فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔)
8 - 135
پھرفرماتے ہیں:
قلت والف فی حلہ ایضا سیدنا العارف عبدالغنی النابلسی رسالۃ سماھا الصلح بین الاخوان فی اباحۃ شرب الدخان وتعرض لہ فی کثیر من تالیفہ الحسان واقامۃ الطامۃ الکبرٰی علی القائل بالحرمۃ اوبالکراھۃ فانھما حکمان شرعیان لابدلھما من دلیل ولادلیل علٰی ذٰلک فانہ لم یثبت اسکارہ ولاتفتیرہ ولااضرارہ بل ثبت لہ منافع فھو داخل تحت قاعدۃ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ وان فرض اضرارہ للبعض لایلزم منہ تحریمہ علٰی کل احد فان العسل یضر باصحاب الصفراء الغالبۃ وربما امرضھم مع انہ شفاء بالنص القطعی ولیس الاحتیاط فی الافتراء علی اﷲ تعالٰی باثبات الحرمۃ اوالکراھۃ اللذین لابدلھما من دلیل بل فی القول بالاباحۃ التی ھی الاصل وقد توقف النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مع انہ ھو المشرع فی تحریم الخمر ام الخبائث حتی نزل علیہ النص القطعی فالذی ینبغی للانسان اذاسئل عنہ سواء کان ممن یتعاطاہ اولاکھٰذا العبد الضعیف وجمیع من فی بیتہ ان یقول ھو مباح لکن رائحتہ تستکرھھا الطباع فھو مکروہ طبعا لاشرعا الٰی اٰخر ما اطال بہ رحمہ اﷲ تعالٰی۔۱؎
حلت قلیان میں ہمارے سردار عارف باﷲ حضرت عبدالغنی نابلسی رحمہ اﷲ تعالٰی نے بھی ایک رسالہ تالیف فرمایاجس کا ''الصلح بین الاخوان فی اباحۃ شرب الدخان'' نام رکھا اوراپنی بہت تالیفات نفیسہ میں اس سے تعرض کیا اورحقہ کی حرمت یاکراہت ماننے والے پر قیامت کبرٰی قائم فرمائی کہ وہ دونوں حکم شرعی ہیں جن کے لئے دلیل درکار۔ اوریہاں دلیل معدوم کہ نہ اس کانشہ لانا ثابت ہوانہ عقل میں فتورڈالنا نہ مضرت کرنابلکہ اس کے منافع ثابت ہوئے ہیں تو وہ اس قاعدہ کے نیچے داخل کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے، اوراگرفرض کیجئے کہ بعض کوضررکرے تواس سے سب پرحرمت ثابت نہیں ہوتی، جن مزاجوں پرصفرا غالب ہوتاہے شہد انہیں نقصان کرتاہے بلکہ بارہا بیمارکردیتاہے با آنکہ وہ بنص قرآنی شفا ہے، اوریہ احتیاط کی بات نہیں کہ حرمت یاکراہت ٹھہراکرخدا پرافترأ کردیجئے کہ ان کے لئے دلیل کی حاجت بلکہ احتیاط مباح ماننے میں ہے کہ وہی اصل ہے، خود نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کہ بنفس نفیس صاحب شرع ہیں شراب جیسی ام الخبائث کی تحریم میں توقف فرمایا جب تک کہ نص قطعی نہ اُترا توآدمی کوچاہئے جب اس سے حقہ کے بارے میں سوال کیاجائے تو اسے مباح ہی بتائے خواہ پیتاہویانہ پیتاہو جیسے میں اور میرے گھرمیں جس قدرلوگ ہیں (کہ ہم میں کوئی نہیں پیتا مگر فتوٰی اباحت ہی پردیتاہوں) ہاں اس کی بو طبیعت کرناپسند ہے تووہ مکروہ طبعی ہے نہ کہ شرعی، اورہنوز علامہ مذکورکاکلام طویل اس کی تحقیق میں باقی ہے۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الاشربہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۹۶)
بالجملہ عندالتحقیق اس مسئلہ میں سواحکم اباحت کے کوئی راہ نہیں ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ عجماً وعرباً وشرقاً وغرباً عام مومنین بلاد وبقاع تمام دنیاکو اس سے ابتلا ہے توعدم جوازکاحکم دینا عامہ امت مرحومہ کومعاذاﷲ فاسق بنانا ہے جسے ملت حنفیہ سمحہ سہلہ غرابیضا ہرگزگوارا نہیں فرماتی، اسی طرف علامہ جزری نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایاہے: فی الافتاء بحلہ دفع الحرج عن المسلمین۔۱؎ اس کے حلال ہونے کافتوٰی دینے میں مسلمانوں سے دفع حرج ہے(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ فی الرد علی من افتٰی بحرمۃ شرب الدخان ارگ بازارقندھارافغانستان ۲ /۳۶۶)
اور اسے علامہ حامد عمادی پھر منقح علامہ محمدشامی آفندی نے برقراررکھا :
اقول : ولسنا نعنی بھذا ان عامۃ المسلمین اذا ابتلوا بحرام حل بل الامران عموم البلوٰی من موجبات التخفیف شرعا وماضاق امر الااتسع فاذا وقع ذٰلک فی مسئلۃ مختلف فیھا ترجح جانب الیسر صونا للمسلمین عن العسر ولایخفی علی خادم الفقۃ ان ھذا کماھوجار فی باب الطھارۃ والنجاسۃ کذٰلک فی باب الاباحۃ والحرمۃ ولذا تراہ من مسوغات الافتاء بقول غیرالامام الاعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کما فی مسئلۃ المخابرۃ وغیرھا مع تنصیصھم بانہ لایعدل عن قولہ الی قول غیرہ الا لضرورۃ بل ھو من مجوزات المیل الٰی روایۃ النوادر علٰی خلاف ظاھرالروایۃ کما نصوا علیہ مع تصریحھم بان مایخرج عن ظاھرالروایۃ فھو قول مرجوع عنہ ومارجع عنہ المجتہد لم یبق قولا لہ ۱؎ وقد تشبث العلماء بھٰذا فی کثیر من مسائل الحلال والحرام ففی الطریقۃ وشرحھا الحدیقۃ فی زماننا ھذا لایمکن الاخذ بالقول الاحوط فی الفتوی الذی افتی بہ الائمۃ وھو مااختارہ الفقیہ ابواللیث انہ ان کان فی غالب الظن ان اکثرمال الرجل حلال جاز قبول ھدیتہ ومعاملتہ والالا۲؎ اھ ملخصا،
اقول : (میں کہتاہوں کہ) ہماری اس سے مراد یہ نہیں کہ عام مسلمان اگرکسی حرام میں مبتلا ہوجائیں تووہ حلال ہوجاتاہے بلکہ مقصدیہ ہے کہ عموماً بلوٰی شرعی طورپر اسباب تخفیف میں سے ہے، کوئی تنگی نہیں جس میں وسعت نہ پیداہو، جب یہ معاملہ ایک اختلافی مسئلہ میں واقع ہوا تو مسلمانوں کوتنگی سے بچانے کے لئے آسانی کی جانب کوترجیح ہوگی۔ خادم فقہ پرپوشیدہ نہیں کہ جیسے یہ ضابطہ طہارت ونجاست میں جاری ہے۔ ایسے ہی حرمت واباحت میں بھی جاری ہے یہی وجہ ہے کہ تو اس ضابطہ کو امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے غیرکے قول پر فتوٰی دینے کے مجوزات میں دیکھتا ہے جیساکہ مسئلہ مخابرہ وغیرہ میں حالانکہ ائمہ کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ بلاضرورۃ امام اعظم علیہ الرحمۃ کے قول سے عدول نہیں کیاجائے گا بلکہ یہ ضابطہ ظاہرالروایہ کے خلاف روایت نوادر کی طرف میلان کے لئے بھی مجوز ہے جیساکہ علماء نے نص فرمائی باوجودیکہ وہ تصریح فرماچکے ہیں کہ جوقول ظاہرالروایۃ سے خارج ہے وہ مرجوع عنہ ہے اور جس قول سے مجتہد رجوع کرلے وہ اس کا قول نہیں رہتا، علماء نے بہت سے مسائل حلال وحرام میں اس سے استدلال کیا ہے۔ طریقہ اور اس کی شرح حدیقہ میں ہے کہ ہمارے زمانے میں قول احوط کولیناجس پرائمہ کرام نے فتوٰی دیاہے ممکن نہیں۔ اسی کوفقیہ ابواللیث نے اختیارفرمایا ہےکہ اگرکسی شخص کے اکثر مال کے حلال ہونے کاگمان غالب ہو تواس کاہدیہ قبول کرنا اوراس کے ساتھ معاملہ کرنا جائزہے ورنہ نہیں اھ اختصار،
(۱؎ بحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء من المجتہدین ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۶ /۲۷۰)
(۲؎ الحدیقۃ الندیۃ الباب الثالث الفصل الثانی مکتبہ نوررضویہ فیصل آباد ۲ /۷۲۰)
وفی ردالمحتار من مسئلۃ بیع الثمار لایخفی تحقق الضرورۃ فی زماننا، ولاسیما فی مثل دمشق الشام، وفی نزعھم عن عادتھم حرج، وماضاق الامر الااتسع ولایخفی ان ھذا مسوغ للعدول عن ظاھر الروایۃ۳؎ اھ ملخصا، وفی مسئلۃ العلم فی الثوب ھو ارفق باھل ھذا الزمان لئلا یقعوا فی الفسق والعصیان ۱؎ اھ وفیہ من کتاب الحدود ومقتضی ھذا کلہ ان من زفت الیہ زوجتہ لیلۃ عرسہ ولم یکن یعرفھا لایحل لہ وطؤھا مالم تقل واحدۃ اواکثر انھا زوجتک وفیہ حرج عظیم لانہ یلزم منہ تاثیم الامۃ ۲؎ اھ ملخصا الٰی غیرذٰلک من مسائل یکثر عدھا ویطول سردھا فاندفع ماعسٰی ان یوھم من قول الفاضل اللکنوی ان عموم البلوی انما یؤثر فی باب الطھارۃ والنجاسۃ لافی باب الحرمۃ والاباحۃ صرح بہ الجماعۃ۳؎ اھ ۔
اورردالمحتار میں پھلوں کی بیع کے مسئلہ میں ہے ہمارے زمانے میں اس کی ضرورت کا متحقق ہونا پوشیدہ نہیں خصوصاً شام کے شہردمشق میں، اورا ن کو عادت سے ہٹانے میں حرج ہے، اورکوئی تنگ معاملہ نہیں جس میں وسعت نہ آئے، مخفی نہیں کہ یہ بات ظاہرالروایہ سے عدول کی مجوز ہے اھ تلخیص۔ اورکپڑے پرنقش ونگار کے مسئلہ میں ہے کہ اس میں اہل زمانہ کے لئے نرمی ہے تاکہ وہ فسق اورگناہ میں مبتلانہ ہوں اھ ، اوراسی کے کتاب الحدود میں ہے اوراس تمام کامقتضٰی یہ ہے کہ اگرشب زفاف شوہر کے پاس اس کی بیوی بھیجی جائے تو اس وقت تک اس کے لئے وطی حلا ل نہیں جب تک وہ عورت ایک یاکئی بار اس کوکہہ نہ دے کہ وہ اس کی بیوی ہے حالانکہ اس میں حرج عظیم ہے کیونکہ اس سے امت کوگنہگار بنانا لازم آتاہے اھ تلخیص۔ اس کے علاوہ کئی مسائل جن کی تعداد کثیر اوران کو بیان کرنے میں طوالت ہے۔ اس سے فاضل لکھنوی کے قول سے پیداہونے والا یہ وہم دور ہوگیا کہ عموم بلوٰی صرف طہارت ونجاست میں مؤثر ہے نہ کہ حرمت واباحت میں۔ جماعت علماء نے اس کی تصریح فرمائی ہے اھ ۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب البیوع فصل فیمایدخل فی البیع تبعاً داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۲۹)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۲۵)
(۲؎ردالمحتار کتاب الحدود باب الوطئ الذی یوجب الحد الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۱۱۵)
(۳؎ ترویح الجنان بتشریح حکم الدخان للکھنوی )
ہاں بنظربعض وجوہ سے تنزیہی کہہ سکتے ہیں جیسا کہ محقق علائی وعلامہ ابوالسعود وعلامہ طحطاوی وعلامہ شامی نے الحاقابالثوم والبصل افادہ فرمایا۔
علٰی مراء فیہ لبعض الفضلاء مع کلام فی ذٰلک المراء۔ اس میں بعض فضلاء کو شک ہے باوجودیکہ اس شک میں کلام ہے۔(ت)
علامہ شامی فرماتے ہیں :
الحاقہ بما ذکر ھو الانصاف۔۴؎
اس کامذکور کے ساتھ الحاق کرناہی انصاف ہے۔(ت)
(۴؎ردالمحتار کتاب الاشربہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۹۶)
اقول : (میں کہتاہوں) یہیں سے ظاہرکہ اس وجہ کو موجب کراہت تحریم جاننا،
جیسا کہ فاضل لکھنوی نے اپنے فتاوٰی میں اس پر جز فرمایا، اورایک رسالہ میں تردّد فرمایا۔ اور اس مسئلہ میں (حضرت مولاناالشاہ عبدالعزیز) محدث دہلوی کی طرف منسوب کلام مضطرب ہے، پہلے انہوں نے وہم کیاکہ یہ مکروہ تحریمی ہے پھر رجوع کرکے فرمایا کہ مکروہ تنزیہی ہے۔(ت)
سراسرخلاف تحقیق ہے ثمّ اقول : (پھرمیں کہتاہوں۔ت) پھرکراہت تنزیہ کاحاصل صرف اس قدر کہ ترک اولٰی ہے نہ کہ فعل ناجائزھو۔ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ یہ کراہت جامع جواز واباحت ہے جانب ترک میں اس کا وہ رتبہ ہے جوجہت فعل میں مستحب کاکہ مستحب کیجئے توبہترنہ کیجئے توگناہ نہیں، مکروہ تنزیہی نہ کیجئے توبہترکیجئے توگناہ نہیں، پس مکروہ تنزیہی کوداخل دائرہ اباحت مان کرگناہ صغیرہ اوراعتیاد کوکبیرہ قراردینا کما صدرعن الفاضل اللکنوی وتبعہ السید المشھدی ثم الکردی (جیساکہ فاضل لکھنوی سے صادر ہواپھر اس کی اتباع سیدمشہدی پھرکُردی نے کی۔ت) سخت لغزش وخطائے فاسد ہے یارب مگروہ گناہ کون ساجوشرعاً مباح ہو اور وہ مباح کیساجوشرعاً گناہ ہو۔ فقیرغفرلہ المولی القدیر نے اس خطائے شدید کے رَد میں ایک مستقل تحریر مسمّی بہ جمل مجلیہ ان المکروہ تنزیھا لیس بمعصیہ تحریر کی وباﷲ التوفیق، ثم اقول : (پھرمیں کہتاہوں۔ت) یوہیں ما نحن فیہ میں تین وجہ سے کراہت تنزیہہ ٹھہراکر کراہت تحریم کی طرف مرتقی کردینا کما وقع فیما نسب الی المحدث الدھلوی (جیسا کہ محدّث دہلوی کی طرف منسوب تحریر یں واقع ہوا۔ت) محض نامقبول، قطع نظر اس سے کہ ان وجوہ سے اکثر محل نظر، شرع سے اصلا اس پردلیل نہیں کہ جوچیز تین وجہ سے مکروہ تنزیہی ہو مکروہ تحریمی ہے ومن ادعی فعلیہ البیان (جودعوٰی کرے بیان دلیل اسی پرواجب ہے۔ت) خود محدث دہلوی کے تلمیذرشیدمولانا رشیدالدین خاں دہلوی مرحوم اپنے رسالہ عربیہ میں صاف لکھتے ہیں کہ علمائے محققین حقہ میں کراہت تنزیہی مانتے ہیں حیث قال (جہاں فرمایا۔ت) :
اما المحققون القائلون بکراھتہ تنزیھا فھم ایضا تشبثوابالروایات القہیۃ مثل ماقال صاحب الدالمختار۱؎ الخ۔
جومحققین کراہت تنزیہی کے قائل ہیں انہوں نے بھی فقہی روایات سے استدلال کیاہے جیساکہ صاحب درمختار نے کہا الخ
(۱؎ )
اور اسی میں تصریح ہے کہ
مالت مشائخنا الیھا ۱؎
اسی کراہت تنزیہہ کی طرف ہمارے اساتذہ نے میل کیا۔
(۱؎ )
اس رسالہ پرشاہ عبدالعزیز صاحب وشاہ رفیع الدین صاحب کی تقریظیں ہی شاہ صاحب نے اسے :
انتہائی مستحسن ہیں موتیوں کے جواہر جواس کے بانی نے اس کی عبارت اورمعانی میں بکھیرے ہیں۔(ت) فرمایا،
(۳؎ )
توظاہراً دوسری تحریر کی نسبت غلط ہے یا اس میں تحریفیں واقع ہوئیں اور اس پردلیل یہ بھی ہے کہ اس تحریر کے اکثرجوابات مخدوش ومضمحل اورخلاف تحقیق باتوں پر مشتمل ہیں اورنسبت بہمہ جہت صحیح ہی مانئے تو رسالہ تلمیذ کی مدح وتقریظ، مناقض ومعارض ہوگی وہ تحریرپائیہ اعتبار سے یوں بھی گرگئی۔ اور اس سے بھی قطع نظرکیجئے تومقصود اتباع حق ہے نہ تقلید اہل عصر واتباع زیدوعمرو، واﷲ الہادی و ولی الایادی۔
الحاصل معمولی حقہ کے حق میں تحقیق حق وتحقیق یہی ہے کہ وہ جائزومباح اورغایت درجہ صرف مکروہ تنزیہی ہے یعنی جونہیں پیتے اچھا کرتے ہیں اورجوپیتے ہیں برانہیں کرتے۔
فان الاساءۃ فوق کراھۃ التنزیہ کما حققہ العلامۃ الشامی ۴۔
کیونکہ اساءۃ مکروہ تنزیہی سے اوپرہے جیساکہ علامہ شامی نے اس کی تحقیق فرمائی(ت)
(۴؎ ردالمحتار داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۱۸،۳۸۱)
البتہ وہ حقہ جوبعض جہّال بعض بلادہند ماہ مبارک رمضان شریف میں وقت افطار پیتے اوردم لگاتے اورحواس ودماغ میں فتورلاتے اوردیدہ ودل کی عجیب حالت بناتے ہیں بیشک ممنوع وناجائز وگناہ ہے اوروہ بھی معاذاﷲ ماہ مبارک میں۔ اﷲ عزوجل ہدایت بخشے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ہرمفتر چیزسے نہی فرمائی اور اس حالت کے حالت تفتیر ہونے میں کچھ کلام نہیں۔
احمد و ابوداؤد بسند صحیح عن ام سلمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا قالت نھٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن کل مسکر ومفتر۔۱؎۔
امام احمد اورابوداؤد سے بسندصحیح حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہاسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ہرنشہ آورچیز اورمست کردینے والی شَے سے منع فرمایا۔(ت)
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الاشربہ باب ماجاء فی السکر آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۱۶۳)
(مسنداحمدبن حنبل عن ام سلمہ المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۳۰۹)
