فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔)
4 - 135
مسئلہ ۱۲ : مرسلہ الف خاں مہتمم مدرسہ اسلامیہ سانگو ور ریاست کوٹہ راجپوتانہ ۲۶صفر۱۳۳۵ھ
ایک مسلمان نے اپنامکان ظاہرکرکے ایک مسلمان کے ہاتھ فروخت کردیاگیا اورجب تحقیق کی گئی تووہ مکان ایک ہندو جومرگیا اس کانکلا، فروشندہ نے دھوکہ سے بوجہ رہن ملک خود ظاہرکرکے بیع کردیا اورمتوفی کی صلب سے کوئی اولادنہیں ہے تومشتری کایہ عمل شریعت میں قابل مواخذہ تو نہیں ہے اوروہ اس مکان کو ملک اپنی تصورکرے گا یانہیں؟ یاروپیہ اپناواپس لے سکتاہے؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپائیے۔ت)
الجواب : فتوٰی اس پر ہے کہ اس زمانہ میں جنس غیرسے بھی دین وصول کرسکتے ہیں جبکہ وہ ہندو اس کامدیون تھا اورمرگیا تویہ اس مکان کو اپنے دین میں لاسکتا ہے اگر اس کی قیمت دین کے برابر یادین سے کم ہے جب توظاہرہے اس نے جومکان کواپناظاہرکرکے بیع کیابیع صحیح ہوئی مشتری مالک ہوگیا، ہاں اگرقیمت مکان دین سے زائد ہےتوبقدرقیمت اس کی ملک ہوسکتاہے اپنا دین اس سے وصول کرے اورجو زائدبچے فقراء پرتصدق۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۳ : ازنگریاسادات ڈاکخانہ میرگنج ضلع بریلی محمدتقی صاحب ۷ شوال ۱۳۳۵ھ
زیدکے سوروپے تمسکی سودکے عمروکے ذمہ واجب الادا تھے عمرونے نے قضاکی اس کے ورثانے زمین مکفول کوایک عرصہ تک زیدکے قبضہ میں چھوڑکر روپیہ اداکردیا لیکن تمسک بوجہ عزیز داری ویگانگت کے زید سے حاصل نہ کیا ورثائے عمرونے اس جائداد کوبدست دیگراشخاص بیع کردیا زیدنے اس بیع میں کچھ مزاحمت بوجہ اس کے کہ اس کامطالبہ وصول ہوچکا تھا نہیں کی مسماۃ ہندہ پھوپھی عمرونے بھی سَو روپے زیدسے تمسکی قرض لئے تھے۔بکرشوہرمسماۃ ہندہ نے ازراہ طمع نفسانی کہ بشمول چندکسان بہ تقرر حصص باہمی نوشتہ عمرو موسومہ زیدکوبراہ چالاکی وفریب دہی خالہ زیدسے حاصل کرکے نالش موسومہ عمرو منجانب زیددائرکی اور بعدحصول ڈگری تمام زرِڈگری حاصل کرناچاہا جس سے زیدبلاوجہ بے ایمان ودغاباز مشہور ہوکر زبان زدِخلائق ہواجب زید نے اپنے کوبلاوجہ متہم ہوتے دیکھاتوکل مطالبہ زرڈگری خودوصول کرلیا اور فرضی اشخاص نالش مثل بکروغیرہ کوکچھ نہیں دیا، زیدنے مسماۃ ہندہ پراپنے روپے کی نالش کی بکر شوہر مسماۃ ہندہ نے منجانب مسماۃ مذکورہ کچہری میں بذریعہ اظہارحلفی بیان کیاکہ تمسک کالکھنا صحیح ہے مگرداددست روپے کی نہیں ہوئی روپیہ ہم نے نہیں لیاہے فرضی لکھ دیاہے اس کاکاتب بکرشوہرمسماۃ ہندہ کاتھا چونکہ تاریخ فیصلہ التواہوگئی تھی سب عزیزو اقارب نے باہمی فیصلہ کی بابت کہا توبکرنے صاف جواب دے دیا کہ جب تک اس ڈگری موسومہ عمرو میں ہمارے حصہ کاروپیہ نہ دیں گے ہم اس روپے سے قطعی انکار کریں گے پھرہم نے یہ روپیہ اس میں مجراکرلیاچنانچہ ایساہی ہوا حسب شریعت یہ صورت اس زرجائز متصورہوگی یانہیں یاہندہ تا یوم النشور مواخذہ دار اداکی رہے گی۔
الجواب : وہ کارروائی بکروغیرہ نے وصول شندہ روپے دوبارہ زیدسے حاصل کرنے کی کی حرام قطعی تھی اور اس کے بعد عمرونے کہ وہ روپیہ خودوصول کریں حرام وخبیث ہوا وہ سب کے سب مستحق نارہوئے۔
قال ﷲ تعالٰی یٰاایّھا الذین اٰمنوا لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل۔۱؎
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کامال ناحق نہ کھاؤ۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴ /۲۹)
