے گا اورشوہر ہی کی ملک سمجھاجائے گا؟ تیسرے یہ کہ اب احمدی بی بی کے باقی ورثہ یعنی ماں باپ بھائی وغیرہ اپنا حصہ لینے پر مستعد ہوئے ہیں تو اب ان ورثہ کاحق ان زیورات اوربرتن وغیرہ میں بھی ہوتاہے یانہیں جو شوہر متوفی نے اپنی دوسری منکوحہ کوبلا اجازت پہنادئیے تھے اورعزیز کو دے دئیے تھے اگرہوتاہے تویہ حق اب کس طرح لیاجائے، آیا ان زیورات اوربرتنوں کو دوسری منکوحہ اورعزیز سے واپس لے کرہرشخص بقدرحصے کے تقسیم کرے یا ان زیورات وغیرہ دے دی ہوئی چیزوں سے دستبردار ہوکرشوہر متوفی کے علاقہ سے بقدراپنے حصہ کے نقد روپیہ وصول کریں۔ چوتھے اس کی تصریح فرمائیے کہ شوہر اپنی حین حیات میں جوزیورات اورکپڑے کہ اپنی زوجہ کو پہنادئیے یاپہننے کو دے دئیے تو وہ زوجہ کاہوجاتاہے یانہیں یعنی اگرشوہرمرجائے تو وہ زیورات اورکپڑے زوجہ سے واپس لے کر شامل ترکہ کریں گے یانہیں؟بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجردئیے جاؤگے۔ت)
الجواب : بحالت صحت واختصاص وراثت وتقدیم دین ووصیت، ترکہ احمدی بی بی بارہ سہم پرتقسیم ہوکر دوسہم مادر، چھ شوہر، دوبرادر، ایک ایک ہرخواہر کاہوا۔ شوہر جوزیوراپنی عورت کوپہنائے اگرصراحۃً دلالۃً لفظاً عرفاً کسی طرح ثابت ہوکہ اس سے مقصود زوجہ کومالک کردیناہے توعورت بعد قبضہ مالک ہوجاتی ہے ورنہ نہیں۔ یہی حال ثیاب ونفقہ کے سوا ان بھاری گرانبہا جوڑوں کاہے جوشادی براتوں میں آنے جانے کے لئے پہنتے ہیں عورت کاصرف پہننا برتنادلیل مِلک نہیں کہ زن وشوہر اپنے اپنے باہمی انبساط کے باعث ایک دوسرے کے مِلک سے تمتع کیا ہی کرتے ہیں۔
بحرالرائق و عقودالدریہ میں ہے :
لایکون استمتاعھا بمشربہ ورضاہ بذٰلک دلیلا علی ان ملکہا ذٰلک کما تفھمہ النساء والعوام و قد افتیت بذٰلک مرارا ۱؎۔
عورت کاشوہر کی خواہش اوررضامندی سے زیور وغیرہ سے نفع اٹھانا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ عورت کی ملک ہے جیسا کہ عورتیں اورعوام سمجھتے ہیں حالانکہ میں کئی بار یہ فتوٰی دے چکاہوں۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ کتاب الدعوٰی لایکون استمتاع المرأۃ بما اشتراہ زوجہا الخ ارگ بازار قندھار افغانستان ۲ /۳۵)
پس وہ زیور کہ شوہر احمدی بی بی نے اپنی زوجہ ثانیہ کوپہنایا اور وہ برتن کہ عزیز کودئیے اگر ان میں دلیل ہبہ وتملیک ثابت نہ ہوجب توظاہر ہے کہ وہ زوجہ ثانیہ وعزیز مذکور سے واپس لے کروارثان شوہر وبقیہ ورثہ احمدی بی بی پرنصفا نصف منقسم ہوں گے۔ ہرچیز کانصف کہ حق شوہر تھا زوجہ ثانیہ ودیگرورثہ شوہر کوحسب فرائض پہنچے گا اور نصف باقی انہیں چھ سہام مذکورہ ہرمادروبرادر وخواہران احمدی بی بی کو اور اگرثابت ہوکہ شوہر نے یہ زیور، برتن زوجہ وعزیز کوہبہ کردئیے تھے تاہم وہ ہبہ ہرشیئ کے نصف میں کہ مملوک بقیہ ورثہ احمدی بی بی تھا بوجہ ناراضی مالکان باطل و بے اثر ہوا وہ ہرچیز کانصف زوجہ وعزیز سے بٹواسکتے ہیں، باوصف بقائے عین متروکہ خواہی نخواہی اخذ قیمت پرمجبورنہ کئے جائیں گے کہ ہرعدد کانصف ان موہوب لہما کے ہاتھ میں بطور غصب تھا اور مغصوب جب تک بعینہ قائم ہوحکم اس کا ردعین ہے نہ کہ ایجاب ضمان۔
قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علی الید ما اخذت حتی تؤدی رواہ احمد والاربعۃ ۱؎ والحاکم عن سمرۃ بن جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاتھ پرلازم ہے جوکچھ اس نے لیا یہاں تک کہ وہ اس کو اداکردے۔ اس کو امام احمدبن حنبل اوراصحاب سنن اربعہ اورامام حاکم نے سمرہ بن جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے سند حسن کے ساتھ روایت کیاہے۔(ت)
(۱؎ جامع الترمذی ۲/ ۱۵۲ و سنن ابی داؤد ۲ /۱۴۵ وسنن ابن ماجہ ص۱۷۵ ومسند احمدبن حنبل ۵ /۸)
ہاں نصف دیگرکہ حق شوہر تھابوجہ ہبہ شوہروقبضہ موہوب لہما وازانجاکہ زیور وبرتن دونوں ایسی چیزہیں جن کا ایک ایک عدد جداگانہ قابل تبعیض نہیں۔
ولایضر الشیوع فیما یضرہ التبعیض لکونہ ممالایحتمل القسمۃ ولذاجاز ھبۃ درھم صحیح من رجلین علی الصحیح کما فی الخانیۃ۲؎ وغیرھا وقال فی الحادی والثلثین من جامع الفصولین الشائع ینقسم علی قسمین شائع یحتمل القسمۃ کنصف الدار و نصف البیت الکبیر وشائع لایحتملہا کنصف قن ورحی وحمام وثوب وبیت صغیر فالفاصل بینھما حرف واحد وھو ان القاضی لو اجبر احد الشریکین علی القسمۃ بطلب الاٰخر فہو من القسم الاول ولو لم یجبرفہو من الثانی اذا الجبر آیۃ القبول ۱؎ اھ وفی القسمۃ الھندیۃ الاوانی المتخذۃ من اصل واحد کالاجانۃ والقمقمۃ والطست المتخذۃ من صفر ملحقۃ بمختلفۃ الجنس فلا یقسمہا القاضی جبرا کذا فی العنایۃ ویقسم تبرالفضۃ والذھب وما اشبہ ذٰلک مما لیس بمصوغ ۱ ؎ الخ۔
غیرمنقسم ہونا اس چیزمیں نقصان دہ نہیں جس میں تقسیم نقصان دہ ہے اس وجہ سے کہ وہ ان چیزوں میں سے ہے جو تقسیم کا احتمال نہیں رکھتیں اسی لئے دوشخصوں کوایک درھم کاہبہ صحیح قول کے مطابق درست ہے جیسا کہ خانیہ وغیرہ میں ہے۔ اورجامع الفصولین کی اکتیسویں فصل میں کہا کہ غیرمنقسم جوتقسیم کا احتمال رکھتاہے جیسے گھرکانصف اوربڑے مکان کانصف(۲) وہ غیرمنقسم جوتقسیم کااحتمال نہیں رکھتا جیسے غلام، چکی، حمام، کپڑے اور چھوٹے مکان کانصف۔ ان دونوں قسموں کے درمیان فرق ایک لفظ کے ساتھ ہے اور وہ یہ کہ اگرقاضی نے دوشریکوں میں سے ایک کو دوسرے کے مطالبے کی وجہ سے تقسیم پرمجبور کیا تو وہ پہلی قسم سے ہے، اوراگرمجبور نہیں کیا تو وہ دوسری قسم سے کیونکہ جبرقبول کرنے کی نشانی ہے الخ ہندیہ کی کتاب القسمۃ میں ہے کہ ایک ہی مادہ سے بنائے جانے والے برتن جیسے ٹب، دیگچہ اور تھال جوکہ پیتل سے بنائے گئے ہوں وہ ان چیزوں کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں جن کی جنسیں مختلف ہوں، چنانچہ قاضی ان کو جبراً تقسیم نہیں کرے گا۔ عنایہ میں یونہی ہے، اورسونے چاندی کے ٹکڑوں اورجوان کے مشابہ ہے جسے پگھلایانہ گیاہو کو قاضی جبراً تقسیم کرے گا الخ(ت)
(۲؎ فتاوی قاضی خاں کتاب الھبۃ فصل فی ھبۃ المشاع نولکشور لکھنؤ ۴ /۶۹۹) (۱؎ جامع الفصولین الفصل الحادی والثلاثون اسلامی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۲) (۲؎ الفتاوی الھندیۃ کتاب القسمۃ الباب الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۲۰۹)
وہ برتن اورزیور زوجہ ثانیہ وعزیز مذکور کی ملک ہوگیا جن سے اب واپسی ممکن نہیں
لمکان الزوجیۃ وموت الواہب وکلاھما یمنع الرجوع
(زوجیت کی موجودگی اورواہب کی موت کے سبب سے اور وہ دونوں رجوع سے مانع ہیں۔ت) اس بیان سے تمام مراتب مسئولہ کا جواب واضح ہوگیا۔
واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم