Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔)
9 - 135
مسئلہ ۲۰ : ازکلکۃ دھرم تلا نمبر۱ مرسلہ جناب مرزاغلام قادربیگ صاحب     ۵جمادی الآخر۱۳۱۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہاں کلکۃ میں نمکین بسکٹوں میں منشی تاڑی بغرض خمیر ملائی جاتی ہے شیریں میں ہیں مگرمیدہ گوندھنے کے ظرف دونوں کے ایک ہی ہیں اوروہ تخۃ جس پربسکٹ بنائے جاتے ہیں وہ بھی ایکی ہی ہوتاہے نمکین بسکٹ کے سیربھر آٹے میں پاوبھرتاڑی ملائی جاتی ہے نمکین کا کھاناجائز ہے یانہیں اورشیریں کاکیاحکم ہے؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپائے۔ت)۔
الجواب : جوبہتی چیزنشہ رکھتی ہو مذہب صحیح میں اس کاقطرہ قطرہ نہ صرف حرام بلکہ نجس بھی ہے ھذا ھو قول محمد وھو الصحیح وعلیہ الفتوٰی(یہ ہی امام محمدعلیہ الرحمہ کاقول ہے، یہی صحیح ہے اور اسی پرفتوٰی ہے۔ت) پس صورت مستفسرہ میں نمکین بسکٹ مطلقاً حرام ونجس ہیں، اورشیریں میں تین صورتیں، اگرثابت ہوکہ ان کے میدہ یاخمیر میں بھی اس نجاست کے اجزاء ضرور مخلوط ہوتے ہیں تویہ بھی حرام وناپاک، اوراگرتحقیق ہوکہ یہ محفوظ رہتے ہیں مثلاً انہیں التزام ہے کہ جب نمکین کے بعد شیریں بناتے ہیں تو دست وظروف کوبقدرکافی دھوڈالتے ہیں اس کے بعد شیریں کامیدہ گوندھتے بناتے ہیں اگرچہ اس دھونے سے ان کی نیت تطہیر نہ ہو بلکہ صرف اس خیال سے کہ ان میں نمکینی نہ آجائے یا اورکسی وجہ سے یہ دھونا ایساواقع ہوتاہے کہ نجاست کے اجزاء دست وظروف سے زائل ہوجاتے ہیں توشیریں مطلقا حلال وطیب، اوراگرمشکوک ومتحتل ہو مثلاً ایک دن میں جس قدریکے بعد دیگرے بنتے ہیں ان میں تو  شست وشونہیں ہوتی توناکافی وناقابل تطہیر، مگردوسرے دن جوبنانا شروع ہوتاہے تورات کے باسی برتن خوب دھولئے جاتے ہیں اورہمیشہ پہلے نمکین بنانے کا التزام نہیں بلکہ کبھی نمکین کبھی شیریں سے ابتداکرتے ہیں تو اس صورت میں شیریں کامعاملہ محتمل رہا، ممکن کہ بعد تطہیر پہلے ہی بنے ہوں، ممکن کہ پہلے نمکین بن کریہ بلاتطہیر بنائے گئے اوران میں اجزائے نجاست مل گئے ہوں، اس تقدیرپرجن خاص میٹھوں کی نسبت معلوم ہوکہ ان میں خلط نجاست واقع ہوا وہ حرام جن کی نسبت تحقیق ہوکہ ان میں نہ ہوا وہ طیب حلال جن کی نسبت کچھ علم ہو انہیں حرام یاناپاک نہیں کہہ سکتے،
فان الاصل ھو الحل والطھارۃ فلایعارضہ الاحتمال ولیس للیقین بالشک زوال۔
بیشک اصل حل وطہارت ہے چنانچہ احتمال اس کامعارضہ نہیں کرسکتا اورنہ ہی یقین شک کے ساتھ زائل ہوسکتاہے۔(ت)
ان کاحکم ہندوؤں کی بنائی ہوئی مٹھائی، دودھ، دہی، ملائی وغیرہا اشیاء کاہوگا کہ کھاناحلال اقوربچنابہتر، فتوٰی جواز اورتقوٰی احتراز، یہ سب اس تقدیرپرہے کہ نمکین میں انہیں مسکرتاڑی ڈالنے کا التزام ہوخواہ یوں کہ بازار میں مسکرہی ملتی ہے وہ وہیں سے لیتے ہیں یایوں کہ جس غرض سے ڈالتے ہیں وہ مسکرہی سے حاصل ہوتی ہے غیرمسکرکام نہیں دیتی، اواگریہ دونوں امرنہ ہوں بلکہ وہ کبھی مسکرکبھی غیرمسکر ہرقسم کی تاڑی ڈالاکرتے ہیں کوئی خاص التزام نہیں تواب نمکین بسکٹوں پرمطلقاً حرمت کاحکم نہیں بلکہ ان کا حال وہ ہوگا جو صورت ثالثہ میں شیرین کاتھا کہ جس خاص کاحال معلوم حکم معلوم ورنہ کھانا روابچنا اولٰی۔ تاڑی چندساعت دھوپ کی حرارت پاکرجوش لاتی ہے اورمسکرہوجاتی ہے یاجس گھڑی میں لی گئی اس میں پہلی تاڑی کا اثرہوتو اپنی شدت لطافت کے سبب یوں بھی سکرلے آتی ہے ورنہ اگرکوراگھڑا وقت مغرب باندھیں اور وقت طلو ع اتار کر اسی وقت استعمال کریں تو اس میں جوش نہیں آتا یہ اگر ثابت ہوتو اس وقت تک وہ حلال وطاہرہوتی ہے جب جوش لائی ناپاک وحرام ہوئی، پھرکہاجاتاہے کہ س کے بعد بھی اس کی یہ حالت دیرپانہیں رہتی بلکہ کچھ مدت کے بعد ترش ہوکرسرکہ ہوجاتی ہے جس طرح تذکرہ طبیب داؤد انطاکی میں نارجیل کی نسبت ہے :
قدیفسد طلعہ اوجریدہ ویلقم کوزا فیسیل منہ لبن، ویُسَمّی السیندی یبقی یوما علی الحلاوۃ والدسومۃ ولہ افعال اشد من الخمر وھو خیر منھا ثم یکون خلا بالغاقاطعا۔۱؎
کبھی اس کاگابھا یاٹہنی فاسد ہوجاتے ہیں اور کوزے کادھانہ بند ہوجاتاہے تو اس سے دودھ بہنے لگتاہے جس کوسیندھی کہاجاتا ہے اس کی حلاوت اورچکنائی ایک دن باقی رہتی ہے اس کے افعال شراب سے زیادہ سخت ہوتے ہیں اوریہ اس سے بہتر ہے پھریہ تندوتیزسرکہ بن جاتاہے۔(ت)
 (۱؎ تذکرۃ اولواالالباب لداؤد انطاکی     حرف النون     ذکرنارجیل     مصطفی البابی مصر    ۱ /۳۲۷)
مگرمیرمحمدمومن کے لفظ تحفہ میں یہ ہیں :
حلاوت او تایک روزباقی ست بعدازیک روزمانندسرکہ تُرش می شود۲؎۔
اس کی حلاوت ایک دن باقی رہتی ہے پھروہ ترش سرکہ بن جاتاہے۔(ت)
 (۲؎ تحفۃ المؤمنین علٰی ھامش مخزن الادویۃ     تحت لفظ نارجیل     نولکشورکانپور    ص۵۵۳)
لیکن سرکہ ہوجانے اورمثل سرکہ تُرش ہوجانے میں فرق ہے، غرض اگرثابت ہوکہ تاڑی ایک وقت تک مسکرنہیں ہوتی یا ایک وقت کے بعد مسکرنہیں رہتی اورانہیں خاص مسکرہی کے ڈالنے کا التزام نہیں بلکہ دونوں طرح کے استعمال کرتے ہیں جب توحکم یہ ہے، اوراگرثابت ہواکہ اس مدت مقررہ کے بعد اس کے اجزا خواہی نخواہی سرکہ ہوجاتے ہیں اگرچہ آٹے میں مل کر تنورمیں پک چکے ہوں تواس مدت کے گزرنے پربسکٹ مطلقاً حلال ہوجائیں گے،
لان الحرمۃ کانت لمجاور وقد تبدل عینہ قال فی الدرالمختار لوعجن خبز بخمر صب خل فیہ حی یذھب اثرہ فیطھر۳؎ فی ردالمحتار لانقلاب مافیہ من اجزاء الخمر خلا۔۴؎
کیونکہ حرمت مجاور کی وجہ سے ہے اور اس کا عین بدل گیاہے اور درمختارمیں ہے اگر شراب میں آٹا گوندھ کر روٹی پکائی گئی حتی کہ شراب کااثر جاتارہا تووہ پاک ہوجائے گی۔ ردالمحتارمیں ہے اس لئے کہ اس کی حقیقت بدل کرسرکہ بن گئی ہے۔(ت) اوراگریہ امورناثابت ہوں توحکم وہی ہے کہ اول مذکور ہوا، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم ۔
 (۳؎ الدرالمختار     کتاب الطہارت     باب الانجاس         مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۵۶)

(۴؎ ردالمحتار   کتاب الطہارت     باب الانجاس    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۲۲۳)
مسئلہ ۲۱ : ازگلگٹ چھاؤنی جوئنال مرسلہ سیدمحمدیوسف علی صاحب ۱۰شعبان  ۱۳۱۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جوشخص شراب پیئے وہ کیساہے؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپائیے۔ت)
