Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
12 - 145
امام محقق علی الاطلاق مالک ازمۃ الترجیح والفتیافتح القدیر میں فرماتے ہیں :
عندی الاحسن سبعون لقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام اعمار امتی مابین الستین الی السبعین فکانت المنتھی غالبًا ۱؎۔
میرے نزدیک سب سے بہتر سترسال والا قول ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ سے سترسال تک کے درمیان ہوں گی۔ چنانچہ غالباً سترپر زندگی کی انتہا ہوتی ہے۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر  کتاب المفقود    المکتبۃ النوریۃ الرضویۃ سکھر      ۵ /۳۷۴)
جواہراخلاطی میں ہے :
انہ احوط واقیس۲؎
 (بے شک وہ زیادہ احتیاط والا اور زیادہ قرین قیاس ہے۔ت)
(۲؎جواہراخلاطی         مسائل المفقود     قلمی نسخہ         ص۱۲۰)
اسی میں ہے :
وعلیہ الفتوی۳؎
 (اور اسی پرفتوٰی ہے۔ت)
 (۳؎جواہراخلاطی         مسائل المفقود     قلمی نسخہ         ص۱۲۰)
اس مدت میں اگرظاہرہو کہ مفقود زندہ ہے یابعد موت مادرزندہ تھا اگرچہ ایک آن بعد مرگیا تو یہ چھ سہام بحالت حیات خود اسے، ورنہ بحسب اَحکام فرائض اس کی زوجہ وغیرہ ان کے ورثہ کو کہ اس کی موت کے وقت زندہ تھے اگرچہ اب مرچکے ہوں دے دئیے جائیں اور اگرثابت ہوکہ مفقود پیش ازمادرمرگیاتھا یامدت مذکورہ گزرجائے اورکچھ ثبوت نہ ہو یہاں تک کہ روزفقدان سے اس کی موت کاحکم کردیاجائے تو ان سہام میں اس کے ورثہ کا کچھ حق نہیں بلکہ انہیں چار اولاد موجود کو دئیے جائیں ہرپسر کودو ہردخترکوایک۔
فی التنویر یوقف قسطہ فان ظھر حیافلہ ذٰلک وبعدہ یحکم بموتہ فی مال غیرہ من حین فقد فیرد الموقوف لہ الی من یرث مورثہ عند موتہ۴؎ اھ  ملخصًا۔
تنویر میں ہے مفقود الخبر کاحصہ موقوف رکھیں گے اگروہ زندہ ظاہرہوگیا تو یہ حصہ اس کاہے، اس کے بعد (یعنی اس کے ہم عمروں کے مرنے کے بعد (یعنی اس کے ہم عمروں کے مرنے کے بعد) اس کے گم ہونے کے وقت سے غیرکے مال میں اس کی موت کاحکم دیاجائے گا، چنانچہ جوکچھ اس کے لئے موقوف رکھاگیا تھا وہ ان کی طرف لوٹادیں گے جو اس کے مورث کی موت کے وقت وارث بنے تھے اھ  ملخصًا(ت)
 (۴؎ الدرالمختار شرح تنویرالابصار     کتاب المفقود    مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۳۶۹)
یہ چھ سہام تاانفصال احکام اس کے پاس امانۃً رہیں گے جس کے قبضہ میں متروکہ مذکورہ اس وقت یعنی بعد موت مورثہ ہے خواہ وہ کوئی پسر موجود ہو یادختر یازن پسر یاکوئی اجنبی جس میں حفظ واصلاح ضروری کے سوا کسی تصرف مالکانہ کا اسے اصلاً اختیارنہ ہوگا جب تک اس سے کوئی خیانت ظاہرنہ ہو ورنہ اس کے قبضہ سے نکال کر کسی عادل ثقہ امین متقی خداترس کو سپرد کریں گے،
فتح میں ہے :
رجل مات عن ابنتین وابن مفقود وابن ابن والمال فی یداجنبی لاینزع من یدالاجنبی الا اذا ظھرت خیانتہ فیوخذ منہ ویوضع علٰی یدعدل ولوکان فی یدالبنتین لایحول المال من موضعہ ولوکان فی یدولدا المفقود یوقف فی ید من کان فی یدہٖ ۱؎  اھ  ملتقطاً۔
کوئی شخص دوبیٹیاں ایک مفقود بیٹا اور ایک پوتاچھوڑ کرمرگیا جبکہ اس کامال کسی اجنبی کے قبضہ میں ہے تو وہ مال اجنبی کے ہاتھ سے واپس نہیں لیاجائے گا مگر اس وقت جب اس کی خیانت ظاہرہوجائے اس صورت میں اس سے مال لے کر کسی عادل کے قبضہ میں دے دیاجائے گا، اور اگر مال دونوں بیٹیوں کے قبضہ میں ہے تو وہ مال اپنی جگہ سے نہیں ہٹایاجائے گا، اور اگروہ مقصود کی اولاد کے قبضہ میں ہے تو مفقود کاحصہ اسی کے ہاتھ میں موقوف رکھاجائے گا جس کے ہاتھ میں وہ ہے  اھ  ملتقطاً(ت)
 (۱؎ فتح القدیر   کتاب المفقود     المکتبۃ النوریۃ الرضویۃ     ۵/ ۷۵۔۳۷۴)
