Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
11 - 145
مسئلہ ۲۶  : صفرالمظفر۱۳۱۲ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے بلاوصیت انتقال کیا اور چھوڑی جائداد منقولہ مکسوبہ ومتفرقہ خودازقسم زر نقد وزبور طلائی وغیرہا اوراثاث البیت خانگی، ایک مکان مع حصہ  اراضی موروثی، اور وارثان شرعی زید کے حسب ذیل : یک برادر حقیقی بکرحیات، یک زوجہ ہندہ جوتخمیناً یک ماہ بعد زید کے مرگئی اور اپنامہر شرعی روبرو شاہدین شوہر زید کو معاف کردیا تھا اور خوردونوش یکجائی ہندہ کے بعد  وفات شوہر کے بہمراہی بکرمکان مذکور میں تھی چنانچہ تجہیز وتکفین ورسومات موتہ زید ونیز ہندہ کی زید کے روپے  سے ہوئی۔ بعد وفات کے مسمیان خالد ومحمود، حامد، احمدبرادران ہندہ متوفیہ زر نقد مع زیورمذکورہ بالا جس پر کہ زیدبحیات خود باختیار تصرف مثل رہن وبیع وغیرہ وقتاً فوقتاً مالکانہ متصرف تھا اس کو برادران ہندہ باخفائے  ورثائے زید مکان موروثی سے لے گئے، لہٰذا اب تنازع بابت متروکہ زید کے درمیان ورثاء زید یعنی بکروخالد وحامدومحمود واحمد کے ہے، پس صورت مذکورہ بالا تقسیم متروکہ کے کس طورپرہوناچاہئے اورتجہیزوتکفین وسویم وغیرہا زید کی بکرنے زید کے روپے سے اورہندہ کی تجہیزوتکفین وغیرہ برادران ہندہ نے زیدکے روپے سے کی۔ بینواتوجروا۔
الجواب : جو زیورملک زیدتھا(یعنی نہ جہیزہندہ کاتھا نہ زید نے ہندہ کو تملیک کردیاتھا اگرچہ پہننے کو دیاہو) وہ متروکہ زید ہے خاص ورثاء اس کے مستحق نہیں۔ برادر زید نے تجہیزوتکفین زیدبقدرسنت میں جوخرچ کیا  وہ مجراپائے گا کہ اسے نکال کرباقی ترکہ وارثان زید پرتقسیم ہوگا، اور جوکچھ صدہ خیرات روز وفات وقت دفن وسوم وغیرہا میں اٹھایا وہ خاص برادر زید کے حصہ پر پڑے گا، باقی ورثہ کو اس سے سروکارنہیں۔ پس برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث و انحصار ورثہ فی المذکورین وصحت ترتیب اموات خرچ تجہیزوتکفین زیدبقدر سنت اورنیز اگرکوئی دین ذمہ زید ہو وہ اداکرکے جوباقی بچے مع اس روپہے کے جو برادرزید وبرادران ہندہ نے خرچ فاتحہ وصدقہ وغیرہا میں اٹھایا سب کے سولہ سہام کریں ان میں سے چار سہم کامل خواہرزید کو دیں اور آٹھ سہم میں خرچ فاتحہ وصدقات زید شامل کرکے برادرزید کو دیں یعنی جوکچھ برادرزید نے فاتحہ میں اٹھایا وہ اسے وصول پایا ہواتصورکریں باقی چارسہام میں کل خرچ تجہیزوتکفین ہندہ بقدرسنت وخرچ فاتحہ ہندہ کہ برادران ہندہ نے کیا سب شامل کرکے برادران ہندہ کودیں یعنی موت ہندہ کاکل خرچ انہیں چارسہام پرڈالیں پھر اس میں سے خرچ مسنون ترکہ ہندہ پرپڑے گا اورخرچ زائد صرف ان برادران کے حصہ پرجنہوں نے اٹھایا اور سب نے اٹھایا توسب پر۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۲۷ : ازشہرکہنہ     ۹ربیع الاول ۱۳۱۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت کے بیٹے نے انتقال کیا پوتا اوربھتیجے موجود ہیں، بھتیجے اس پرزورڈالتے ہیں کہ اپنامال ہمیں لکھ دے اس لئے کہ ہم تیرے وارث ہیں پوتا محجوب الارث ہوچکاہے، اس صورت میں پوتے کو محروم کرکے بھتیجوں کو لکھ دیناجائزہے یانہیں؟ اور ان کی درخواست قابل سماعت ہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : ان کی یہ درخواست مہمل وناقابل سماعت ہے اول توحیات مالک میں اس مال کاکوئی وارث نہیں اور بعد موت کب معلوم کون زندہ ہوگاکون مردہ، اوراگرعورت کے بعد پوتا اور بھتیجے سب باقی رہے توپوتاہی وارث ہوگا۔ بھتیجے اس کے ہوتے کچھ نہ پائیں گے تومحجوب الارث خود بھتیجے ہوں نہ کہ پوتا۔ پوتا اپنے دادی دادا کاخود وارث ہے نہ بواسطہ پدر کہ ان کے پہلے مرجانے سے یہ محجوب الارث ہوجائے، یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ عورت کو ہرگزجائزنہیں کہ پوتے کو محروم کرنے کے لئے اپنامال بھتیجوں کولکھ دے۔
حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من فرّ من میراث وارثہ قطع اﷲ میراثہ من الجنۃ یوم القیٰمۃ، والعیاذباﷲ تعالٰی، رواہ ابن ماجۃ عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
جو اپنے وارث کی میراث سے بھاگے اﷲ تعالٰی روزقیامت اس کی میراث جنت سے قطع فرمادے۔ (اﷲ تعالٰی کی پناہ۔اس کو ابن ماجہ نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔ت)
واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
 (۱؎ سنن  ابن ماجہ     کتاب الوصایا     باب الحیف فی الوصیۃ     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص۱۹۸)
مسئلہ ۲۸  : ازلکھنؤ محلہ محمودنگر مطبع مصطفائی مرسلہ مولوی ابوالخیر محمدجان صاحب ۱۹ربیع الاول شریف ۱۳۱۲ھ

علمائے دین رحمہم اﷲ تعالٰی اس مسئلہ میں کیافرماتے ہیں کہ مثلاً زید کے تین لڑکوں اور دولڑکیوں میں سے ایک لڑکا بحیات والدین بالکل مفقودالخبرہوگیا پچیس تیس برس سے اس کاکہیں پتانہیں، اس درمیان میں پہلے اس کے والد نے پھر اس کی والدہ نے انتقال کیا اب زید متوفی کے لڑکے اپنے والدین متوفیین کے متروکہ کو حسب ہدایت شرع شریف تقسیم کرنا چاہتے بلکہ ماں کے متروکہ کو کیونکہ جائداد ماں کے نام ہے لیکن اس مفقودالخبرلڑکے کی زوجہ جو ہنوز زندہ ہے عذرکرتی ہے کہ میرے زوج مفقودالخبر کابھی حصہ لگاؤ اورچونکہ وہ نہیں ہے لہٰذا حصہ وہ مجھے دو، پس استفسار کیاجاتا ہے کہ ابن مفقودالخبر کی زوجہ عندالشرع زوج  مفقودکاحصہ پاسکتی ہے یانہیں؟ اگرپاسکتی ہے توکس قدر؟ اور لڑکیوں کاحصہ کیا ہوگا؟ بینواتوجروا۔
الجواب : وہ لڑکا کہ حیات مادر میں مفقودالخبرہوگیا ترکہ مادرمیں مثل میت  ہے۔
فی التنویر میت فی حق غیرہ فلایرث من غیرہ۱؎۔
تنویرمیں ہے مفقودالخبرغیر کے حق میں مردہ ہوتاہے لہٰذا وہ غیرکاوارث نہیں بنے گا۔(ت)
 (۱؎الدرالمختار شرح تنویرالابصار    کتاب المفقود    مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۳۶۹)
توجب تک بعد وفات مادر اس کازندہ رہناشرعاً ثابت نہ ہوجائے اس کی زوجہ وغیرہ مدعیان ارث مفقود کوترکہ مادری سے اس کے حصہ کامطالبہ ہرگزنہیں پہنچتا کہ بے اس ثبوت کے شرعاً خود اسے ترکہ مذکورہ سے کچھ نہ ملے گا اس کے ورثہ کو بذریعہ توریث بالواسطہ پہنچنا کیامعنٰی، بلکہ وہ ترکہ برتقدیر عدم موانع ارث و وارث آخر وتقدم مقدم کالدین والوصیۃ، چوبیس سہام پرمنقسم کریں ہرپسر موجود کو چھ ہردختر کوتین دے کرچھ موقوف رکھیں یہاں تک کہ عمرمففقود سے سترسال کامل گزرجائیں یعنی وہ مدت منقضی ہوکہ اگرزندہ ہوتا توستر۷۰ برس کاہوجاتا مثلاً وقت فقدان بست ۲۰سالہ تھا اور مفقود ہوئے تیس ۳۰ برس ہوئے تو بیس برس اورانتظار کریں یاپینتیس ۳۵ سال کی عمرمیں گمااب پچیس گزرے تودس برس۱۰۔
