فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
مسئلہ ۳۱ : ۲۵ربیع الآخر۱۳۱۲ھ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں،ایک عورت اوربیٹی اس کی مسلمان ہوئی اور ایک میں سے اس نے نکاح کرلیا اوراپنی بیٹی کابھی نکاح کردیا۔ اور جس مردنے مال لیاتھا اس کی پہلی بی بی سے اولاد ہے اوراس نومسلم عورت اورشوہرثانی سے کوئی اولاد نہ ہوئی بجز اس لڑکی کے اورکوئی اولاد نہیں، ماں باپ فوت ہوگئے، اب یہ عورت جو رہی اس کا خاوند مرا، موافق شرع شریف کے اس کے خاوند کا جوکچھ ترکہ تھا تقسیم ہوگیا، اب یہ عورت مری، اس کی کوئی اولاد نہیں دوبھائی اس کے ہیں ماں میں شریک نہیں ماں باپ الگ ہیں، اب اس عورت کاترکہ کس طرح تقسیم ہو؟ بیان کرواﷲ تعالٰی اجردے گا۔
الجواب : شوہرمادر کے بیٹے جونہ اپنے باپ کے نطفے نہ اپنی ماں کے پیٹ سے ہوں وارث نہیں، پس اگرعورت مذکورہ کاکوئی وارث شرعی مسلمان موجودنہیں نہ اس نے کسی کے لئے اپنے مال کی وصیت کردی تو اس کاکل مال بعد ادائے دَین(اگر اس کے ذمہ ہو) محتاج بیکس مسلمانوں کو دے دیاجائے یا ان دواداروکفن میں صرف کیاجائے اگریہ پسران شوہر مادربیکس محتاج ہیں توانہیں بھی دیں یا انہیں کودے دیں، غرض یہ محتاج ہوں تو بوجہ محتاجی مستحق ہوسکتے ہیں نہ بوجہ وراثت۔
درمختار میں ہے :
ترکۃ بلاوارث مصرفہا لقیط فقیر وفقیر بلاولی ۱؎ اھ ملخصا۔
وہ ایساترکہ جس کاکوئی وارث نہیں، اس کا مصرف وہ گراپڑا بچاہے جس کو کسی فقیرنے اٹھالیایاایسافقیرہے جس کاکوئی ولی نہیں اھ ملخصا(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الجہاد فصل فی الجزیۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵۴)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ وفقیر بلاولی ای لیس لہ من تجب نفقتہ علیہ قال فی البحر یعطی منہ نفقتھم وادویتھم ویکفن بہ موتاھم ویعقل بہ جنایتھم۲؎ اھ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
مصنف کاقول کہ ''ایسافقیر جس کاولی نہیں'' اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایساشخص موجود نہیں جس پر اس فقیر کانفقہ واجب ہو۔ بحرمیں فرمایا کہ اس مال میں سے فقراء کا نفقہ، دوائیاں، ان کے مردوں کاکفن اور ان کی جنایتوں کی دیت دی جائے گی اھ ، واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الجہاد فصل فی الجزیۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۸۲)
مسئلہ ۳۲ : ازکلکتہ مدرسہ عالیہ مرسلہ مولوی سیدعبدالرؤف صاحب طالبعلم ساکن ڈھاکہ عشرہ شعبان المعظم ۱۳۱۴ھ چہ می فرمایند علماء دین متین اندرینکہ شخصے درہنگام زوجہ وے اموال خودرابحین حیات خود درمیان ورثہ کہ ورائے اوچہار پسرویک دختربودند ہیچک اعتراض نکردہ واظہار انکاربرعدم شمار اودرمیان ورثہ نانمودہ باہتمام خودحصہ یک پسرراکہ برتقدیر عدم شمار اودرمیان ورثہ دوبہرہ ازنہ سہام می شدی بہ زوجہ پسرکلاں وے درعوض کابین نوشتہ داد وباختیار خود رجسٹری نمود بعداز وفات زن بوقت اخذ پسران دیگربہرہائے خودرا دعوٰی نماید ومیگوید کہ ربع ازاموال متروکہ زن بمن میرسد پس اگر ربع ازمابقی بعد ازاخذ زوجہ پسریکہ دوبہرہ ازنہ برضائے اویافتہ گرفتہ آید حیف علی الارث پسران دیگرلازم آید کہ زن درحین حیات خودبریں راضی ناشدہ زوج را اجمالاً چیزے ازاموال خود دادہ راضی برعدم اخذ ترکہ وے نمودہ بود تاحیف علی الارث درحقوق فرزندان دیگرکہ ورائے پسرکلاں اوبودند لازم نیاید بیّنواتوجروا۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کی بیوی نے اپنی زندگی میں شوہر کے سوا دیگر ورثاء میں جوکہ چاربیٹے اور ایک بیٹی ہیں اپنا مال تقسیم کردیا، اورشوہر نے تقسیم کے وقت کوئی اعتراض نہیں کیا، اور وارثوں میں اسے شمار نہ کئے جانے پرانکار ظاہرنہیں کیا بلکہ ورثاء کے درمیان اس کاشمارنہ ہونے کی صورت میں ہرایک بیٹے کو نَو میں سے جودوحصے ملتے ہیں ان کوبڑے بیٹے کی بیوی کے مہر کے عوض تحریر کرتے ہوئے اپنے اختیار سے رجسٹری کرانے کااہتمام کیا۔ اب بیوی کی وفات کے بعد دوسرے بیٹوں کے اپنا حصہ لینے کے وقت خاوند دعوٰی کرتے ہوئے کہتاہے کہ بیوی کے متروکہ مال میں سے چوتھا حص مجھے ملتاہے۔ چنانچہ خاوند کی رضامندی سے بڑے بیٹے کی بیوی کے نو۹ میں سے دو۲ حصے وصول کرنے کے بعد باقی میں سے خاوند کو اگر چوتھا حصہ دیاجائے تودوسرے بیٹوں کی میراث پرظلم لازم آتاہے کیونکہ عورت نے اپنی زندگی میں اس صورت حال پرراضی نہ ہوتے ہوئے شوہر کواپنے مال میں سے کوئی چیز دے کرترکہ میں سے کچھ نہ لینے پراس کو راضی کیاتاکہ دوسرے بیٹوں کے حقوق میں میراث پر ظلم لازم نہ آئے جوکہ اس کے بڑے بیٹے کے علاوہ ہیں۔ بیان کرواجردئیے جاؤگے۔(ت)
الجواب : اگرچہ مسئلہ بس غریبہ کہ از اغرب مسائل توان گفت بعض علماء صورتے آوردہ اند تابصورت تخارج بحیات مورث کما ذکرہ فی الاشباہ عن طبقات الشیخ عبدالقادر عن خزانۃ الجرجانی عن ابی العباس الناطقی عن بعض مشائخہ وفی جامع الرموز عن الناطقی ثم اعقبہ عن الجواھربما ھو اوفق واقرب وفی جامع الفصولین عن جامع الفتاوٰی حکی قولین کما فی ردالمحتار قلت ورأیت فی جامع الفصولین قدم قبلہ عن السیر الکبیر للامام محمد ماھو الموافق للاصول والمرافق للمعقول والمنقول کما اشرنا الی کل ذٰلک فیما علقنا علٰی ردالمحتار امّا آں نیز بایں طورست کہ مورث ہریکے از ورثہ امالے دہدبرآں شرط کہ پس ازمرگ بہرہ ازامیرشش نباشد اینجا بعداستفسار حالے ظاہرشد کہ زن شوہر خود راچیزے ندادہ است بلکہ مالے بنام پسرپنجمین اوکہ از ہمخوابہ پیشین بودہ ہمراہ پسران خودش تعیین نمود وشوہر ہمبریں معنی راضی باسقاط حقش ازمیراث شد پس ایں نماند جز وعدہ تبرک ارث ووعدہ مجردہ جز قضا رانسزد فی الظھیریۃ والخانیۃ والھندیۃ لایلزمہ الوفا بالمواعید۱؎ ۔
