فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔) |
اخبرنا مالک اخبرنا داؤد بن الحصین عن واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ عن محمود بن لبید الانصاری عن عمر بن الخطاب حین قدم الشام شکی الیہ اھل الشام وباء الارض اوثقلھا قالوا لایصلح لنا الا ھذا الشراب قال اشربوا لعسل قالوالایصلحنا العسل قال لہ رجل من اھل الارض ھل لک ان اجعل لک من ھذا الشراب شیئا لایسکر قال نعم فطبخوہ حتی ذھب ثلثاہ وبقی ثلثہ فاتوا بہ الی عمر بن الخطاب فادخل اصبعہ فیہ ثم رفع یدہ فتبعہ یتمطّط فقال ھذا الطلاء مثل طلاء الابل فامرھم ان یشربوہ فقال عبادۃ بن الصامت احللتھا، واﷲ قال کلاَّ واﷲ ما احللتھا اللھم انی لااحل لھم شیئا حرمتہ علیھم ولااحرم علیھم شیئا احللتہ لھم قال محمد (رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ) وبھذا ناخذ لاباس بشرب الطلاء الذی قد ذھب ثلثاہ وبقی ثلثہ وھو لایسکر فاما کل معتق یسکر فلاخیرفیہ ۱؎۔
حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے اپنی سند کے ساتھ ہمیں خبردی کہ امیرالمومنین حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲتعالٰی عنہ جب شام تشریف لائے تواہل شام نے اپنی سرزمین پر وباء اورگرانی کی شکایت کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں اس شراب کے علاوہ کوئی علاج موافق نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا شہد پیو، انہوں نے کہا ہمیں شہدموافق نہیں آتا۔ اسی علاقے کے ایک شخص نے کہا اے امیرالمومنین کیاآپ رغبت رکھتے ہیں کہ میں آپ کے لئے ایسی شراب تیار کروں جونشہ نہ دے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ ان لوگوں نے انگورکے شیرہ کو اس حد تک پکایاکہ دوتہائی خشک ہوکر ایک تہائی رہ گیا وہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس لائے۔ آپ نے اس میں انگلی داخل کرکے باہرنکالی تو وہ آپ کی انگلی کے ساتھ چمٹ گیا۔ آپ نے فرمایا یہ اونٹوں کی طلاء کی مثل طلاء ہے۔ آپ نے ان لوگوں کوفرمایا کہ اس کوپیو۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کہا کیا بخدا آپ نے اس کو حلال قرار دے دیاہے؟ حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ہرگز نہیں بخدامیں نے اس حلال نہیں کیا، اے اﷲ! جو چیز تو نے ان پرحرام کی ہے میں اس کوان پر حلال نہیں کرتا اورجوتو نے ان پرحلال کیامیں اس کو ان پرحرام نہیں کرتا۔ امام محمدعلیہ الرحمہ نے فرمایا : ہم اسی سے اخذ کرتے ہیں کہ ایسے طلاء کے پینے میں کوئی حرج نہیں جس کا دوتہائی خشک ہوکر ایک تہائی باقی رہاہو اوروہ نشہ نہ دے۔ لیکن ہر پرانی نشہ آورشراب میں کوئی خیرنہیں۔(ت)
(۱؎ موطاامام محمد کتاب الحدود باب نبیذالطلاء نورمحمدکارخانہ تجارت کتب کراچی ص۱۷۔۲۱۶)
نیزکتاب الآثارمیں فرماتے ہیں :
اخبرا ابوحنیفۃ عن سلیمان(عہ۱) الشیبانی عن ابن زیاد(عہ۲) انہ افطرعندعبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھمافسقاہ شرابا لہ فکانہ اخذ فیہ فلما اصبح قال ما ھذا الشراب ماکدت اھتدی الٰی منزلی فقال عبداﷲ مازدناک علی عجوۃ وزبیب، قال محمد وبہ ناخذ وھو قول ابی حنیفۃ ۱؎۔
ہمیں امام ابوحنیفہ نے سلیمان شیبانی سے خبردی انہوں نے ابن زیاد سے روایت کی کہ انہوں نے (ابن زیاد) نے حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس روزہ افطارکیاتو آپ نے ابن زیاد کواپنے ہاں سے شراب پلائی توگویاکہ اس نے ابن زیاد میں کچھ اثرکیاجب صبح ہوئی توابن زیاد نے کہایہ کیاشراب ہے یوں لگاکہ میں اپنے گھر کی طرف راہ نہ پاؤں گا۔ حضرت عبداﷲ ابن عمررضی اﷲ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ ہم نے توآپ کے لئے عجوہ اورزبیب پرکوئی شیئ زیادہ نہیں کی۔ امام محمدنے فرمایا ہم اسی سے اخذ کرتے ہیں اوریہی امام ابوحنیفہ کاقول ہے۔