الجواب : اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا وَالْمُسْلِمِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن
 (اے اﷲ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کومحفوظ رکھ اپنی رحمت کے ساتھ اے بہترین رحم فرمانے والے۔ت) شراب حرام اور پیشاب کی طرح ناپاک اور اس کاپیناسخت گناہ کبیرہ اورپینے والافاسق فاجرناپاک بیباک مردود وملعون مستحق عذاب شدید وعقاب الیم ہے، والعیاذباﷲ  رب العالمین، اﷲ ورسول جل جلالہ وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس پرسخت سخت وعیدیں ہولناک تہدیدیں فرمائیں، ہ یہاں صرف بعض پر اکتفاکرتے ہیں :
حدیث(۱) :  رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لایشرب الخمر حین یشربھا وھو مؤمن رواہ الشیخان۱؎ غیرھما عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
شراب پیتے وقت شرابی کا ایمان ٹھیک نہیں رہتا (اس کو شیخین وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔ت)
 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب الاشربہ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲ /۸۳۶)

(صحیح مسلم   کتاب الایمان     باب بیان نقصان الایمان بلامعاصی    قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۵۵)
حدیث (۲) : (رسول اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کاارشاد مبارک ہے :)
لعن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی الخمر عشرۃ عاصرھا ومعتصرھا وشاربھا وحاملھا والمحمولۃ الیہ و ساقیھا وبائعھا واٰکل ثمنھا والمشتری لھا والمشتراۃ لہ رواہ الترمذی۲؎ وابن ماجۃ عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ ورجالہ ثقات۔
یعنی جو شخص شراب کے لئے شیرہ نکالے اورجونکلوائے اورجوپئیے اورجو اٹھاکرلائے اور جس کے پاس لائی جائے اورجوپلائے اورجوبیچے اورجو اس کے دام کھائے اورجو خریدے اور جس کے لئے خریدی جائے ان سب پر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لعنت فرمائی (اس کوترمذی اورابن ماجہ نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیااوراس کے رجال ثقہ ہیں۔ت)
 (۲؎ سنن ابن ماجہ    ابواب الاشربہ     باب لعنت الخمر الخ        ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ص۲۵۰)

(جامع الترمذی     ابواب البیوع     باب ماجاء فی بیع الخمرالخ     امین کمپنی دہلی         ۱ /۱۵۵)
حدیث (۳) : کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من زنی وشرب الخمرنزع اﷲ منہ الایمان کما یخلع الانسان القمیص من راسہ۔ رواہ الحاکم ۱؎ عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جوزناکرے یاشراب پیئے اﷲ تعالٰی اس سے ایمان کھینچ لیتاہے جیسے آدمی اپنے سر سے کرتاکھینچ لے (اسے امام حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے۔ت)
 (۱؎ المستدرک للحاکم   کتاب الایمان   اذازنی العبد خرج منہ الایمان  دارالفکربیروت    ۱ /۲۲)
Flag Counter