اب یہ کارروائی جوبکرنے اپنی زوجہ کی طرف سے کی یہ بھی حرام درحرام ہے دائن کادین مارلینا حرام اوراس حرام وخبیث روپے میں جوزید سے حاصل کئے حصہ مانگناحرام اس نجس کارروائی سے عمرو کایہ روپیہ جوہندہ پر ہے اگرمارابھی گیاتو ہندہ حشرتک اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علی الیدما اخذت حتی تردھا۔۲؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہاتھ پر وہ چیزواجب ہے جو اس نے لی حتی کہ اداکردے۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم
(۲؎ جامع الترمذی ابواب البیوع باب انّ العاریۃ مودّاۃ امین کمپنی دہلی ۱ /۱۵۲)
مسئلہ ۱۴ : ازلکھیم پورکھیری مرسلہ عباداﷲ خیّاط ۲۵جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ میری ماں نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے والدنے ایک بقال مشرک سے مبلغ بیس روپے بوعدہ چوبیس روپے قرض لیا تھا جس کو عرصہ تخمیناً تیس برس کاہوگا، اس کے چندروزبعد کہ وہ اس قرض کوادانہیں کرپائے تھے ان کا انتقال ہوگیابقال مذکور سے والدہ نے کہاکہ میں محنت کرکے اداکروں گی کیونکہ کوئی سرمایہ اس وقت موجود نہ تھا بقال نے یہ کہا تھا کہ یہاں خود ہی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان سے میں کیالے لوں ہم سب بہن بھائی چھوٹے تھے میں شِیرخوار تھا اب والدہ صاحبہ کے فرمانے پرمجھے خیال ہواکہ میں بفضلہ تعالٰی بطفیل نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس وقت اس قابل ہوں کہ ان کاقرض معلوم ہونے پراداکروں بدریافت معلوم ہواکہ جس سے قرض لیاتھا وہ مرگیا اوراس کالڑکابھی مرگیا جس ضامن مسلمان کی معرفت لیا تھا ان کابھی انتقال ہوگیا یہ بھی نہیں معلوم کہ انہوں نے توادا نہیں کردیا والدہ کو اس کابھی علم نہیں ہے ایک سال سے برابردریافت،تلاش کی کہ اس کے وارث کا پتہ چل جائے تواداکروں اب تک کوئی وارث اس کانہیں معلوم ہوا ایسی حالت میں شرع شریف سے کیاحکم ہے کہ میرے باپ پرقیامت میں اس قرض کابار نہ رہے بقال سے ہمیشہ بلاسودی لین دین تھا سوا اس روپیہ کے۔ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپائیے۔ت)
الجواب : جبکہ یہ قرض تھا آپ کے والد پراصلاً بیس روپے واجب الاداتھے،
قال اﷲ تعالٰی ٰیایھا الذین اٰمنوا اوفوا بالعقود ۱؎
اﷲتعالٰی نے فرمایا: اے ایمان والو! وعدے پورے کرو۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۵ /۱)
اورجبکہ پہلے کبھی اس سے سودوغیرہ کوئی رقم ناجائزنہ لی تھی تواس کے کل یابعض اس سے مجرا بھی نہیں ہوسکتے اس کایہ کہنا کہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان سے کیالوں آپ کے والد کومطالبہ سے بری کرنانہیں تھا ضامن اگراداکردیتا تو اس ضامن مسلم کادین رہتا وہ اس سے آسان تھا یہاں وہ بھی معلوم نہیں لیکن جبکہ بنیا اوراس کابیٹابھی مرگیا اوراس کے وارث کاپتہ نہیں یہ مال فقراء کے لئے ہوا آپ کسی مسلمان فقیر کوکہ مالک نصاب نہ ہو بیس روپے دے دیجئے نہ اس نیت سے کہ اس کافرکو ثواب پہنچے کہ یہ حرام بلکہ کفرہے بلکہ اپنے والد پر سے مطالبہ اتارنے کی نیت کیجئے یہ فقیر غیر شخص ہوناضروری نہیں بلکہ اگر آپ کی والدہ چھپّن روپے کے مال کی مالک نہ ہوں تو انہیں کو اس نیت دے دیجئے کہ بیس روپے اس بنیئے کے جو والد پرقرض تھے اوروارث کوئی نہ رہا وہ قرض اداکرتا ہوں بعونہٖ تعالٰی وہ بری الذمہ ہوجائیں گے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۵ : از رامپور بلاسپور دروازہ مرسلہ حضرت مولانا مولوی سیدزادہ احمدمیاں صاحب دامت برکاتہم ۵ شوال ۱۳۳۷ھ