(۱؎ کتاب الآثار لامام محمد باب الاشربۃ والانبذۃ ادارۃ القرآن کراچی ص۱۸۲)
عہ۱ : ھو ابواسحٰق سلیمان الکوفی من ثقات التابعین ورجال الستۃ ۱۲منہ ۔
یہ ابواسحاق سلیمان بن ابی سلیمان کوفی جوثقہ تابعین اورصحاح ستہ ک راویوں میں سے ہیں۱۲منہ(ت)
عہ۲: السید المرتضی الاشبہ انہ محمد بن زیاد احد شیوخ شعبۃ روی عن ابی ھریرۃ حدیث الرجل جبار ذکرہ المنذری فی مختصر السنن ۱؎ وھو من اقران ابن سیرین قلت ھو ابن زیاد الجمحی ابوالحارث المدنی نزیل بعد البصرۃ ثقۃ ثبت من رجال الستۃ روی الدارقطنی فی السنن من طریق اٰدم بن ابی ایاس عن شعبۃ عن محمد بن زیاد عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال الرجل۲؎ جبار ھذا ما ابداہ السید ظنا والمنصوص علیہ انہ عبداﷲ قال الامام البدر محمود فی البنایۃ بعد ذکر الحدیث ابن زیاد ھو عبداﷲ ابن زیاد۳؎ اھ ۔
سیدمرتضٰی نے کہاحق سے اشبہ ہے کہ یہ محمدبن زیادشعبہ کے شیوخ میں سے ایک ہیں انہوں نے ''الرجل جبار'' والی حدیث کوحضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے یہ بات امام منذری نے مختصرالسنن میں ذکرکی اوریہ امام ابن سیرین کے ہم زمان ہیں۔ میں کہتاہوں یہ ابن زیاد جمحی ابوالحارث مدنی ہیں جوبعد میں بصرہ میں مقیم ہوگئے ثقہ ہیں صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں دارقطنی نے سنن میں آدم بن ایاس کے طریق سے عن شعبہ عن محمدبن زیادعن ابی ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا آپ نے فرمایا ''الرجل جبار'' سیدمرتضٰی نے اپنے گمان کی بیان پر یہ بیان کیاہے جبکہ منصوص یہ ہے کہ وہ عبداﷲ ہیں، امام بدرالدین محمود نے بنایہ میں ابن زیادکی اس حدیث کے بعد کہا ابن زیاد سے مراد عبداﷲ بن زیادہے اھ ۔
(۱؎ مختصرالسنن ) ( ۲؎ سنن الدارقطنی کتاب الحدود والدیات ۲۱۵ نشرالسنۃ ملتان ۳ /۱۵۴) (۳؎ البنایۃ فی شرح الہدایۃ کتاب الاشربۃ المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمۃ ۴ /۳۳۸)
قلت یعنی ابامریم الاسدی الکوفی من ثقات التابعین ورجال البخاری فی التھذیب ذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال فی تھذیبہ قال العجلی کوفی ثقۃ وقال الدارقطنی ثقۃ۔۲؎۔
میں کہتاہوں ابن زیاد یعنی ابومریم اسدی کوفی جوثقہ تابعین اوربخاری کے راویوں میں شمارہیں، تہذیب میں ہے کہ ابن حبان نے اس کو ثقہ لوگوں میں ذکرکیاہے اورتہذیب والے نے فریایاکہ عجلی نے کہاکہ وہ کوفی ثقہ میں شمارہیں، دارقطنی نے کہا وہ ثقہ ہیں۔(ت)
(۲؎ تہذیب التہذیب ترجمہ عبداﷲ بن زیاد الکوفی ۳۷۹ دائرۃ المعارف النظامیہ ۵ /۲۲۱)
اخبرنا ابوحنیفۃ عن حماد قال کنت اتقی النبیذ فدخلت علٰی ابراھیم وھو یطعم فطعمت معہ فاوتی قدحا من نبیذ فلما رأی ابطائ عنہ قال حدثنی علقمۃ عن عبداﷲ بن مسعود انہ کان ربما طعم عندہ ثم دعا بنبیذ لہ تنبذہ سیرین ام ولد عبداﷲ فشرب و وسقانی۱؎۔
ہمیں امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے حضرت حماد سے خبردی انہوں نے کہاکہ میں نبیذ سے پرہیزکرتا تھا میں ابراہیم کے پاس گیاوہ کھاناکھا رہے تھے میں نے بھی ان کے ساتھ کھاناکھانا پھرنبیذکا ایک پیالہ لایاگیا جب ابراہیم نے مجھے اس سے پس وپیش کرتے ہوئے دیکھا توکہا مجھے علقمہ نے عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے حدیث بیان کی کہ میں بسا اوقات ان کے ہاں کھانا کھاتا، پھرانہوں نے نبیذطلب فرمائی جوان کی ام ولد سیرین نے ان کے لئے تیار کی تھی جس کو ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے خود بھی پیا اورمجھے بھی پلائی۔
(۱؎ کتاب الآثار لامام محمد باب النبیذ الشدید ادارۃ القرآن کراچی ص۱۸۳)