فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی ) |
مسئلہ ۲۱: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شیخ محمد علی نے زوجہ رحموا، ابن غلام محمد دوبنت بجو، منیرن او رایک مکان خام جس میں دوسوگز، زمین تھی چھوڑکرانتقال کیا پھربجو مادررحمواور شوہروپسر ودختر چھوڑکرفوت ہوئی پھررحمو نے پسرغلام محمد دختر منیرن چھوڑ کر وفات پائی غلام محمد نے بعد پدراس مکان خام کا ایک حصہ کچے گمے اور ایک حصہ بیرونی پختہ اینٹ سے بصرف خویش تعمیرکیا اور تین سو ساٹھ روپے اپنے اوپرقرضہ اور صرف اسی مکان کا حصہ متروکہ اور زوجہ تیاربی بی دوپسر علی محمد، ولی محمد، دخترآبادی بیگم چھوڑ کر رحلت کی۔ علی محمد، ولی محمد نے باپ کی تجہیزوتکفین کی اور کل قرضہ اداکیا۔ اس صورت میں حصہ غلام محمد کس قدرہوا اور وارثان آبادی بیگم ترکہ غلام محمد سے اپنی موروثہ کاحصہ علی محمد ولی محمد سے بے ادائے قرضہ پانے کے مستحق ہیں یا اب ترکہ علی محمد کہ صرف یہی حصہ ہے اور اس کی مقدار دین مذکور سے بہت کم ہے علی محمد وولی محمد کامدیون ہوگیا کہ جب تک یہ دین ادانہ ہو کوئی وارث حصہ پانے کا مستحق نہیں۔بیّنواتوجروا
الجواب : برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وصحت ترتیب اموات وتقدیم مایقدم کالمہروالوصیۃ ترکہ شیخ محمدعلی سے حصہ غلام محمد ۲۸۸ / ۱۵۷ ہے
کمایظہر بالتخریج و ردالکسر الٰی اقل المخارج
(جیسا کہ تخریج اور کسر کو اقل مخرج کی طرف لوٹانے سے ظاہر ہے۔ت) یعنی اگر اس جائداد کے دوسو اٹھاسی حصے کئے جائیں تو ان میں سے ایک سو ستاون غلام محمد کے ہوں گے باقی وارثان منیرن وشوہر واولاد بجو کے، اور جب کہ حسب بیان سائل ترکہ غلام محمدصرف یہی ہے اور وہ مقداردین سے بہت کم، توجب تک دین ادانہ کرلیاجائے کوئی وارث غلام محمدبذریعہ وراثت اس سے کچھ نہیں پاسکتا۔ جائداد جیسے پہلے اورشخص کے دین میں مستغرق تھی اب علی محمد و ولی محمد کا دین اس پرمحیط ہے جبکہ انہوں نے صراحۃً یہ نہ کہہ دیا ہو کہ ہم یہ قرضی محض بطور تبرع واحسان اداکرتے ہیں ترکہ پدری سے واپس نہ لیں گے۔
اشباہ میں ہے :
والدین المستغرق للترکۃ یمنع ملک الوارث، فی جامع الفصولین لواستغرقہا دین لایملکہا بارث الا اذا ابرأہ المیت غریمہ او اداہ وارثہ بشرط التبرع وقت الاداء، اما لواداہ من مال نفسہ مطلقا یجب لہ دین علی المیت فتصیر مشغولۃ بدین فلایملکہا۱؎ اھ ملخصًا، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
جوقرض ترکہ کو محیط ہو وہ وارث کی ملکیت سے مانع ہے۔ جامع الفصولین میں ہے اگر قرض ترکہ کا احاطہ کرلے تو بطور میراث اس ترکہ کا کوئی مالک نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ جب قرض خواہ میت کو بری کردے یا اس میت کا کوئی وارث وہ قرض ادا کردے اس طور پر کہ وہ ادائیگی کے وقت تبرع کی شرط کرے۔ اور اگر اس نے اپنے مال سے قرض اداکیا مطلقاً بغیرشرط تبرع ورجوع کے تو اس وارث کاقرض میت پرثابت ہوگا۔ چنانچہ وہ ترکہ قرض میں مشغول ہوگا لہٰذا وارث اس کامالک نہیں بنے گا اھ ملخصا، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث القول فی الملک ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۰۴)
مسئلہ ۲۲: ۶ذیقعد۱۳۱۰ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ترکہ تاج محمد کا اس کے ورثہ احیاء پرچارلاکھ تین ہزار دوسوسہام ہوکریوں منقسم ہوا :
26_5.jpg
مسئلہ ۲۳ : کیافرماتے علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کے دو لڑکے عمروبکر ہیں جس میں سے عمر بڑا لڑکا اور بکرچھوٹا لڑکاہے۔ زید نے دونوں لڑکوں کی شادی کراکر اپنی جائدادکونصف نصف دونوں بہؤوں پریعنی زوجہ بکر وزوجہ عمرپرتقسیم کرکے بیع کردی، بعد کو بکر کی زوجہ نے انتقال کیا۔بیّنواتوجروا۔
الجواب: اگرمدعی اب تک وہاں موجود نہ تھا یابوجہ نابالغی وغیرہ معذورتھا یابکر کو اقرار ہوکہ یہ جائداد بذریعہ میراث زوجہ اس نے پائی ہے تو ان صورتوں میں دعوی مدعی قابل سماعت ہے ورنہ نہیں
کما فصلہ العلماء فی کتبھم مثل الفتاوی الخیریۃ والعقود الدریۃ وغیرھما۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
جیسا کہ علماء نے اپنی کتابوں میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ مثلاً فتاوٰی خیریہ اورعقودالدریۃ وغیرہ۔ اور اﷲ تعالٰی خوب جانتاہے(ت) مسئلہ ۲۴ : ۳۰صفر۱۳۱۱ھ
26_6.jpg
مسئلہ ۲۵ : علمائے دین ومفتیان شرع متین کیافرماتے ہیں اس بارے میں کہ مسمی زیدفوت ہوا ایک زوجہ اورچنداولاد بیٹاوبیٹی متوفی کے وارث ہیں، زوجہ چاہتی ہے کہ ترکہ متوفی کابعوض دین مہر کے کہ ادا نہیں ہوا ہے مجھ کو ملناچاہئے۔ دین مہرکثیر، ترکہ قلیل، دین مہر کو کافی نہیں ہوسکتا ہے۔ دیگرورثاء کہتے ہیں کہ بموجب فرائض کے ترکہ میں سے وراثتاً سب کو حصہ ملناچاہئے، اب اول ادائے دین مہر ہوناچاہئے یاترکہ وارث کل ورثاء پرتقسیم ہوئے۔
الجواب : ادائے مہرتقسیم ترکہ پرمقدم ہے جب تک مہرادایامعاف نہ ہولے کوئی وارث کچھ نہیںپاسکتاجبکہ اس کی مقدار ترکہ سے زائد ہے۔
قال تعالٰی من بعد وصیۃ توصون بہا اودین۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا : اس وصیت کے بعد جوتم کرجاؤ اور قرض کے بعد۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴ /۱۲)
مگرعین جائداد کامہرمیں دیاجانا ضروری نہیں ورثہ کواختیار ہے کہ مہر اپنے پاس سے اداکریں اور جائداد تقسیم ترکہ کے لئے بچالیں یاجائداد بیچ کرادائے مہرمیں صرف کی جائے۔ واﷲ تعالٰی اعلم