فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔)
2 - 135
بالجملہ جبکہ دیہات اس بیع بے معنی کے سبب ملک زید سے نہ نکلے توعمرو کو ان کی توفیر سے کسی جز کااستحقاق نہیں، نہ وہ ملک غیرکواجارہ پردے سکتاہے، نہ رہن واجارہ ہرگز جمع ہوسکتے ہیں، نہ یہ صورت اجارہ دیہات کہ ان بلاد میں جاری جس کاحاصل اجارہ توفیر ومحاصل ہوتاہے نہ اجارہ زمین کہ وہ تواجارہ مزارعین زمین ہے، کسی طرح صورت جواز نہیں رکھتی ہے کماحققناہ بتوفیق اﷲ تعالٰی فی فتاوٰنا (جیساکہ اس کی تحقیق ہم اﷲ تعالٰی کی توفیق سے ہم اپنے فتاوٰی میں کرچکے ہیں۔ت) غرض یہ حیلہ باطلہ اصلاًبکارآمد نہیں، ہاں اس کی صورتوں میں ایک صورت یہ ہے کہ مثلاً زیدچھ ہزار روپے عمرو سے دس سال کے وعدے پرلیاچاہتاہے اور عمرو ڈھائی سو روپے سال نفع کاخواستگار ہے تو زید اپنی کوئی شے عمروکے ہاتھ چھ ہزارروپے نقد کو بیچے اورعمرو روپے اداکرکے شے بیع پرقبضہ کرلے اس وقت تک کوئی ذکر وشرط درمیان نہ ہواس بیع کوصرف زبانی طورپر بجالائیں بلکہ حقیقتاً بیع مقصود ہو۔ پھرعمرو وہی شے زیدکے ہاتھ آٹھ ہزارپانسوروپے بوعدہ دہ سال فروخت کرے، یہ زیادت کہ ایک بیع صحیح میں بتراضی طرفین ہوئی حلال و رواہے۔
فتاوٰی امام اجل قاضی خان میں ہے :
رجل لہ علی رجل عشرۃ دراھم فاراد ان یجعلہا ثلٰثۃ عشر الٰی اجل قالوا یشتری من المدیون شیئا بتلک العشرۃ ویقبض المبیعثم یبیع من المدیون بثلٰثۃ عشرالی سنۃ فیقع التجوز عن الحرام ومثل ھذا مروی عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ امر بذٰلک رجل طلب من رجل دراھم لیقرضہ بَدِہ دَوَازدہ فوضع المستقرض متاعا بین یدی المقرض فیقول للمقرض بعت منک ھذا المتاع بمائۃ درھم فیشتری المقرض ویدفع الیہ الدراھم ویاخذ المتاع ثم یقول المستقرض بعنی ھذا المتاع بمائۃ وعشرین فیبیعہ لیحصل للمستقرض مائۃ درھم ویعود الیہ متاعہ ویجب للمقرض علیہ مائۃ وعشرون درھما ۱؎الخ۔
ایک شخص کے دوسرے پر دس درہم قرض ہیں اور وہ چاہتاہے کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ تیرہ درھم ہوجائیں تو علماء نے کہاکہ وہ مقروض سے انہی دس درھموں میں کوئی شے خریدے اور اس کو اپنے قبضہ میں لے کر پھرتیرہ درھم کے عوض ایک سال کے ادھار پرمدیون کے ہاتھ فروخت کردے، تو اس طرح حرام سے اجتناب واقع ہوجائے گا اسی کی مثل نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا : ایک شخص نے دوسرے سے دس درھم قرض مانگا اس شرط پرکہ وہ بارہ درھم واپس کرے گا تو قرض خواہ اپنی کوئی چیز قرض دہندہ کے سامنے رکھ کرکہے کہ میں نے یہ چیز سَودرھم کے عوض تمہارے ہاتھ فروخت کی۔ قرض دہندہ اس کوخریدکر سو درھم اداکردے اور وہ چیز اپنے قبضہ میں لے لے۔ پھرقرض خواہ کہے کہ یہ چیزتومیرے ہاتھ ایک سوبیس درھم میں فروخت کردے تاکہ قرضخواہ کو سو درھم بھی مل جائیں اور اس کاسامان بھی اس کے پاس لوٹ آئے اور قرض دہندہ کے لئے اس پرایک سوبیس درھم واجب ہوجائیں الخ۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب البیع فصل فیمایکون فراراً عن الربٰو نولکشورلکھنؤ ۲ /۴۰۶)
