Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔)
13 - 135
ردالمحتارمیں ہے :
بہ یفتی ای بتحریم کل الاشربۃ وکذا بوقوع الطلاق قال فی النھر وفی الفتح وبہ یفتی لان السکر من کل شراب حرام وعندھما لایقع بناء علی انہ حلال وصححہ فی الخانیۃ۴؎۔
اسی کے ساتھ ہی فتوٰی دیاجائے گا یعنی تمام شرابوں کی حرمت کااوراسی طرح طلاق کے واقع ہونے کا۔ نہرمیں کہاہے کہ فتح میں ہے اسی کے ساتھ فتوٰی دیاجائے گا کیونکہ نشہ ہر شراب سے حرام ہوتاہے، اور شیخین کے نزدیک طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ یہ حلال ہے۔ خانیہ میں اسی کو صحیح قراردیاہے(ت)
(۴؎ ردالمحتار     کتاب الاشربۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۹۳)
شرح نقایہ برجندی میں ہے :
فی فتاوی قاضی خان المتخذ من غیرالعنب والتمرمثل السکر والعسل والفانیذ والحنطۃ والشعیر والذرۃ ومااشبہ ذٰلک اذاغلا واشتد وقذف بالزبد وطبخ ادنی طبخۃ یحل فی قول الشیخین واختلف فی قول محمد قیل یحل شربہ مادون السکر وقیل لایحل اصلا وعنہ ایضا انہ قال اکرہ ذٰلک وان لم یطبخ فعن الشیخین روایتیان فی روایۃ لایحل شربہ کنقیع الزبیب غیرالمطبوخ وفی روایۃ یحل شربہ و ذکرفی الفتاوی المنصوریۃ ان الفتوی علی انہ لایشترط الطبخ لحلہ۱؎۔
  فتاوٰی قاضیخان میں ہے کہ انگور اورکھجور کے غیر یعنی شکر، شہد، مصری، گندم، جَو، جوار اور ان جیسی دیگراشیاء سے بنائی ہوئی شرابیں جب جوش کھاکرگاڑھی ہوجائیں اور ان پرجھاگ آجائے اوران کوتھوڑا ساپکالیاجائے توشیخین کے نزدیک حلال ہیں اورامام محمدعلیہ الرحمہ کے قول میں اختلاف ہے، بعض نے کہاجو نشہ والی مقدارسے کم ہوں حلال ہیں اور بعض نے کہاکہ مطلقاً حلال ہیں اورانہیں اسے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا میں اس کو مکروہ جانتاہوں اوران کوپکایانہ جائے توشیخین سے دوروایتیں ہیں ایک روایت میں اس کاپینا حلال نہیں ہے جیساکہ کہ زبیب کاوہ رس جس کوپکایانہ گیاہو، اور ایک روایت میں ہے کہ اس کاپیناحلال ہے۔ فتاوٰی منصوریہ میں مذکورہے فتوٰی اس پرہے کہ اس کے حلال ہونے کے لئے پکاناشرط نہیں۔(ت)
 (۱؎ شرح النقایۃ للبرجندی  کتاب الاشربہ     نولکشورلکھنؤ    ۳ /۱۸۸)
فتح اﷲ المعین میں ہے :
من ادلۃ حلہ ماقال فی الاختیار، عن ابن ابی لیلٰی قال اشھد علی البدریین من اصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انھم یشربون النبیذ فی الجرار الخضر وقد نقل ذٰلک عن اکثر الصحابۃ ومشاھیرھم قولاوفعلا حتی قال ابوحنیفۃ انہ مما یجب اعتقاد حلہ لئلا یؤدی الٰی تفسیق الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھم۔۲؎۔
اس کے حلال ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل وہ ہے جو اختیارمیں ابن ابی لیلٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بدری صحابہ کرام کے بارے میں گواہی دیتاہوں کہ وہ سبزصراحیوں میں نبیذ پیتے تھے اوریہ بات اکثرمشاہیرصحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے قولاً اورفعلاً منقول ہے یہاں تک کہ امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا اس کے حلال ہونے کا اعتقادرکھناواجب ہے تاکہ صحابہ کرام کوفسق کی طرف منسوب کرنالازم نہ آئے۔(ت)
 (۲؎ فتح المعین  کتاب الاشربہ  ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۳ /۴۲۳)
