Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔)
7 - 135
اللّٰھم تب علینا وعلیہ ان کان حیّا واغفرلنا ولہ ان کان میتا۔
اے اﷲ! ہماری توبہ قبول فرما اور اس کی بھی اگر وہ  زندہ ہے، اورہماری مغفرت فرما اوراس کی بھی مغفرت فرما اگروہ مرچکاہے۔(ت)
 (۵)یاقواعد شرع میں بیغوری اور نظروفکرکی بیطوری سے پیدا،
کزعم من زعم انہ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ ومنہ زعم ان فیہ استعمال اٰلۃ العذاب یعنی النار وذٰلک حرام وھذا من البطلان بابین مکان قالہ المحدث(عہ۱)الدھلوی فیما نسب الیہ باستعمال الماء المعذب بہ قوم نوح علیہ الصلٰوۃ والسلام قلت وفی الترویح بالمراوح استعمال اٰلۃ عذاب عادواما اصلاح العصری اللکھنوی(عہ۲) بزیادۃ قید علٰی ھیأۃ اھل العذاب ۔
جیسے اس شخص کاگمان جس نے کہا یہ بدعت ہے اور ہربدعت ضلالت ہے اور اسی سے یہ گمان کہ اس میں آلہ عذاب یعنی آگ کا استعمال ہوتاہے اور وہ حرام ہے۔ حالانکہ اس کابطلان واضح ترین ہے۔ یہ ہی کہا محدّث دہلوی (مولاناشاہ عبدالعزیز) علیہ الرحمہ نے جوان کی طرف منسوب کہ اس میں اس پانی کااستعمال ہے جس کے ساتھ نوح علیہ الصلٰوۃوالسلام کی قوم کو عذاب دیاگیا قلت (میں نے کہا) پنکھے کے ساتھ ہوا لینے میں اس آلہ کا استعمال ہے جس کے ساتھ قوم عاد کوعذاب دیاگیا۔ رہامعاصر لکھنوی (مولاناعبدالحی) کا اصلاح کے لئے یہ قیدبڑھانا کہ وہ اہل عذاب کی ہیئت پر ہے ۔
عہ۱ : المراد بہ مولانا الشاہ عبدالعزیز المحدث الدھلوی۔
 اس سے مراد مولانا الشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ہیں۔(ت)
عہ۲: المرد بہ المولوی عبدالحی اللکنوی    اس سے مراد مولوی عبدالحی لکھنوی ہیں۔(ت)
فاقول: لایجدی نفعا والالم یجز الاغتسال بماء حار قال تعالٰی یصب من فوق رءوسھم الحمیم ۱؎ وماذا یزعم الزاعم فی دخول الحمام، افیکون علی ھذا حرام، امنھیا عنہ لذاتہ بل من الکبائر اما مطلقا علی ما اختارھذاالفاضل من کون تعاطی المکروہ تحریما من الکبائر وبعد الاعتیاد علی ماعلیہ الاعتماد من کونہ فی نفسہ من الصغائر، وذالک لان الحمام کما افاد العلامۃ المناوی فی التیسیر اشبہ شیئ بجھنم، النار من تحت والظلام من فوق  وفیہ الغم والحبس والضیق ولذا لما دخلہ سیدنا سلیمٰن نبی اﷲ علیہ الصلٰوۃ والسلام تذکربہ النار وعذاب الجبار اخرج العقیلی والطبرانی وابن عدی والبیھقی فی شعب الایمان عن ابی موسٰی الاشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ یرفعہ الی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال اول من دخل الحمامات وصنعت لہ النورۃ سلیمٰن ابن داؤد فلما دخلہ وجد حرہ وغمہ فقال اوّہ من عذاب اﷲ اوّہ
قبل ان لایکون اوّہ ۱؎
قلت وبھذا یرد حدیث التشبہ باھل النار وحدیث الملابسۃ بالنار کمالایخفی  علی اولی الابصار۔
فاقول: (تومیں کہتاہوں یہ) کچھ مفیدنہیں ورنہ لازم آئے گا کہ گرم پانی کے ساتھ غسل کرناجائزنہ ہو، اﷲ تعالٰی فرماتاہے کہ ان (جہنمیوں) کے سروں پرکھولتاہوا پانی ڈالاجائے گا۔ توایساگمان کرنے والا حمام میں داخل ہونے  سے متعلق کیاکہے گا، کیایہ حرام، منہی عنہ لذاتہ بلکہ کبائرمیں سے ہے یاتومطلقاً جیساکہ فاضل مذکور کامختارہے کہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب کبائرمیں سے ہے یاعادت بنالینے سے جیساکہ معتمد ہے کہ فی نفسہٖ یہ صغائر سے ہے، یہ اس لئے کہ حمام امام مناوی کی تیسیرمیں ذکر کردہ افادہ کے مطابق جہنم کے مشابہ ترین ہے، اس کے نیچے آگے اوراوپردھواں ہے، اس میں بے چینی ، حبس اورتنگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام حمام میں داخل ہوئے تو انہیں آ گ اورعذاب جباریاد آگیا۔ عقیلی، طبرانی، ابن عدی اوربیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے بیان کیا اس کو نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تک مرفوع کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جوحمام میں داخل ہوئے اور اس کے لئے چوناتیارکیا وہ سیدنا سلیمان بن داؤدعلیہما السلام ہیں، جب وہ اس میں داخل ہوئے تو اس کی گرمی اوربے چینی کوپاکرفرمایا اﷲ تعالٰی کے عذاب کادرد، یہ تو درمندہوتا ہے قبل اس کے درمندی نہ ہو۔ قلت (میں کہتاہوں کہ) اس کے ساتھ اہل نار سے مشابہت اورنار سے ملابست کی حدیث وارد ہے جیساکہ ارباب بصیرت پرپوشیدہ نہیں۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم     ۲۲ /۱۹)

(۱؎ الضعفاء الکبیر   ترجمہ ۹۵   اسمٰعیل بن عبدالرحمن الداؤدی    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۱/ ۸۴ و ۸۵)

(شعب الایمان   حدیث ۷۷۷۸    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۶ /۱۶۰)
ولہٰذا علمائے محققین واجلہ معتمدین مذاہب اربعہ نے بعد تنقیح کاروامعان افکاراس کی اباحت کاحکم فرمایا  و ھو الحق الحقیق بالقبول (اوریہی حق ہے جوقبول کرنے کے لائق ہے۔ت) 

علامہ سیدی احمدحموی غمزالعیون والبصائر میں فرماتے ہیں :
یعلم منہ حل شرب الدخان۔۲؎
اس سے معلوم ہواکہ حقہ پینا حلال ہے۔(ت)
(۲؎ غمزعیون البصائر مع اشباہ والنظائر   القاعدۃ الثالثہ الفن الاول  ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۹۸)
اس قاعدہ سے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے حقہ پینے کی حلت معلوم ہوئی۔ علامہ عبدالغنی بن علامہ اسمٰعیل نابلسی قدس سرہما القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں  : من البدع العادیۃ استعمال التتن و القھوۃ  الشائع ذکرھما فی ھذا الزمان بین الاسافل والاعیان والصواب انہ لاوجہ لحرمتھما ولالکراھتھما فی الاستعمال ۱؎الخ۔ بدعات عادیہ سے ہے حقہ اورکافی کاپینا جن کاچرچا آج کل عوام وخواص میں شائع ہے اورحق یہ ہے کہ ان کی حرمت کی کوئی وجہ ہے نہ کراہت کی۔
(۱؎ الحدیقۃ الندیۃ     شرح الطریقۃ المحمدیۃ    الدلیل علی قبح البدع والنہی عنہا   المکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد  ۱ /۴۳۔۱۴۲)
علامہ محقق علاء الدین دمشقی درمختار میں عبارت اشباہ نقل کرکے فرماتے ہیں :