اور ایک صورت ممانعت کی اوقات خاصہ کے لئے اورپیداہوگی رائحہ کریہہ کے ساتھ مسجد میں جاناجائز نہیں
لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من اکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلا یقربن مصلانا فان الملٰئکۃ تتأذی ممایتأذی منہ بنواٰدم۔۲؎۔
حضوراکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشادگرامی کے مطابق کہ جو اس درخت خبیثہ (یعنی تھوم) کوکھائے وہ ہماری مسجدوں میں نہ آئے کہ جس بات سے آدمیوں کواذیت ہوتی ہے اس سے فرشتے بھی اذیت کرتے ہیں۔(ت)
(۲؎ المعجم الصغیر باب الالف من اسمہ احمد دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۲۲)
تواگرحقہ سے منہ کی بو متغیر ہوبےکلی کئے منہ صاف کئے مسجد میں جانے کی اجازت نہیں، اسی قدر سے خود حقہ پرحکم ممانعت نہیں جیسے کچالہسن پیازکھانا کہ بلاشبہہ حلال ہے اور اسے کھاکر جب تک بو زائل نہ ہو مسجد میں جانا ممنوع مگرجوحقہ ایساکثیف وبے اہتمام ہوکہ معاذاﷲ تغیرباقی پیداکرے کہ وقت جماعت تک کلی سے بھی بکلی زائل نہ ہو توقرب جماعت میں اس کاپینا شرعاًناجائزکہ اب وہ ترک جماعت وترک سجدہ یابدبو کے ساتھ دخول مسجد کاموجب ہوگا اوریہ دونوں ممنوع وناجائزہیں اور ہرمباح فی نفسہ کہ امرممنوع کی طرف مؤدی ہو ممنوع وناروا ہے،
وقدحققنا المسألۃ مع نظائرھا فی کتاب الوقف من فتاوٰنا بما یتعین الرجوع الیہ ولایجوز التغافل عنہ۔
اس مسئلہ کی تحقیق اس کے نظائر سمیت کتاب الوقف میں ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس طورپرکردی ہے کہ اس کی طرف رجوع متعین ہے اور اس سے غفلت ناجائز ہے۔(ت)
یہیں سے تمباکوکھانے کاحکم واضح ہوگیا وہ فی نفسہٖ نباتات مباحہ سے ہے جس کی ممانعت اکل پر شرع مطہرہرگز دال نہیں تو اسے بعد وضوح حال حرما یا مکروہ تحریمی کہنا شرع پرجرأت وتہمت ہے، ہاں غایت وہی تنزیہی کراہت ہے،
اقول : بلکہ حقہ سے اشد کہ دھواں منہ میں قائم نہیں رہتا تمباکوئے کشیدنی اگرکثیف نہو اورحقہ جلد جلد تازہ کیاجائے ہربارپانی بدلاجاے تواس سے تغیر رائحہ ہوتاہی نہیں خصوصاً جبکہ تمباکو خوشبو دارہو اورحالت متوسط پربھی اس سے جوتغیرہوتاہے بہت سریع الزوال ہواہے کلیوں سے فوراً جاتارہتاہے اوربے کلی بھی تھوڑی دیر میں ہوائیں اسے لے جاتی ہیں بخلاف تمباکوئے خوردنی کہ اس کاجرم منہ میں دبارہتا ہے اورمکرر استعمال سے تمام دہن اس کی کیفیت کریہہ سے متکیف ہوتا اور اس کی بُو میں بس جاتا ہے تواس کی کراہت تنزیہی حقہ سے زائدہے اور اس میں ایک دقیقہ اورہے تمباکوکھانے کازیادہ رواج عورتوں میں ہے، اورشوہراگراس کاغیرعادی اوراس کی بوسے متأذی ہوتوعورت کے لئے اس کااستعمال حد ممانعت تک پہنچے گا۔
لما فیہ من مناقضۃ ماقصد الشرع من الایتلاف والتحبب الی الازواج۔
کیونکہ اس میں میاں بیوی کے درمیان اس باہمی انس ومحبت کی ممانعت ہے جوشرعاً مقصود ومطلوب ہے۔(ت)
بلکہ عورت عادیہ نہ ہو اوراس کی بوسے ایذا پائے توشوہر کے لئے بھی اس کی کراہت اشد ہوجائے گی کہ عورت کے حق میں شوہرکو ایذادینا یا اسے اپنے بعض بدن مثل زبان ودہن سے تمتع دشوارکردینااگرچہ سخت ناپسند شرع ہے مگرمرد کوبھی حکم
عاشروھن بالمعروف ۱؎
(ان سے اچھا برتاؤکرو۔ت) کی ہدایت، اوران کی ایذا سے ممانعت، اور ان کی دلداری ودلجوئی کی طرف دعوت ہے اوراکثر کثافت وبے احتیاطی اس حد کو پہنچی کہ رائحہ کریہہ لازم دہن ہوجائے، کلی وغیرہ سے نہ جائے، برابروالے کو ایذاپہنچائے، توایسے تمباکوکا استعمال بیشک ناجائز وممنوع ہے کہ اب وہ خواہی نخواہی ترک جماعت ومسجدکاموجب ہوگا اوریہ حرام ہے معہذا ایسے تغیر کے ساتھ خودنمازپڑھنا، تلاوت قرآن کرناسوئے ادب وگستاخی ہے والعیاذباﷲ تعالٰی ھذاھوحق التحقیق، واﷲ سبحٰنہ ولی التوفیق۔
(۱؎ القرآن الکریم ۴ /۱۹)
اما ماذکر السائل من حدیثی الدرالثمین فاقول : لامتمسک فیھما للقائل بالمنع معلوم ضرورۃ من الدین ان نبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وکذٰلک سائر اخوانہ من الانبیاء والمرسلین وکذٰلک سائر اخوانہ من الانبیاء والمرسلین والملٰئکۃ المقربین صلوات اﷲ تعالٰی وسلامہ علیھم اجمعین کلھم طیبون نظیفون یحبون الطیب ویکرھون الروائح الکریھۃ ثم لم یورث ھذا فی الثوم والبصل واخواتھما من المباحات حرمۃ ولامنعاً مع مانطقت بہ الاحادیث الجلیلۃ الصحیحۃ مسموعات الصحابۃ الکرام فی الیقظۃ مرویات الائمۃ الاعلام علی جمادۃ الحجیۃ فی الشریعۃ من قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من اکل الثوم والبصل والکراث فلایقربن مسجدنا ۱؎ وغیرذٰلک من الاحادیث فکیف بحکایۃ منام یحکیھا بعض المتأخرین عن بعض من لم یسم وھذا سیدنا جابر بن عبداﷲ الانصاری رضی اﷲ تعالٰی عنھما راویا ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال من اکل ثوما اوبصلا فلیعتزلنا اوقال فلیعتزل مسجدنا ولیقعد فی بیتہ وان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اُتی بقدر فی خضرات من بقول فوجد لہا ریحا فقال قربوھا الٰی بعض اصحابہ وقال کل فانی اناجی من لاتناجی رواہ الشیخان ۱؎ وھذا سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ قائلا کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذا اتی بطعام اکل منہ وبعث بفضلہ الیّ وانہ بعث الیّ یوما بفضلۃ لم یأکل منھا لان فیھا ثوما فسألتہ حرام ھو قال لاولکنی اکرھہ من اجل ریحہ قال فانی اکرہ ماکرھت رواہ مسلم ۲؎ فھٰذا شیئ اٰخر غیرالمنع الشرعی وانما الکلام فیہ، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