فقیرکہتاہے غفراﷲ تعالٰی لہ، امین نہ کریں گے اس پر مگرجومال غیر کو نارسوزاں جانتاہو اور قبول نہ کرے گا اسے مگرفاسق افسق یاغافل احمق یاعادل مرفق قلیل ماھم ھیہات ھیہات کہاں علم اور کہاں عدالت،
لاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم ط واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۹ :ازتھانہ کچھا علاقہ خام     ۲۳ربیع الاول ۱۳۱۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غلام غوث نے اپنی پہلی بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی کی، پھردوسری کے انتقال ہوجانے کے بعد تیسری شادی کی، پہلی کا حقیقی بھائی اوردوسری کی ایک لڑکی جو اس کے ساتھ آئی تھی اور تیسری مع اپنے لڑکے کے جو ہمراہ آیاتھا زندہ ہے، تینوں عورتوں کامہرپینسٹھ پینسٹھ روپیہ کابندھاتھا، اب شرع شریف کے نزدیک کتنامہر کس کس وارث کو پہنچے گا؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں پہلی بیوی لاولد کے بھائی یا اس کے سوا اورجو وارث ہوانہیں ترکہ غلام غوث سے مہر کے بتیس ۳۲روپے آٹھ آنے دئیے جائیں، اور دوسری کی بیٹی وغیرہ ورثہ کو اس کے مہر کے ا ڑتالیس روپے بارہ آنے، اورتیسری کہ زندہ ہے اسے اس کے مہرکے پورے پینسٹھ (۶۵) روپے۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۳۰ : ازمیرٹھ چھتہ شیخاں مرسلہ حافظ محمداکبرصاحب ۲۵ربیع الآخر۱۳۱۲ھ

زید مع اپنے کل خاندان کے کافر ہے، ہندہ زید کی بیٹی اورجہندہ زید کی بیوی، بعد مرنے زید کے دونوں مسلمان ہوگئیں۔ ہندہ رنڈی بن کر کسب کرانے لگی اپنی ذاتی جائداد پیدا کی اورنکاح کرلیا اب وہ مرگئی اورسوائے خاوند کے کوئی وارث نہیں، ہندہ کے ماموں زاد بھائی کی جو اس وقت تک کافرہے دوبیٹیاں مسلمان ہوگئیں ان کا باپ یعنی ہندہ کاماموں زاد بھائی کافرہے، کیایہ دونوں وارث شرعی ہندہ کے ترکہ کی ہوسکتی ہیں؟ اور ان کاباپ حاجب ہے اور مانع اختلاف دینیین کا اس پراثر ہے او ریہ دونوں ذوی الارحام ہیں۔ بینواتوجروا
الجواب : ہندہ کی ماں اگر اس سے پہلے مرگئی بعد اس کے صرف شوہر اوریہ دوعورتیں اس کے ماموں زاد بھائی کی بیٹیاں رہیں اس کاکوئی رشتہ دار مسلمان کہ درجہ وراثت میں ان کے ہمسریاان سے مقدم ہو، نہیں، تومتروکہ ہندہ بعدادائے دیون ووصایا چارسہام پرمنقسم ہوکردوسہم شوہر اور ایک ایک ان دونوں عورتوں کو ملے گا اور ان کے کافر باپ کا زندہ ہونا انہیں محروم نہ کرسکے کہ کافر ترکہ مسلم میں مردہ ہے اورمردہ نہ خود وارث ہونہ دوسرے وارث کومحروم کرسکے۔
شریفیہ میں ہے :
المحروم عن المیراث بالکلیۃ لایحجب عندنا غیرہ اصلا لاحجب حرمان ولاحجب نقصان ھو قول عامۃ الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھم روی ان امرأۃ مسلمۃ ترکت زوجا مسلما واخوین من امہا مسلمین وابناکافرا فقضی فیہا علی وزید بن ثابت رضی اﷲ تعالٰی عنہما بان للزوج النصف ولاخویھا الثلث ومابقی فھو للعصبۃ۱؎ اھ   واﷲ تعالٰی اعلم۔
جوشخص کلی طورپر میراث سے محروم ہوہمارے نزدیک وہ کسی غیرکے لئے بالکل حاجب نہیں بنتا، نہ حجب حرمان کے ساتھ اور نہ ہی حجب نقصان کے ساتھ۔ عام صحابہ کرام کا یہی قول ہے رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔ مروی ہے کہ ایک مسلمان عورت نے مسلمان خاوند اور  دومسلمان اخیافی بھائی اورایک کافربیٹا چھوڑا۔ تو اس کے بارے میں حضرت علی مرتضٰی اور حضرت زیدبن ثابت رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے فیصلہ دیا کہ اس کے خاوند کے لئے نصف اور دنوں بھائیوں کے لئے ایک تہائی ہے، اور جوباقی بچا وہ عصبہ کےلئے ہے اھ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
 (۱؎ الشریفیہ شرح السراجیۃ  باب الحجب  مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور ص۴۹)
Flag Counter