پھراگر زیدمیعاد کے اندر زرِاصل یعنی چھ ہزارروپے اداکرے گا توبحساب دوسوپچاس روپے سالانہ اس وقت تک جتنالازم ہواہوگا اسی قدر اداکرناہوگا مثلاً پانچ برس میں روپے اداکردئیے توصرف ساڑھے بارہ سوزیادہ ہوں گے اور دوبرس میں توفقط پانچ سو اورچھ مہینے میں تو صرف سوا سو وعلٰی ھذالقیاس،
تنویرالابصار ودرمختار میں ہے :
قضی المدیون الدین المؤجل قبل الحلول اومات فحل بموتہ فاخذ من ترکتہ لایأخذ من المرابحۃ التی جرت بینھما الابقدر مامضی من الایام وھو جواب المتاخرین قنیہ وبہ افتی المرحوم ابوالسعود افندی مفتی الروم وعللہ بالرفق للجانبین۔۱؎
مدیون نے دین مؤجل کومیعاد سے پہلے اداکردیا یا مدیون مرگیا جس کی بناپر دین حالی ہوگیا (مؤجل نہ رہا) چنانچہ میت مدیون کے ترکہ سے لے لیاگیا تواب قرضخواہ وہ نفع نہ لے جو اس کے اورمدیون کے درمیان طے پایاتھا مگربقدر ایام گزشتہ کے اوریہ ہی جواب متاخرین کاہے (قنیہ)اورمفتی روم ابوالسعود آفندی نے یہی فتوٰی دیا اوردونوں جانبوں کی رعایت کو اس کی علت قراردیاہے۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار مسائل شتی قبیل کتاب الفرائض مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۵۱)
ردالمحتارمیں ہے :
قولہ یأخذ من الخ صورتہ اشتری شیئا بعشرۃ نقد اوباعہ لآخر بعشرین الٰی اجل ھو عشرۃ اشھر فاذاقضاہ بعد تمام خمسۃ اومات بعدھا یأخذ خمسۃ ویترک خمسۃ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
ماتن کاقول لایخذ من الخ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی چیز دس درھم نقد کی خریدی اوردوسرے کے ہاتھ بیس درھم کے عوض دس مہینے کے ادھار پرفروخت کی۔ پھرمدیون نے اگرپانچ ماہ بعد وہ مرگیا تو صاحب دین پانچ درھم نفع لے اورپانچ درہم چھوڑدے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار مسائل شتی قبیل کتاب الفرائض داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۴۸۲)
مسئلہ ۴ : ازگوالیار ۲۵ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مثلاً ہندہ کا شوہر زیدفوت ہوا اس نے مال ازقسم زیوروکپڑے اورمکانات چھوڑے اور ہندہ کااس جائداد متروکہ زیدسے زائدہے اورہندہ نے اپنے دین مہر میں جوجائداد کہ شوہرہندہ نے چھوڑی اورہندہ کے قبضہ میں ہے توبعد وفات ہوجانے اپنے شوہرکے جائداد مذکور کوہندہ لے لے توہندہ کولے لینا اس جائداد کاپہنچتاہے یانہیں؟ دوسرے یہ کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعد فوت ہونے شوہر کے ہندہ نے وقت تیارہونے جنازہ اپنے شوہر کے دین مہر اپناجوذمہ شوہر اپنے کے ہاتھ وہ معاف کردیا حالانکہ ہندہ معاف کرنے مہرسے انکارکرتی ہے توآیا ہندہ کے مہرمیں وراثت جاری ہوگی یانہیں ؟ اوردوسرے وارث زید کادعوٰی دین مہرمیں چل سکتاہے یانہیں؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : تقریر وبیان سائل سے ظاہرہواکہ جائداد اگرچہ پہلے سے قبضہ ہندہ میں ہے مگر زید نے اپنی حیات میں یہ مال وجائداد ہندہ کو اس کے مہرمیں نہ دیاتھا بلکہ خود ہندہ نے بعدفوت شوہر ترکہ شوہر اپنے دین مہر میں لے لیا پس صورت مستفسرہ میں جبکہ حسب اظہار سائل تعدادزرمہرقیمت ترکہ سے زائدہے تووارثوں کے لئے ترکہ میں اصلاً ملک ثابت نہ ہوئی۔
اشباہ والنظائرمیں ہے :
الدین المستغرق للترکۃ یمنع ملک الوارث ۱؎۔
جوقرض تمام ترکہ کومحیط ہو وہ ملک وارث سے مانع ہوتاہے۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث القول فی الملک ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۰۴)
ترکہ میں جس قدر زرنقد تھا ہندہ کا اسے اپنے مہرمیں لے لینا صحیح وواجبی ہوااور اتنے روپے مہرمیں سے اداہوگئے۔
عالمگیری میں ہے:
ان ترک المیّت صامتا مثل مھرھا کان لھا ان تاخذ مھرھا من الصامت لانھا ظفرت بجنس حقھا۔۲؎
اگرمیت نے اپنی بیوی کے مہر کے برابرنقدی چھوڑی تو وہ اس میں سے اپنا مہروصول کرسکتی ہے کیونکہ وہ اپنے حق کی جنس وصول کرنے پرقادرہوگئی ہو۔(ت)
(۲؎ الفتاوٰی الہندیۃ کتاب الوصایا الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۶ /۱۵۳)
باقی مال نہ تووارث بے ادائے بقیہ مہراپنی میراث میں لے سکتے ہیں نہ ہندہ بے رضامندی دیگرورثہ اپنے مہر میں لے سکتی ہے بلکہ اسے بیچ کرہندہ کاباقی مہراوراسی طرح اوردین بھی اگرذمہ زید ہو اداکیاجائے گا اورکوئی وارث کچھ نہ پائے گا خواہ دیگرورثہ اپنے پاس سے مہروغیرہ دین اداکرکے جائداد بیع سے بچالیں۔
اشباہ میں ہے:
للوارث استخلاص الترکۃ بقضاء الدین ولومستغرقا ۱؎۔
وارث کو حق پہنچتاہے کہ وہ میت کاقرض اداکرکے ترکہ کو بیع سے بچالے۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث القول فی الملک ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۰۵)
یہ سب اس صورت میں ہے کہ لوگوں کا وہ بیان معافی مہربہ ثبوت شرعی ثابت نہ ہو یعنی اگردومرد یا ایک مرد دوعورت مسلمان نمازی پرہیزگار جونہ کسی گناہ کبیرمیں مبتلاہوں نہ کسی گناہ صغیرہ میں اصرار رکھتے ہوں نہ کوئی فعل سفلہ میں آوارہ وضعی کاکرتے ہوں اوران کی عقل ویادقابل اعتماد ہو اورا س معاملہ میں ان کابیان گمان وتہمت طرفداری سے پاک ہو(کہ ان سب شرائط کی تفصیل کتب فقہ میں مذکورہے) ایسے گواہ شہادت شرعیہ دیں کہ ان کے سامنے ہندہ نے مہرمعاف کردیا تومعافی ثابت ہوجائے گی اورہندہ دعوی مہرنہ کرسکے گی اوراگرگواہوں میں ان سات شرطوں میں سے ایک بھی کم ہے توان کابیان نامقبول اوردعوی ہندہ نامسموع ونامعقول، پھربرتقدیر ثبوت معافی مہرہندہ میں دیگرورثہ کا کوئی دعوٰی نہیں یہ محض جہالت ہے معافی کے یہ معنی کہ وہ باوجود ذمہ زید پر تھاساقط ہوگیانہ یہ کہ کوئی مال زیدکوملا جس میں وارث حصہ دارنہ ہوں۔واﷲ تعالٰی اعلم