خانیہ میں ہے :
لابی حنیفۃ وابی یوسف رحمھما اﷲ تعالٰی ماروی ان رجلا اتی عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ بمثلث قال عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ ما اشبہ ھذا بطلاء الابل کیف تصنعونہ قال الرجل یطبخ العصیر حتی یذھب ثلثاہ ویبقی ثلثہ فصب عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ علیہ الماء وشرب ثم ناول عبادۃ بن الصامت رضی اﷲ تعالٰی عنہ ثم قال عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اذا رابکم شرابکم فاکسروہ بالماء وعن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اذا ذھب ثلثا العصیر ذھب حرامہ وریح جنونہ وروی عن ابراھیم النخعی رحمہ اﷲ تعالٰی مایرویہ الناس کل م سکر حرام خطاء لم یثبت، انما الثابت کل سکرحرام وکذا مایرویہ الناس ما اسکر کثیرہ فقلیلہ حرام لیس بثابت و ابراھیم النخعی رحمہ اﷲ تعالٰی کان حبرا فی الحدیث۔۱؎ ۔
امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہما کی دلیل وہ روایت ہے کہ ایک شخص سیدحضرت عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ کی خدمت میں ثلث لے کرآیاآپ نے فرمایا یہ اونٹوں کے طلاء کے ساتھ بہت مشابہت رکھتاہے تم اس کوکیسے بناتے ہو، اس نے کہاہم انگور کے رس کو پکاتے ہیں یہاں تک کہ اس کادوثلث خشک ہوجاتاہے اورایک ثلث باقی رہ جاتاہے، حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس پرپانی ڈال کر پی لیا، پھر حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ تعالٰی عنہ کودے دیا، پھرحضرت عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا جب تمہیں تمہاری شراب شک میں ڈالے توپانی سے اس کی تیزی کوتوڑدو۔ اورحضرت عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جب انگور کے شیرہ کادوثلث پکانے سے خشک ہوجائے تو اس کی حرمت اورنشہ جاتا رہتاہے، اور حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ تعالٰی سے مروی ہے کہ لوگ جویہ روایت کرتے ہیں کہ ہرمسکر (نشہ آور) حرام ہے، یہ غلط ہے اورثابت نہیں ہے، البتہ ثابت یہ ہے کہ ہرسکر(نشہ) حرام ہے، اسی طرح لوگوں کایہ روایت کرنا کہ جومسکرہے اس کاقلیل وکثیرحرام ہے ثابت نہیں، حالانکہ ابراہیم نخعی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ حدیث متبحر عالم ہیں۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضیخان     کتاب الاشربۃ     فصل فی معرفۃ الاشربۃ     نولکشورلکھنؤ    ۴ /۶۷۴)
اسی میں ہے :
لابی حنیفۃ وابی یوسف رحمھما اﷲ تعالٰی الآثار التی وردت فی اباحۃ النبیذ الشدید قولا وفعلا ذکرھا محمدرحمہ اﷲ تعالٰی فی الکتاب وعن ابی حنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی فی الکتاب وعن ابی حنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی انہ قال من شرائط السنۃ والجماعۃ ان لایحرم النبیذ الجرلان فی تحریمہ تفسیق کبارالصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھم، وعنہ انہ قال لااحرم النبیذ الشدید دیانۃ ولااشربہ مروئۃ، اجمع کبار الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھم علی اباحۃ النبیذ واحتاطوا  فی شربہ لاجل الاختلاف وکذا السلف عدھم کانوا یشربون نبیذ الجر بحکم الضرورۃ لاستمراء الطعام۔۱؎۔
امام ابوحنیفہ وامام ابویوسف رحمہما اﷲ تعالٰی کی دلیل وہ آثار ہیں جوقولاً اورفعلاً گاڑھی نبیذ کی اباحت پروارد ہیں۔ اس کو امام محمدعلیہ الرحمہ نے کتاب میں ذکرفرمایا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ گھڑوں میں بنائی ہوئی نبیذکوحرام نہ قراردینا سنت وجماعت کی شرائط میں سے ہے کیونکہ اس کو حرام قراردینے میں صحابہ کبار رضی اﷲ تعالٰی عنہم کی طرف فسق کو منسوب کرنا لازم آتاہے، اورانہی سے منقول ہے کہ میں گاڑھی نبیذ کو از راہ دیانت حرام قرارنہیں دیتا اوربطورمروّت اس کونہیں پیتا۔ نبیذ کی اباحت پرصحابہ کبار رضی اﷲ تعالٰی عنہم کا اجماع ہے مگروہ بسبب اختلاف کے اس کو پینے میں احتیاط کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے بعد اسلاف کسی ضرورت کے تحت گھڑوں میں بنائی ہوئی نبیذ پیتے تھے مثلاً کھاناہضم کرنے کے لئے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں     کتاب الاشربۃ     فصل فی معرفۃ الاشربۃ     نولکشورلکھنؤ    ۴ /۶۷۶)
خلاصہ میں ہے :
عن محمد بن مقاتل الرازی انہ قال لواعطیت الدنیا بحذافیرھا ماشربت المسکر یعنی نبیذ التمر والزبیب ولو اعطیت الدنیا بحذافیرھا ما افتیت بانہ حرام۔۲؎۔
محمدبن مقاتل رازی نے کہااگر مجھے ساری دنیادے دی جائے توبھی مسکریعنی کھجوراورزبیب کانبیذنہیں پیوں  گا، اوراگرمجھے ساری دنیادے دی جائے توبھی اس کے حرام ہونے کافتوٰی نہیں دوں گا۔(ت)
(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی  کتاب الاشربۃ       مکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ    ۴ /۲۰۵)
غایۃ البیان علامہ اتقانی میں ہے :
  واحتج ابوحنیفۃ وابویوسف فی قولہ الاٰخر بقولہ تعالٰی یٰایھا الذین اٰمنوا انما الخمروالمیسروالانصاب والازلام رجس من عمل الشیطٰن فاجتنبوہ لعلکم تفلحونo انما یرید الشیطٰن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکراﷲ وعن الصلٰوۃ فھل انتم منتہونo وقد بین العلۃ فی تحریم  الخمر وھی الصدعن ذکراﷲ وعن الصلاۃ وایقاع العداوۃ وھذہ المعانی لاتحصل بشرب القلیل فلوخلینا وظاھر الآیۃ  لکُنا نقول بان القلیل من الخمر لایحرم ولٰکن ترکنا الظاھر فی القلیل من الخمر بالاجماع ولا اجماع فیما تنازعنا فیہ  من الاشربۃ علی حرمۃ القلیل منھا مباحا علی علۃ ظاھر الاٰیۃ  لانہ مما لایورث العداوۃ والبغضاء ولاالصد عن ذکر اﷲ وعن الصّلٰوۃ۔۱؎۔
  امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ اور امام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے اپنے دوسرے قول میں اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد سے استدلال کیاہے کہ ''اے ایمان والو! بیشک خمر، جُوا، بُت اورپانسے نجس ہیں شیطانی عمل سے توان سے بچوتاکہ تم فلاح پاؤ، بیشک شیطان خمراور جُوئے سے تمہارے درمیان بغض وعداوت ڈالنا چاہتاہے اورتمہیں اﷲ تعالٰی کے ذکراور نماز سے روکتاہے توکیا تم باز آؤگے''۔ تحقیق یہاں تحریم خمر کی جوعلت بیان کی گئی وہ ذکرالٰہی اورنماز سے روکنا اوربغض وعداوت واقع کرنا ہے اوریہ امورقلیل کے پینے سے حاصل نہیں ہوتے اگر ہم آیت کریمہ کو اس کے ظاہر پرچھوڑتے تویوں کہتے کہ خمرمیں سے قلیل حرام نہیں ہے لیکن ہم نے اجماع کے ساتھ آیت کریمہ کے ظاہر کوترک کردیاہے اورجوشرابیں ہمارے درمیان متنازعہ ہیں ان کے قلیل کی حرمت پراجماع  واقع نہیں ہوالہٰذا ان کاقلیل آیت کریمہ کے ظاہر کی وجہ سے مباح رہے گا کیونکہ وہ نہ توبغض وعداوت کاموجب ہے  اور نہ ہی ذکرخداونماز سے روکتاہے۔(ت)