بملاحظہ گرامی حضرت مولانا صاحب دامت برکاتہم، بعدہدیہ سلام مسنون مدعا انگارہوں، یہ خط میرے ملنے والے نہ اس غرض سے بھیجاہے کہ میں اس کے استفتاء کاجواب جوخط کے آخرمیں ہے جناب کے دارالافتاء سے منگادوں بنظرسہولت میں بجنسہٖ وہ خط روانہ خدمت عالی کرکے مستدعی ہوں کہ جواب باصواب باحوالہ کتاب مرحمت ہومیں بفضلہ تعالٰی خیریت سے ہوں اورامیدہے کہ حضرت کامزاج بھی قرین صحت ہوگا۔
استفتاء
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے دوشخص بکر وخالد سے روپیہ قرض لیاعدم ادائیگی پربکر قصاب نے زیدپرنالش کی۔ زیدنے سب روپیہ صرف بکر کواداکردیا خالد کہتاہے کہ روپیہ زید سے دلوایاجائے کچہری کاحکم ہے کہ ڈگری زید پر ہوا اور روپیہ خالد کو بکرسے دلایاجائے۔
الجواب: حضرت والا دامت برکاتہم وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ، سوال بہت مجمل ہے دوشخصوں سے قرض لیناتین طرح ہوتاہے، سَوروپے بکرنے الگ دئیے خالد نے الگ، سَوبکرلایا سَوخالد، وہ ملاکر دونوں نے زیدکو دئیے، دوسوروپے خالد وبکرکے شرکت عقد کے تھے وہ انہوں نے اس دئیے، اگریہ نالش یکجائی ہے توپہلی صورت نہ ہونابتائے گی وہ جب بھی محتمل رہیں گی اورحکم جدالینا ہے اور ہرشق پرحکم بتادینا خلاف مصلحت، لہٰذا سائل کوتعیین صورت وتفصیل واقعہ کے ساتھ سوال کرناچاہئے کہ بعونہٖ تعالٰی جواب دیاجائے۔
مسئلہ ۱۶ : ازمقام چالیس گاؤں خاندیس مرسلہ ابراھیم خاں سوداگرچرم یکم ذیقعدہ ۱۳۳۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میرے اوپر مہرکادعوٰی میرے سالے مظہرعلی خاں نے کیا ہے اورمیری بیوی دوبرس کے قریب ہواکہ فوت ہوچکی ہے اوردعوی مدعی میں تحریرکیا ہے کہ میری بہن نے مہرجومبلغ پانچ سوروپے کاتھا فروخت کیا ہے اورمقدمہ زیر تجویز کچہری ہے آیافروخت کرنا مہرکاجائزہے یانہیں؟ اورمظہرعلی خاں جومیراسالہ ہے اس کودعوٰی کرنے کاحق حاصل ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب : مہر اوردیون کے مثل ایک دین ہے اوردین کی بیع غیرمدیون کے ہاتھ باطل ہے لہٰذا اس بناپر مدعی کودعوٰی کا اصلاً حق نہیں، ہاں اگر اس اپنی بہن کے ترکہ سے حصہ پہنچتاہوتو اپنے حصہ کادعوٰی کرے وہ جدابات ہے۔
اشباہ والنظائرمیں ہے :
بیع الدین لایجوز ولوباعہ من المدیون او وھبہ جاز۔۱؎
دین کی بیع ناجائزہے، اگرمدیون پربیچایاہبہ کردیا توجائزہے۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث القول فی الدین ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۱۳)
اسی طرح فتاوٰی بزازیہ وغیرہا میں ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۷: ازعلی گڑھ محلہ بنی اسرائیل مرسلہ مولوی احسان علی صاحب مدرس ۱۸شوال ۱۳۳۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیداپنی بیوی ہندہ متوفیہ یازندہ کامہرایک ساتھ ادانہ کرسکے تواس کوحاکم شرع بذریعہ قسط اداکرنے کے لئے حکم کرسکتا ہے یانہیں؟
الجواب : زندہ کے واجب الادامہرکی قسط بندی اس کی مرضی سے ہوسکتی ہے اور مردہ کے مہرکی قسط بندی اس کے وارثوں کی مرضی پر ہے حاکم اس پر جبرنہیں کرسکتا
فان الحق لھا اولھم لاللقاضی
(کیونکہ حق بیوی یاوارثوں کاہے نہ کہ قاضی کا۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