سائل نے درثمین کے حوالے سے جودوحدیثیں ذکرکی ہیں تومیں کہتاہوں کہ ان میں ممانعت کے قائل کے لئے کوئی دلیل معلوم نہیں ہوتی یہ بات ضروریات دین سے معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، یونہی دیگرانبیاء ومرسلین اورملائکہ مقربین علیہم الصلٰوۃ والسلام تمام کے تمام صاف ستھرے ہیں، خوشبو کوپسنداوربدبوکاناپسندکرتے ہیں۔ پھرمحض بدبوکاپایاجانا توتھوم اورپیازوغیرہ مباح اشیاء میں بھی حرمت وممانعت کوثابت نہیں کرتا باوجودیکہ اس پر وہ عظیم الشان احادیث صحیحہ وارد ہیں جوصحابہ کرام نے بیداری کی حالت میں سنی ہیں اورائمہ اعلام سے اس طریقے پرمروی ہیں جوشریعت میں حجت ہے، جیسے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد کہ جس نے تھوم، پیازاورگندنا کھایا وہ ہرگز ہماری مسجدکے قریب نہ آئے، اس کے علاوہ دیگراحادیث مبارکہ۔ توپھرنیند کی حالت کی حکایت سے کیسے حرمت ثابت ہوسکتی ہے جس کوبعض متأخرین نے بعض نامعلوم حضرات سے حکایت کیا۔ سیدنا حضرت جابربن عبداﷲ انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا جس نے تھوم یاپیاز کھایا وہ ہم سے یاہماری مسجد سے الگ رہے اوراپنے گھر میں بیٹھے۔نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہنڈیا پیش کی گئی جس میں مختلف قسم کی سبزیاں تھیں، آپ نے ان کی بُوکوناگوار پایاتو بعض اصحاب کے قریب کرنے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا اس کوکھاؤ کیونکہ میں اس سے سرگوشی کرتاہوں جس سے تم نہیں کرتے۔ اس کوبخاری ومسلم نے روایت کیا۔ سیدنا حضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں کھانالایاجاتاتو آپ اس میں سے تناول فرماتے اورجو بچ جاتا وہ میری طرف بھیج دیتے، ایک دن آپ نے میرے پاس سبزی بھیجی جس میں سے خود کچھ نہ کھایا کیونکہ اس میں تھوم تھا، میں نے آپ سے پوچھا کیایہ حرام ہے، تو آپ نے فرمایا کہ حرام نہیں لیکن میں اس کوناگوار بوُکی وجہ سے پسندنہیں کرتا۔ توحضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کہا جس کو آپ پسندنہیں کرتے میں بھی اس کوپسندنہیں کرتا، اس کومسلم نے روایت کیا۔ تویہ ایک دوسری چیز ہے جوممانعت شرعی کے علاوہ ہے حالانکہ کلام توممانعت شرعیہ میں ہے۔ اﷲ تعالٰی پاک ہے اور سب سے بڑا عالم ہے اور اس شرف وبزرگی والے کاعلم زیادہ تام اورزیادہ پختہ ہے۔(ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب المساجد باب نہی من اکل ثوما اوبصلا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۰۹)
(۱؎ صحیح البخار کتاب الاذان باب ماجاء فی الثوم النی والبصل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۸)
(صحیح مسلم کتاب المساجد باب نہی من اکل ثوماً وبصلاً الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۰۹)
(۲؎ صحیح مسلم کتاب الاشربہ باب اباحۃ اکل الثوم الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۸۳)