 (۱؎ غایۃ البیان )
اُسی میں ہے :
قال شیخ الاسلام خواھرزادہ رحمہ اﷲ تعالٰی فی شرحہ ذکرابن قتیبۃ فی کتاب الاشربۃ باسنادہ عن زیدبن علی بن الحسین علی رضی اﷲ تعالٰی عنھم انہ شرب ھو  واصحابہ نبیذا شدیدا فی ولیمۃ فقیل لہ یا ابن رسول اﷲ حَدِّثنَا بحدیث سمعتہ من اٰبائک عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی النبیذ فقال حدثنی ابی عن جدی علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنھم عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ قال ینزل امتی علی منازل بنی اسرائیل حذوا لقذۃ بالقذۃ والنعل بالنعل ان اﷲ تعالٰی ابتلی بنی اسرائیل بنھر طالوت واحل لھم منہ الغرفۃ وحرم منہ  الرّیّ  وان اﷲ ابتلاکم بھذہ النبیذ و احل منہ الری وحرم منہ السکر وحدیث ابن زیاد الذی رویناہ عن ابن عمر فی مسئلۃ  الخلیطین من ادل ادلائل وان المراد مارواہ الخصم القدر المسکر لاالقلیل لان احد رواۃ الحدیث الذی احتج بہ الخصم  ابن عمر فلوکان القلیل ھو المراد لم یعمل بخلاف مارواہ ولم یفسقہ ابن زیاد وکذٰلک قول ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنھما حرمت الخمر بیعنھا والسکر من کل شراب دلیل علی ان المراد من حدیث الخصم القدر المسکر لاالمسکر لان احد  رواۃ ذٰلک الحدیث ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنھما فیبعد فی العقول ان یروی ابن عباس حدیثا ثم یقول بخلافہ، وقد اطنب الکرخی رحمہ اﷲ فی روایۃ الآثار عن الصحابۃ والتابعین بالاسانید الصحاح فی مختصرہ فی تحلیل النبیذ الشدید ترکنا ذکرھا مخافۃ التطویل و الحاصل ان الاکابر من اصحاب النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واھل بدرکعمروعلی وعبداﷲ بن مسعود وابی مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنھم کانوایحللون شرب النبیذ وکذاالشعبی وابراھیم النخعی وقال فی شرح لاقطع، وقدسلک بعض الجہال فی ھذہ المسئلۃ طریقۃ قصدبھا الشنیع والفسوق عندالعوام، لما ضاق علیہ طریق الحجۃ فقال روی عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ قال لیشربن ناس من امتی الخمر ویسمونھا باسماء قال ھذا القائل وھم اصحاب ابی حنیفۃ وھذا کلام جاھل بالاحکام والنقل والآثار ومتعصب قلیل الورع لایبالی ماقال ثم  یقال لھذا القائل مارمیت بھٰذا القول اصحاب ابی حنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ وانما السلف الصالح اردت ولم یمکنک التصریح بذلک لان اصحاب ابی حنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ما ابتدعوا فی ذلک قولا بل قالوا ماقالہ اصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم و وجوہ التابعین وزھادھم وکیف یظن بعمر وعلی وابن مسعود وابن عباس و عمار بن یاسر وعلقمہ بن الاسود انھم شربوالخمر غلطا فی اسمھا حتی استدرک علیھم ھذالقائل حقیقۃ الاسم ویحسن الظن بنفسہ ویسیئ الظن بلسفہ، ان ھذہ الجرأۃ فی الدین، وقال شیخ الاسلام خواھر زادہ فی شرحہ روی ان رجلا سال ابراھیم الحربی فی مدینۃ الاسلام فی جامع المنصور بالجانب الغربی