قلت فیفھم منہ حکم التتن۲؎
 (۲؎ الدرالمختار     کتاب الاشربہ  مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۲۶۱)
شامی میں ہے :
وھو الاباحۃ علی المختار۳؎
یعنی اس سے تمباکو کاحکم مفہوم ہوتاہے اور وہ اباحت ہے مذہب مختارمیں۔
 (۳؎ ردالمحتار     کتاب الاشربہ   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۹۶)
پھرفرمایا :
وقدکرھہ شیخنا العمادی فی ھدیتہ الحاقا لہ بالثوم والبصل بالاولٰی۔۴؎
ہمارے استاد عبدالرحمن بن محمد عمادالدین دمشقی نے اپنی کتاب ہدیہ میں اسے لہسن وپیاز سے ملحق ٹھہراکرمکروہ رکھا۔
(۴؎ الدرالمختار     کتاب الاشربہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۲۶۱)
علامہ سیدی ابوالسعودپھرعلامہ سیدی احمدطحطاوی نے حاشیہ درمختارمیں فرمایا :
لایخفی ان الکراھۃ تنزیھیۃ بدلیل الالحاق بالثوم والبصل والمکروہ تنزیھا یجامع الجواز۔۵؎
پوشیدہ نہیں کہ یہ کراہت تنزیہی ہے جیسے لہسن اورپیازکی، اورمکروہ تنزیہی جائزہوتاہے۔
(۵؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار  کتاب الاشربہ  دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۲۲۷)
علامہ حامد آفندی عمادی بن علی آفندی مفتی دمشق الشام فتاوٰی مغنی المستفتی عن سوال المفتی میں علامہ محی الدین احمدبن محی الدین حیدر کردی جزری رحمۃ اﷲ علیہ سے نقل فرماتے ہیں :
فی الافتاء بحلہ دفع الحرج عن المسلمین فان اکثرھم مبتلون بتناولہ مع ان تحلیلہ ایسرمن تحریمہ وماخیر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بین امرین الا اختارایسرھما واما کونہ بدعۃ فلاضررفانہ بدعۃ فی التناول لافی الدین فاثبات حرمتہ امرعسیر لایکاد یوجد لہ نصیر۔۱؎
حلت قلیان پرفتوٰی دینے میں مسلمانوں سے دفع حرج ہے کہ اکثراہل اسلام اس کے پینے میں مبتلاہیں معہذا اس کی تحلیل تحریم سے آسان ترہے اورحضورسیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جب دوکاموں میں اختیار دئیے جاتے جوان میں زیادہ آسان ہوتا اسے اختیارفرماتے، رہا اس کابدعت ہونا کچھ باعث ضررنہیں کہ یہ بدعت کھانے پینے میں ہے نہ کہ امورددین میں، تو اس کی حرمت ثابت کرنا ایک دشوارکام ہے جس کاکوئی معین ویاورملتانظرنہیں آتا۔
 (۱؎ العقود الدریۃ   بحوالہ محی الدین الکردی الجزری،  فی الرد علی من افتی بحرمۃ شرب الدخان،  ارگ بازار قندھارافغانستان ۲ /۳۶۶)
علامہ خاتمۃ المحققین سیدی امین الملۃ والدین محمد بن عابدین شامی قدس سرہ السامی ردالمحتار حاشیہ درمختار میں فرماتے ہیں : للعلامۃ الشیخ علی الاجھوری المالکی رسالۃ فی حلہ نقل فیھا انہ افتی بحلہ من یعتمد علیہ من ائمۃ المذاھب الاربعۃ۔۲؎
علامہ شیخ علی اجہوری مالکی رحمہ اﷲ تعالٰی نے حقہ کی حلت میں ایک رسالہ لکھا جس میں نقل فرمایا کہ چاروں مذاہب کے ائمہ معتمدین نے اس کی حلت پرفتوٰی دیا۔
 (۲؎ ردالمحتار   کتاب الاشربہ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۹۵)
Flag Counter