اگرچہ مسئلہ بہت انوکھا ہے کہ اس کو سب سے انوکھا مسئلہ کہاجاسکتاہے بعض علماء نے اس کومورث کی زندگی میں تخارج کی صورت قراردیاہے جیسا کہ اشباہ میں طبقات شیخ عبدالقادر سے بحوالہ خزانۃ الجرجانی نقل کیاہے، اورجرجانی نے ابوالعباس ناطقی سے اس کے بعض مشائخ کے حوالے سے ذکرکیا، اورجامع الرموز میں ناطقی سے نقل کیا، پھر اس کے بعد جواہر کے حوالے سے ذکرکیا جوکہ اوفق واقرب ہے۔ اورجامع الفصولین میں جامع الفتاوٰی کے حوالے سے منقول کہ انہوں نے دوقول نقل کئے جیسا کہ ردالمحتار میں ہے، میں کہتاہوں میں نے جامع الفصولین میں دیکھا کہ انہوں نے اس سے ماقبل امام محمد کی سیر کبیر سے وہ قول نقل فرمایا جو اصول کے موافق اورمعقول ومنقول کے مناسب ہے جیسا کہ ہم نے ردالمحتار پراپنی تعلیق میں اس تمام کی طرف اشارہ کیاہے لیکن وہ بھی اس طورپر ہے کہ مورث وارثوں میں سے ہرایک کو اس شرط پرکچھ مال دے کہ اس کے مرنے کے بعد میراث میں ان کاکوئی حصہ نہیں ہوگا جبکہ اس جگہ تفتیش کے بعد یہ حالت ظاہرہوئی کہ عورت نے اپنے شوہر کو کوئی چیز نہیں دی بلکہ کچھ مال اپنے پانچویں بیٹے کے لئے جوکہ پہلے خاوند سے ہے اپنے دوسرے بیٹوں کے ساتھ مختص کیا۔ اورشوہر اس صورت پرمیراث میں سے اپناحق ساقط کرنے پر راضی ہوا، چنانچہ یہ میراث چھوڑنے کے وعدہ کے سواکچھ نہیں اور محض وعدہ سوائے قاضی کی قضا کے کسی شیئ کے لائق نہیں۔ ظہیریہ، خانیہ اورہندیہ میں ہے کہ وعدوں کی وفااس پرلازم نہیں۔
(۱؎ الفتاوی الھندیۃ کتاب الاجارہ الباب السابع نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۴۲۷)
وفی الذخیرۃ والھندیۃ ھذا وعد منہ ولایلزمہ بذٰلک شیئ۲؎ خاصہ درامرمیراث کہ ھم باختیار وارث نیست بلکہ بناچار رسد فی الاشباہ من القول فی الملک لایدخل فی ملک الانسان شیئ بغیر اختیارہ الا الارث اتفاقا و کذا الوصیۃ فی مسألۃ۱ ؎ الخ خاصہ بحالے آں وعدہ پیش ازثبوت ارث ہم درحیات مورث صورت بست وپیداست کہ سقوط پیش ازثبوت معنی ندارد الاتری ان المرأہ لو اسقطت حقھا من القسم کان لہا الرجوع قال فی غمز العیون انما جازلہا الرجوع لان حقہا لم یکن ثابتا بعد فیکون مجرد وعد فلایلزم کالمعیر۲؎الخ ولہٰذا اگرمورث برائے وارثے وصیتے کرد ودیگران بحیاتش رضا دادندایں اجازت بجولے نیز زدوایشاں راپس ازمرگ مورث رجوع میرسد۔
ذخیرہ اورہندیہ میں ہے یہ اس کی طرف سے وعدہ ہواجس سے اس پرکچھ لازم نہیں آتا خصوصاً میراث کے معاملے میں جووارث کے اختیار سے نہیں بلکہ جبری طورپر اسے پہنچتی ہے۔اشباہ کے اندرملکیت کے قول میں ہے کہ انسان کی ملکیت میں اس کے اختیار کے بغیرکوئی شیئ داخل نہیں ہوتی مگرمیراث بالاتفاق اس کی ملکیت میں داخل ہوتی ہے اور اسی طرح وصیت ایک مسئلہ میں الخ خاص طورپر اس حال میں کہ وہ وعدہ بھی میراث کے ثبوت سے پہلے مورث کی زندگی میں رونما ہوا۔ پس ظاہرہے کہ کسی چیز کے ثبوت سے پہلے اس کا ساقط ہوناکچھ معنی نہیں رکھتا۔ کیاتو نہیں دیکھتا کہ عورت اگراپنی باری کاحق ساقط کردے تو اسے رجوع کاحق ہوتاہے۔ غمزالعیون میں کہاکہ اس کو رجوع کاحق اس لئے ہوتاہے کہ اس کاحق ابھی تک ثا بت نہیں ہوا تو یہ محض ایک وعدہ ہوگا جولازم نہیں ہوتا جیسا کہ عاریت پردینے والاالخ اور یہی وجہ ہے کہ اگرمورث نے کسی وارث کے لئے وصیت کی اور دوسروں نے اس کی زندگی میں رضامندی ظاہرکردی تو یہ اجازت وجوب کے لائق نہیں اور ان وارثوں کومورث کے مرنے کے بعد رجوع کاحق حاصل ہے۔
(۲؎الفتاوی الھندیۃ کتاب الاجارہ الباب السابع نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۴۲۷) (۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث القول فی الملک ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۰۲) (۲؎ غمزعیون البصائر الفن الثالث احکام النقد ومایتعین فیہ الخ ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۱۶۲)
فی الدرالمختار لاتعتبر اجازتھم حال حیاتہ اصلا بل بعد وفاتہ۳؎ فی ردالمحتار لانھا قبل ثبوت الحق لھم لان ثبوتہ عندالموت فکان لھم ان یردوہ بعد وفاتہ بخلاف الاجازۃ بعد الموت لانہ بعد ثبوت الحق وتمامہٖ فی المنح ۱؎ پس دعوی شوہربجائے خودست آنچہ ہنگام مرگ زن درملک زن بودہ ربع اوبشرط عدم موانع ارث وتقدیم ماتقدم کالدین والوصیۃ بشوہرش می رسد وہیچ حیف درمیراث لازم نیست کہ آنچہ پسرکلاں پیش ازموت مورثہ یافت اگرمالکہ بروجہ صحیح شرعی تملیک اوکردہ بودآں مقدار از ارث خودبیروں رفت کہ ارث متعلق نہ شود جزبترکہ وترکہ نیست جزآنکہ ہنگام موت مورث درملک اوست۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے مورث کی زندگی میں وارثوں کی اجازت بالکل معتبرنہیں بلکہ اس کی وفات کے بعد معتبرہے۔ ردالمحتارمیں ہے اس لئے کہ وہ اجازت ان کاحق ثابت ہونے سے پہلے واقع ہوئی ہے کیونکہ ان کاحق موت کے وقت ثا بت ہوتاہے تو ان کے لئے جائزہے کہ وہ مورث کی وفات کے بعد اس کو رَد کردیں بخلاف مورث کی موت کے بعد ہونے والی اجازت کے کیونکہ وہ حق کے ثبوت اور اس کی تمامیت کے بعد واقع ہوئی ہے(المنح)، چنانچہ شوہر کا دعوٰی برمحل ہے، جوکچھ بوقت موت عورت کی ملکیت میں تھا اس کا چوتھا حصہ شوہر کوملے گا بشرطیکہ میراث سے روکنے والی کوئی چیز نہ پائی جائے، اور جوچیزیں میراث سے مقدم ہیں انہیں مقدم کردیاگیا ہو جیسے قرض اوروصیت۔ اور میراث میں کوئی ظلم لازم نہیں آتا کیونکہ عورت کی موت سے پہلے جوکچھ اس کے بڑے بیٹے نے پایا اگر مالکہ نے شرعی طریقے پر اس کومالک بنادیاتھا تو اتنی مقدار خودمیراث سے خارج ہوگئی کیونکہ میراث کاتعلق ترکہ کے ماسوا کے ساتھ نہیں ہوتا اورترکہ سوائے اس شیئ کے نہیں جو مورث کی موت کے وقت اس کی ملکیت میں ہو۔ اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے۔(ت)
(۳؎ الدرالمختار کتاب الوصایا مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۱۷) (۱؎ ردالمحتار کتاب الوصایا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۴۱۷)