ھذا احسن مایصار الیہ ویعول علیہ فانہ المؤید بالحدیث و شاھد حال الزمان للحدیث ان المرمٰی ھٰھنا ھو حصول الظن لیس الا فانہ لاسبیل الی الیقین فتقدیر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خیرمن تقدیر غیرہ وقد نص العلماء کشارحی المنیۃ العلامۃ المحقق محمد بن امیرالحاج فی الحلیۃ والعلامۃ ابراھیم الحلبی فی الغنیۃ وغیرھما فی غیرھما انہ لایعدل عن درایۃ ماوافقتھا روایۃ۱؎ لاسیما وھو الارفق بالناس و الاوفق بالزمان فقد تقاصرت الاعمار وتعجلت المنون وحسبنااﷲ ونعم الوکیل فلذا عولنا علیہ فی جمیع فتاوٰنا وباﷲ التوفیق اخرج الترمذی عن ابی ھریرۃ وابویعلٰی عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہما قالا قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعمار امتی مابین الستین الی السبعین واقلھم من یجوز ذٰلک۲؎ سندہ حسن کما نص علی الحافظ فی فتح الباری،
اور یہ بہتر ین قول ہے جس کی طرف رجوع کیاجائے اور اس پربھروسا کیاجائے کیونکہ حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے اور حال زمانہ حدیث کا شاہد ہے کیونہ یہاں عمرکی حد مقررکرنا محض گمان غالب کی بنیاد پرہے کیونکہ یہاں یقین کی کوئی صورت نہیں۔ پس رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا اندازہ مقررفرمانا غیرکے اندازے سے بہترہے۔ اورعلماء نے نص فرمائی ہے جیسا کہ منیہ کے دوشارحین علامہ محقق محمد بن امیرالحاج نے حِلیہ میں اور علامہ ابراہیم حلبی نے غنیہ میں، اور ان دونوں کے علاوہ دیگرعلماء نے دیگر کتابوں میں تصریح فرمائی کہ اس دِرایت سے عدول نہیں کیاجائے گا جس کی موافقت روایت کرے خصوصاً جبکہ اس میں لوگوں کے لئے زیادہ نرمی اور زمانے کے ساتھ زیادہ موافقت موجود ہو۔ تحقیق عمریں کم ہوگئیں اور موتیں جلدی واقع ہونے لگیں۔ اﷲ تعالٰی ہمیں کافی ہے اور کیاہی اچھا کارسازہے۔ اسی لئے ہم نے اپنے تمام فتاوٰی میں اس پراعتماد کیا اور توفیق اﷲ تعالٰی ہی کی ہے۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ  اور ابو یعلٰی نے انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے تخریج کی، ان دونوں نے کہا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کی عمریں ساٹھ اورسترسال کے درمیان ہوں گی بہت کم ان میں سے ایسے ہوں گے جو اس سے آگے بڑھیں۔ اس کی سند حسن ہے جیسا کہ فتح الباری میں حافظ نے اس پرنص کی ہے۔(ت)
 (۱؎ غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی     فرائض الصلوٰۃ الثامن تعدیل الارکان   سہیل اکیڈمی لاہور     ص۲۹۵)

(جامع الترمذی     ابواب الدعوات     باب منر        امین کمپنی دہلی      ۲ /۱۹۴)

(۲؎ کنزالعمال برمزت عن ابی ہریرہ     حدیث ۴۲۶۹۷        مؤسسۃ الرسالہ بیروت     ۱۵ /۶۷۷)
Flag Counter