Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
14 - 145
مسئلہ ۳۳ : ازاٹنگہ مرسلہ حامدحسین خاں     ۱۰شوال ۲ ۱۳۱ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے ماں اور تین حقیقی چچاوارث چھوڑے اور اس کی ماں کے، انتقال ہندہ سے سال بھر بعد، ایک لڑکاپیداہوا، پس ترکہ ہندہ کا کس طرح منقسم ہوگا؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : غیرمیت سے جوحمل ہو وہ صرف تین صورتوں میں وارث ہوسکتاہے، یاتو وقت موت میت سے ٹھیک چھ مہینے پریا چھ مہینے کے اندرپیدا ہو یا اس کی ماں موت یاطلاق کی عدت میں ہو اور اس کے پیداہونے تک عدت گزرجانے کااقرارنہ کرے یاباقی وارث اقرار کرتے ہوں کہ یہ بچہ وقت موت میت اپنی ماں کے پیٹ میں تھا۔ سائل مظہر کہ یہاں یہ صورتیں نہ تھیں کہ لڑکا موت ہندہ سے سال بھربعد پیدا ہوا اور اس کاباپ زندہ رہا اور ماں کو طلاق بھی نہ ہوئی کہ عدت میں ہوتی اور دیگر ورثہ کو تسلیم بھی نہیں کہ یہ وقت موت ہندہ اپنی ماں کے حمل میں تھا۔ پس صورت مستفسرہ میں برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وتقدیم امورمقدمہ علی المیراث کالدین والوصیۃ ترکہ ہندہ کانوسہام پرمنقسم ہوکرتین سہم اس کی ماں اور دودوہرحقیقی چچا کو ملیں گے،
فی ردالمحتار وان کان (ای الحمل) من غیرہ فانما یرث لو ولد لستۃ اشھر او اقل والا فلا  الا اذا کانت معتدۃ ولم تقربا نقضائھا اواقرالورثۃ بوجودہ کما یعلم من سکب الانہر مع شرح ابن کمال وحاشیۃ یعقوب۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم
ردالمحتار میں ہے اگرحمل میت کے غیرکا ہے تو وہ اس صورت میں وارث بنے گا اگروہ پورے چھ ماہ کی مدت میں یا اس سے کم ترمدت میں پیداہو، ورنہ نہیں بنے گا سوائے اس کے کہ اس کی ماں معتدہ ہو اور اس نے عدت گزرجانے کا اقرارنہ کیاہو یاوارث اقرارکریں کہ یہ مورث کی موت کے وقت موجود تھا جیسا کہ سکب الانہر مع شرح ابن کمال اور حاشیہ یعقوب سے معلوم ہوتاہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الفرائض     فصل فی الغرقٰی والحرقٰی   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۵۱۱)
مسئلہ ۳۴  : ازپیلی بھیت ۵ذیقعدہ ۱۳۱۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اورفضلائے شرع مبین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک شادی ہندہ سے کی اور بہ سبب ناچاقی طرفین کے ہندہ اپنے باپ کے یہاں چلی آئی اور بعد کو اسی زید نے ایک شادی ایک طوائف سے کی، بعدہ، زیدفوت ہوگیا، اوربعدفوت ہونے زید کے طوائف بھی فوت ہوگئی اور اس طوائف نے اپنی کچھ ملکیت چھوڑی، تو اس ملکیت کامالک کون ہوگا جبکہ طوائف لاولد ہے آیا زیدکابھائی بہن یاہندہ یاکون ہوگا؟
الجواب : زن فاحشہ اگر ولدالزنا ہو تو اس کاترکہ اس کے مادری اقربا مثل مادر ومادر مادر وبرادر وخواہر مادری یاخالہ ماموں وغیرہم کوملے گا اوراگرولدالزنا نہ تھی تو اس کاترکہ مثل تمام لوگوں کے اقربائے پدری ومادری سب کو حسب فرائض پہنچے گا اور اگر اس کاکوئی وارث اصلاً نہ ہوگا توفقرائے مسلمین پرتقسیم کردیاجائے گا
کما ھو حکم سائر الضوائع
 (جیسا کہ تمام لاوارث چیزوں کاحکم ہے۔ت) بہرحال زید کے بہن بھائی یاہندہ کااس میں کوئی حق نہیں مگر جب کہ ثابت ہوکہ اس کاکوئی وارث شرعی نہیں اور ترکہ فقراء کودیناٹھہرے توان میں جو فقیرہو بحکم فقرمثل اورفقرأ کے پاسکتاہے۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۳۵ :ازمارہرہ مطہرہ     مرسلہ حضرت میاں صاحب قبلہ دام ظلہم العالی ۱۳ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ترکہ حرامیوں کاکیسے تقسیم ہو، باپ کی سمت تومفقودمحض ہوگئے ماں کی سمت کوپہنچے گا یااس کوبھی نہیں، مثلاً ایک عورت کی دوبیٹیاں ہیں اوردونوں حرام سے، توبعد فوت ایک اخت کے دوسری اخت وارثہ ہوگی یانہیں، اوراگر ایک اخت عقد کرکے پردہ نشین ہوگئی دوسری بدستور بے پردہ اور پیشہ کسب کا رکھتی ہے تو اس اخت تائبہ کاترکہ اس غیرتائبہ کو ملے گایانہیں؟ اوراگرملتا ہو اور یہ تائبہ اس خیال سے کہ میراترکہ فاحشہ کو نہ ملے کہ اس کے فسق وفجور میں مددپہنچے گی اپنامال امورخیر میں صرف کردے تو یہ جائزہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : اولادزنا صرف مادری رشتوں سے وارث ومورث ہوتی ہے مثلاً صورت مسئولہ میں ایک بہن دوسری کاترکہ اخت مادری ہوکر پائے گی نہ اخت عینیہ، اگرچہ دونوں ایک ہی شخص کے نطفہ سے ہوں۔
درمختارمیں ہے:
یرث ولدالزنا واللعان بجھۃ الام فقط لما قدمناہ فی العصبات انہ لااب لہما۱؎۔
زِنا اورلعان کی اولاد فقط ماں کی جہت سے وارث بنتی ہے جیسا کہ ہم عصبات میں ذکرکرچکے ہیں ان دونوں کاکوئی باپ نہیں ہوتا(ت)
(۱؎ الدرالمختار         کتاب الفرائض     فصل فی الغرقٰی والحرقٰی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۳۶۵)
اور جس طرح اُخت تائبہ غیرتائبہ کی وارث ہوتی ہے یونہی غیرتائبہ تائبہ کی وارث ہوگی کہ زانیہ ہوناموانع میراث سے نہیں، ہاں بخیال مذکورتائبہ کااپنے مال کو وجوہ خیرمیں صَرف کردینا اور فاحشہ کے لئے میراث نہ چھوڑنا بتصریح علماء جائزبلکہ یہی افضل وبہترہے۔
خلاصہ میں ہے :
لوکان ولدہ فاسقا فارادان یصرف الٰی وجوہ الخیرہ ویحرمہ عن المیراث ھذا خیر من ترکہ۱؎۔
اگرکسی شخص کی اولاد فاسق ہو اور وہ شخص چاہے کہ اپنامال نیکی کے کاموں میں خرچ کرے اور فاسق اولاد کومیراث سے محروم کردے۔ تو یہ فاسق اولاد کے لئے مال چھوڑنے سے بہترہے۔(ت)
 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی   کتاب الھبۃ     الفصل الاول         الجنس الثانی         مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۴ /۴۰۰)
بزازیہ میں ہے :
ان اراد ان یصرف مالہ الی الخیر وابنہ فاسق فالصرف الی الخیر افضل من ترکہ لہ لانہ اعانۃ علی المعصیۃ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 اگرکسی نے ارادہ کیاکہ وہ اپنا مال نیک کام میں خرچ کرے اس حال میں کہ اس کا بیٹا فاسق ہو۔ اس بیٹے کے لئے مال چھوڑنے سے نیک کام میں خرچ کرناافضل ہے کیونکہ اس کے لئے مال چھوڑنا گناہ پرمدد کرناہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ فتاوٰی بزازیۃ علٰی ہامش الفتاوی الھندیۃ  کتاب الھبۃ، الجنس الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور ۶ /۲۳۷)
مسئلہ ۳۶ و ۳۷ :    ازلکھنؤ محمودنگر اصح المطابع مرسلہ مولوی محمدعبدالعلی صاحب مدراسی ۱۷صفر۱۳۱۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسائل مصرحہ ذیل میں:
سوال اوّل
شاہ محمدعیسٰی وشاہ محمدیعقوب وشاہ محمد فصاحت ہرسہ برادران حقیقی ایک جائداد مشترک پرقابض ودخیل تھے، شاہ محمد عیسٰی نے انتقال کیا، دولڑکے تین لڑکیاں چھوڑیں، لڑکے نے دو لڑکیوں کانکاح مختلف جگہوں پرکردیا، وہ دونوں چندروز کے بعد مرگئیں۔ اب تقسیم ترکہ کے وقت ترکہ میں وہ حصہ جائداد بھی شامل کیاجائے جولڑکیوں کے باپ کی جائداد متروکہ مشترکہ میں سے ہوتایانہیں، اورواضح رہے کہ وہ جائداد اوّلاً شاہ محمد عیسٰی، شاہ محمد فصاحت میں مشترک تھی۔ پھربعد انتقال شاہ محمدعیسٰی کے ان کے لڑکے اور شاہ محمدیعقوب وشاہ محمد فصاحت میں مشترک رہی اور آج تک بدستور مشترک ہے صرف نام تینوں آدمیوں کاکاغذات سرکاری میں داخل ہے لیکن تحصیل وصول انتظام وغیرہ سب ایک جابالا شتراک ہوتاہے آپس میں بقدرحصہ کے لوگ تقسیم کرلیتے ہیں۔ لڑکیوں نے اپنی حیات میں اپناحصہ بھی نہیں مانگا اور نہ دینے کاعرف ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس جائداد میں جومشترک درمشترک ہے(یعنی پہلااشتراک ابن شاہ محمدعیسٰی و شاہ محمدیعقوب وشاہ محمدفصاحت میں اور دوسرا اشتراک شاہ محمد عیسٰی کے لڑکے اورلڑکیوں میں) ان لڑکیوں کے شوہروں کاکچھ حق ہوتاہے کہ نہیں؟ تفصیل سے حوالہ قلم فرمائیے۔ بیّنواتوجروا۔
الجواب : ارث جبری ہے کہ موت مورث پر ہروارث خواہ مخواہ اپنے حصہ شرعی کامالک ہوتاہے مانگے خواہ نہ مانگے، لے یانہ لے، دینے کاعرف ہویانہ ہو، اگرچہ کتنی ہی مدت ترک کوگزر جائے، کتنے ہی اشتراک دراشتراک کی نوبت آئے اصلاً کوئی بات میراث ثابت کوساقط نہ کرے گی، نہ کوئی عرف فرائض اﷲ کوتغیرکرسکتاہے، یہاں تک کہ نہ مانگنا درکنار اگر وارث صراحۃً کہہ دے کہ میں نے اپناحصہ چھوڑ دیا جب بھی اس کی مِلک زائل نہ ہوگی توشاہ محمدعیسٰی کے ترکہ میں بشرط عدم مانع ارث و وارث آخروتقدیم دین ووصیت، ہردختر سات سہام سے ایک سہم کی مالک ہوئی اور ہردختر کے متروکہ سے بشرائط مذکورہ اگرلاولد تھی شوہرنصف ورنہ ربع کاجس کے ثبوت میں دوآیہ قرآنیہ :
یوصیکم اﷲ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین۱؎۔
اﷲ تعالٰی تمہیں حکم دیتاہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کاحصہ دوبیٹیوں کے برابرہے۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۱)
وقولہ تعالٰی ولکم نصف مماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیۃ یوصین بہا اودین۱؎۔
اور اس کافرمان ہے اور تمہاری بیبیاں جو  چھوڑجائیں اس میں سے تمہیں آدھا ہے اگر ان کی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی اولاد ہوتو ان کے ترکہ میں سے چوتھائی ہے جووصیت وہ کرگئیں اور دَین نکال کر۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۴ /۱۲)
اشباہ میں ہے :
لایدخل فی ملک الانسان شیئ بغیر اختیارہ الا الارث اتفاقا۲؎ الخ۔
انسان کی ملکیت میں اس کے اختیار کے بغیر کوئی شیئ داخل نہیں ہوتی مگر میراث بالاتفاق داخل ہوتی ہے الخ (ت)
 (۲؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث   القول فی الملک     ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۲۰۲)
اسی میں ہے:
لوقال الوارث ترکت حقی لم یبطل حقہ اذا الملک لایبطل بالترک۳؎۔
اگروارث نے کہا کہ میں نے  اپناحق چھوڑدیاہے تو اس کاحق باطل نہیں ہوگا کیونکہ مِلک چھوڑدینے سے باطل نہیں ہوتا۔(ت)
 (۳؎الاشباہ والنظائر    الفن الثالث     احکام النقد    ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۱۶۰)
غمزالعیون میں ہے:
لومات عن ابنین فقال احدھما ترکت نصیبی من المیراث لم یبطل لانہ لازم لایترک بالترک بل ان کان عینا فلابد من التملیک وان کان دینا فلابد من الابراء۴؎۔
اگرکوئی شخص دوبیٹے چھوڑکرمرگیا ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے میراث میں سے اپناحصہ چھوڑدیا تو اس کاحصہ باطل نہیں ہوگا، کیونکہ وہ حصہ لازم ہے جوچھوڑدینے سے متروک نہیں ہوتا بلکہ اگروہ عین ہوتو اس کے لئے تملیک ضروری ہے، اور اگردین ہو تو اس سے برأت کرناضروری ہے الخ (ت)
 (۴؎ غمزالعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر   ادارۃ القرآن کراچی  ۲ /۱۶۰)
اشباہ میں ہے:
الحق لایسقط بتقادم الزمان۱؎۔
زیادہ زمانے کے گزرجانے کی وجہ سے حق ساقط نہیں ہوتا۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثانی     کتاب القضاء     ادارۃ القرآن کراچی     ۱ /۳۵۳)
اسی میں ظہیریہ سے ہے :
التعامل بخلاف النص لایعتبر۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
نص کے خلاف لوگوں کاتعامُل معتبرنہیں ہوتا۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎الاشباہ والنظائر  الفن الاول  القاعدۃ السادسۃ  ادارۃ القرآن کراچی  ۱ /۱۲۸)
Flag Counter