فقال لنا امام یشرب النبیذا فأصلی خلفہ فقال، لہ ابراھیم ارأیت لوادرکت علقمۃ والاسوداکنت تصلی خلفھما قال نعم ولم یفھم السائل الجواب فاعاد السوال فقال لہ ابراھیم قد اجبتک، والقیاس مع ابی حنیفۃ وابی یوسف رحمھما اﷲ تعالٰی لان اﷲ تعالٰی لم یحرم شیئا یقصدہ الناس من المحرمات فی الدنیا الااباح مایغنی عنہ الاتری انہ لما حرم لحم الخنزیر والمیتۃ اباح انواعا من اللحوم تغنی عنھا ولما حرم نکاح المحارم والجمع بین المحارم اباح من الاجنبیات کذٰلک ھٰھنا فالشراب المطرب شیئ یقصدہ الناس فلما حرم منہ  انواعا یجب ان یکون نوع منہ مباحا یغنی عنہ ویقوم مقامہ وذٰلک فیما قالاہ، فاما من حرم جمیع انواع الاشربۃ المطربۃ بحیث لایوجد من جنسہ مباح یکون ذٰلک خلاف الاصول وخلاف الاصول لایجوز ۱؎ اھ  باختصار۔
شیخ الاسلام خواہرزادہ نے اپنی شرح میں فرمایا کہ ابن قتیبہ نے کتاب الاشربہ میں اپنی سند کے ساتھ حضرت زید بن علی بن حسین بن علی رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے بارے میں ذکرکیاکہ انہوں نے اوران کے ساتھیوں نے ایک ولیمہ  میں گاڑھی نبیذ پی تو ان سے کہاگیا اے ابن رسول! ہمیں نبیذسے متعلق رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی وہ حدیث سنائیں جوآپ نے اپنے آباؤ اجداد سے سنی ہے توانہوں نے فرمایا کہ مجھ سے حدیث بیان کی میرے والد نے انہوں نے میرے جد حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے کہ میری امت بنی اسرائیل کے طورطریقے اپناکریوں ان کے برابرہوجائے گی جیسے تِیرتیر کے اورجوتاجوتے کے برابرہوتا ہے ، اﷲ تعالٰی نے بنی اسرائیل کاامتحان نہرطالوت کے ساتھ لیاکہ ان کے لئے چلوبھرپانی حلال اورسیرہوکرپیناحرام کیا اورتمہارا امتحان اﷲ تعالٰی نے اس نبیذ کے ساتھ لیا، اس کوسیرہوکر پیناحلال اورحدنشہ تک پیناحرام کیا ہے۔ حدیث ابن زیاد جس کو ہم نے مسئلہ خلیطین میں حضرت ابن عمررضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیاوہ اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اورمخالف نے جوروایت کیا ہے اس سے مراد قدر مسکرہے نہ کہ قلیل ،کیونکہ مخالف نے جس حدیث سے استدلال کیاہے اس کے راویوں میں سے ایک سیدنا ابن عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ ہیں۔ اگر اس سے قلیل مرادہوتا وہ اپنی روایت کے خلاف نہ کرتے اور نہ ہی ابن زیاد ان کی طرف فسق کومنسوب کرتے۔ اسی طرح ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما کاقول کہ خمرتو بعینہٖ حرام ہے جبکہ باقی شرابوں سے نشہ آور حرام ہے اس بات کی دلیل ہے کہ مخالف کی روایت کردہ حدیث سے مراد قدرمسکر ہے نہ کہ قلیل کیونکہ حدیث مذکورکے راویوں میں سے ایک سیدنا ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہمابھی ہیں اوریہ بات عقل سے بعید ہے کہ ابن عباس رضی ا ﷲ تعالٰی عنہما ایک حدیث روایت فرمائیں، پھرخود اس کے خلاف فرمائیں، گاڑھی نبیذکے حلال ہونے سے متعلق صحابہ وتابعین کے آثارکوصحیح سندکے ساتھ روایت کرنے میں امام کرخی علیہ الرحمۃ نے اپنی مختصرمیں بہت طوالت فرمائی ہم نے طوالت کے ڈرسے ان کے ذکرکوترک کردیا۔ خلاصہ یہ کہ اکابر اصحاب رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اوراہل بدر جیسے حضرت عمر، علی، عبداﷲ ابن مسعود اورابومسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہم نبیذ کے پینے کو حلال قراردیتے تھے اوریہی موقف ہے شعبی اورابراہیم نخعی کا۔ شرح اقطع میں ہے کہ ایک جاہل نے اس مسئلہ میں ایساراستہ اختیارکیاجس سے اس کا مقصدلوگوں کے ہاں برائی اورفسق کورائج کرناہے، جب اس کے لئے دلیل کاراستہ تنگ ہوگیاتو اس نے کہا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کافرمان ہے میری امت میں سے کچھ لوگ ضرور شراب پئیں گے اور اس کے مختلف نام رکھ لیں گے، وہ لوگ امام ابوحنیفہ کے اصحاب ہیں۔ یہ اس کا کلام ہے جواحکام، نقل اورآثارسے جاہل اور متعصب اورتقوٰی میں بہت گھٹیا ہے، اس کی پروانہیں کرتاکہ وہ کیاکہہ رہاہے۔ پھراس قائل کو کہاجائے کہ جوکچھ تونے امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی کے اصحاب کی طرف منسوب کیاہے  اس سے تیرا ارادہ سلف صالحین ہیں جس کی تصریح کرناتیرے لئے ممکن نہیں کیونکہ امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے اصحاب نے یہ کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ وہی کچھ کہاہے جو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ و سلم کے صحابہ اور معزز و زاہد تابعین نے کہاہے۔ اس کاکیاگمان ہے حضرت عمر، علی، ابن مسعود، ابن عباس، عماربن یاسر اورعلقمہ بن اسود رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے بارے میں، کیا انہوں نے نام تبدیل کرکے شراب پی۔ حتی کہ اس قائل نے ان پر حقیقی نام کے ساتھ اصلاح کی اوراپنے بارے میں حسن ظن جبکہ اسلاف کے بارے میں براگمان کیا، بلاشبہہ یہ دین میں جسارت ہے۔ شیخ الاسلام خواہرزادہ نے اپنی شرح میں کہا مروی  ہے کہ ایک شخص نے مدینۃ الاسلام کی جامع منصورکی جانب غربی میں ابراہیم حربی سے سوال کیاکہ ہمارا امام نبیذ پیتاہے کیاہم اس کے پیچھے نما ز پڑھ لیاکریں؟ توابراہیم نے کہاتیراکیاخیال ہے اگرتوعلقمہ واسود کوپالے توکیاتو ان کے پیچھے نمازپڑھے گا؟ اس نے کہاہاں، حالانکہ وہ سائل ابراہیم حربی کے جواب کو نہ سمجھ سکا چنانچہ اس نے دوبارہ وہی سوال کیاتوابراہیم نے فرمایابیشک میں تجھے جواب دے چکاہوں۔ قیاس امام ابوحنیفہ وامام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہما کامؤید ہے کیونکہ اﷲ تعالٰی نے دنیامیں محرمات میں سے کوئی چیزحرام نہ فرمائی جس کاقصد لوگ کرتے ہیں مگراس میں سے اتناکچھ مباح فرمایاجس سے لوگوں کی حاجت پوری ہوتی ہو۔ کیاتونے دیکھانہیں کہ اﷲ تعالٰی نے جب خنزیرومردارکاگوشت حرام فرمایتا توکچھ اقسام گوشت کی حلال بھی فرمادیں جس سے لوگ اپنی حاجت پوری کرتے ہیں اور جب محرمات سے نکاح اوردوآپس میں محرم عورت کونکاح میں جمع کرنا حرام کیاتوغیرمحرم عورتوں کے ساتھ نکاح کوحلال فرمایا۔ اسی طرح یہاں شراب کے مسئلہ میں ہوگا کیونکہ فرحت بخش شراب بھی ایک شیئ ہے جس کالوگ قصد کرتے ہیں۔ جب اﷲ تعالٰی نے اس کی کچھ انواع کوحرام کیاتو اس کی کوئی قسم حلال بھی ضرور ہوگی جس سے لوگ نفع اُٹھائیں اوروہ اس کے قائم مقام ہوجائے اور یہ بات شیخین کے قول میں حاصل ہوتی ہے، لیکن جنہوں نے شراب کی فرحت بخش تمام اقسام کوحرام قراردیاکہ اس کی جنس میں سے کوئی نوع بھی مباح نہیں پائی جاتی تویہ خلاف اصول ہے اورخلاف اصول جائزنہیں اھ  باختصار(ت)
(۱؎ غایۃ البیان     )
Flag Counter