الحدیث السابع والعشرون : اخبرنی سیدی الوالد قال کان رجل من اصحابنا لایمزّ التنباک ولکنہ کان قداھیاء القذرۃ لاضیافہ فرای النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی النوم اوالیقظۃ لاادری ایّ ذلک کان، مقبلا الیہ ثمّ اعرض وخرج من ذٰلک المکان قال فشد فشددت الیہ و قلت یارسول اﷲ (صلی اﷲ تعالٰی علیک وسلم) ماذنبی فقال فی بیتک القذرۃ ونحن نکرھھا۔
ستائیسویں حدیث : میرے والدصاحب نے مجھے بتایاکہ ہمارے دوستوں میں سے ایک مردخود توتمباکو نوشی نہیں کرتاتھا لیکن مہمانوں کے لئے اس نے حقہ تیارکر رکھاتھا معلوم نہیں خواب میں یابیداری میں اس نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت کی دراں حالیکہ آپ اس کی طرف متوجہ تھے پھرآپ نے اس سے اعراض فرمایا، اس شخص نے کہاکہ آپ (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) تیزی سے اس مکان سے نکل گئے، میں تیزی سے آپ کی طرف گیا اور عرض کی کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! میراگناہ کیا ہے؟ توآپ نے فرمایا : تیرے گھرمیں گندگی (حقہ) ہے جوہمیں ناپسندہے۔
الحدیث الثامن والعشرون : اخبرنی سیدی الوالد کان رجلان من الصّالحین احدھما عالم عابد والاٰخر عابد لیس بعالم فرایا النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی ساعۃ واحدۃ کانہ اذن للعابد ان یدخل فی مجلسہ ولم یاذن للعالم فسال العابد بعض القوم عن ذٰلک فقال ھو یمزالتنباک والنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یکرھہ فلما کان الغد دخل علی العالم فوجدہ یبکہ لما رای اللیلۃ فاخبرہ عن السبب فتاب عن ساعتہ ثمّ رایا النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ من اللیلۃ الاٰتیۃ علی صورۃ واحدۃ کانہ اذن للعالم وقربہ منہ۔۱؎ والسلام ثم السلام۔
اٹھائیسویں حدیث : میرے والد صاحب نے مجھے خبردی کہ دونیک مرد تھے جن میں سے ایک عالم وعابد اوردوسرا عابد تھا مگرعالم نہیں تھا ان دونوں نے خواب میں بیک وقت نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت کی توآپ (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) نے عابد کو اپنی مجلس میں داخل ہونے کی اجازت عنایت فرمائی جبکہ عالم کواجازت نہ بخشی، چنانچہ عابد نے بعض لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا کہ وہ تمباکونوشی کرتاہے اورنبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس کو ناپسند فرماتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو وہ عابد عالم کے پاس گیا تو اسے رات والی خواب کی وجہ سے روتے ہوئے پایا، چنانچہ عابد نے عالم کو (حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی ناراضگی کے) سبب کی خبردی تو عالم نے اسی وقت تمباکونوشی سے توبہ کرلی۔ پھرآئندہ رات کو ان دونوں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کوایک ہی صورت پردیکھا گویاکہ آپ نے عالم کواپنی مجلس میں داخلہ کی اجازت فرمائی اوراسے اپنا قرب بخشا۔والسلام ثم السلام۔
الجواب : حق یہ ہے کہ معمولی حقہ جس طرح تمام دنیا کے عامہ بلاد کے عوام وخواص یہاں تک کہ علمائے عظام حرمین محترمین زادھمااﷲ شرفاً وتکریماً میں رائج ہے شرعاً مباح وجائزہے جس کی ممانعت پرشرع مطہر س اصلاً دلیل نہیں تواسے ممنوع وناجائزکہنا (۱)یا احوال قلیان سے بے خبری پرمبنی،
کما عرض للکثیر من المتکلمین علیہ فی بدوظھورہ قبل اختبارہ و وضوح امرہ فقیل مسکر و قیل مضر و قیل مضر مطلقا کالسموم (عہ) وقیل وقیل۔
جیساکہ اس پرگفتگو کرنے والے بہت سے حضرات کو اس کے پرکھنے اوراس کی حقیقت کے واضح ہونے سے پہلے شبہ لاحق ہوا، چنانچہ کسی نے کہا یہ نشہ آور ہے، کسی نے کہانقصان دہ ہے کسی نے کہازہریلی چیزکی طرح مضرہے، اسی طرح کسی نے کچھ اورکسی نے کچھ کہا۔(ت)
عہ ۱ : والافلا دواء ولاغذاء بل ولاشیئ فی عالم الخلق من ھذا القبیل متمحضا للنفع خالصا عن الضرر حتی الشھدالذی نطق القراٰن العزیز بان فیہ شفاء للناس والبان البقرا المنصوص فی الاحادیث انھا شفاء ۱۲منہ۔
ورنہ توکوئی دوا، غذا بلکہ کوئی چیزبھی ایسی نہیں جومحض نافع ہواورضرر سے بالکل خالی ہو حتی کہ شہد جس کے متعلق قرآن ناطق ہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے اور گائے کادودھ جس پرحدیث کی نص ہے کہ یہ شفاء ہے ۱۲منہ (ت)
(۲)یابعض احوال عارضہ بعض فساق متناولین کی نظرپرمبنی،
کقول من قال انہ ممایجتمع علیہ الفساق کاجتماعھم علی المحرمات وقول اٰخر انہ یصد عن ذکراﷲ وعن الصّٰلٰوۃ۔
اس شخص کے قول کی طرح جس نےکہاکہ اس پر فاسق لوگ جمع ہوتے ہیں جیسے وہ محرمات پرجمع ہوتے ہیں، اوردوسری بات یہ کہی گئی کہ یہ اﷲتعالٰی کے ذکر اورنماز سے رکاوٹ بنتاہے(ت)
(۳)یابعض عوارض مخصوصہ بعض بلادوبعض اوقات کے لحاظ سے ناشی جن کاحکم ان کے غیر اعصار وامصارکو ہرگزشامل نہیں، کمن احتج بالنھی السلطانی علی کلام فیہ للعلامۃ النابلسی۔ جیسے وہ شخص نے نہی سلطانی کے ساتھ استدلال کیاحالانکہ علامہ نابلسی کااس میں کلام ہے۔(ت)
(۴)یا محض مفتریات کاذبہ ومخترعات ذاہبہ پرمتفرع،
کتھوّر من تفوہ ان کل دخان حرام وجعلہ حدیثا عن سیدالانام علیہ افضل الصلٰوۃ واکمل السلام وکجرأۃ من قال اجمعوا علی حرمتہ والاجماع حجۃ۔
جیسے اس شخص کی جسارت جس نے کہاکہ ہردھواں حرام ہے اوراس پررسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث گھڑی اورجیسے اس شخص کی جرأت جس نے کہا اس کی حرمت پراجماع ہے اوراجماع حجت ہے۔(ت)
فقیرنے اس باب میں زیادہ بے باکی متقشفہ افغانستان سے پائی کہ چندکتب فقہ پڑھ کرتقشف وتصلف کوحد سے بڑھاتے اورعامہ امت مرحومہ کوناحق فاسق وفاجربتاتے ہیں اور جب اپنے دعوی باطل پردلیل نہیں پاتے ناچارحدیثیں گھڑتے بناتے ہیں،
میں نے ان کی بعض تصانیف میں ایک حدیث دیکھی کہ :
من شرب الدخان فکانما شرب دم الانبیاء۔
جس نے حقہ پیاگویا پیغمبروں کاخون پیا۔
اوردوسری حدیث یوں تراشی :
من شرب الدخان فکانما زنی بامّہ فی الکعبۃ۔
جس نے حقہ پیاگویا اس نے کعبہ معظمہ میں اپنی ماں سے زناکیا۔
انّا ﷲ وانّا الیہ راجعون (بیشک ہم اﷲ تعالٰی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ت) جہل بھی کیابد بلا ہے، خصوصاً مرکب کہ لادواہے۔ مسکین نے ایک مباح شرعی کے حرام کرنے کو دیدہ ودانستہ مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پربہتان اُٹھایا اورحدیث متواتر
من کذب علیّ متعمّدا فلیتبوأ مقعدہ من النار ۱؎کا اصلاً دھیان نہ لایا،
رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : جومجھ پرجان بوجھ کر جھوٹ باندھے اپناٹھکانہ جہنم بنالے۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۱)
(۲؎ صحیح مسلم باب تغلیظ الکذب علٰی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷)