فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔)
11 - 135
رسالہ
الفقہ التسجیلی فی عجین النارجیلی(۱۳۱۸ھ)
(فیصلہ کن دانائی تاڑی سے خمیرشدہ آٹے کے بارے میں)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ط
مسئلہ ۲۵ : ازرنگون گلی نمبر۲۵ دواخانہ حکیم عبدالعزیز صاحب مرسلہ جناب مرزاعبدالقادربیگ ۲۸ربیع الآخر ۱۳۱۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پہلے تھوڑے آٹے میں مسکرتاڑی کے نیچے کی تاڑی جسے روٹی گادکہتے ہیں ملاکر خمیرکیاگیا پھریہ آٹاخمیرشدہ پندرہ بیس سیر آٹے میں ملاکرخمیرکیا اوراس کی روٹی پکائی اس روٹی کی نسبت کیاحکم ہے؟ اوراگرفرض کیاجائے کہ اس گادمیں قوت سکریہ باقی نہ رہی تھی تواس خمیری روٹی کاکیاحکم ہے؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپائیے۔ت)
رنگون میں بخلاف مانڈلہ پاؤ روٹی وتنوری روٹی دونوں کاعام طورپرخمیر تاڑی سے کیاجاتاہے اورہزارہا مسلمان اسی روٹی کوکھاتے ہیں، یہاں اورکلکتے میں عام ہے، یہاں دوعالم کہتے ہیں کہ اس روٹی کی نسبت حکم حرمت کانہیں ہے مگراحتیاط کرنا اولٰی ہے۔ میں نے جناب مولانا جلال الدین صاحب دہلوی مقیم مانڈلہ سے بذریعہ خط دریافت کرایا جواب آیاکہ جناب موصوف نے حکم حرمت کا دیا، آج کل مولوی عبدالحمیدصاحب واعظ پانی پتی یہاں تشریف رکھتے ہیں انہوں نے بھی کھانا ترک کردیا،
اس کے جواب کی بہت ضرورت ہے امید ہے کہ آپ کے فیض تحریر سے صدہامسلمان اس معصیت سے بچ جائیں گے۔ یہ بلایہاں عام ہے جملہ قسم کی روٹیوں میں اس کاخمیردیاجاتا ہے۔فقط
الجواب : بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم الحمدﷲ الذی حرم علینا فی الدنیا الخمور ووعدنا فی الجنّۃ الشراب الطھور والصلٰوۃ والسلام علی من حمانا المنکرات وحرم علینا برحمتہ المسکرات وعلی اٰلہٖ وصحبہ الشاربین من کاس التکریم لالغوفیھا ولاتاثیم افاض اﷲ علینا من فیضھم فنصیب فللارض من کأس الکرام نصیب۔
اﷲ کے نام سے شروع جوبہت مہربان اوررحم فرمانے والاہے، تمام تعریفیں اس معبود کے لئے ہیں جس نے دنیا میں ہم پرشرابیں حرام کی ہیں اورجنت میں ہمیں شراب طہورعطافرمانے کاوعدہ کیاہے اوردرودوسلام ہو اس ذات پرجس نے ہمیں منکرات سے روکا اوراپنی رحمت سے نشہ آور اشیاء کوہم پرحرام فرمایا، اورآپ کے آل واصحاب پر جوعز کے پیالے سے پینے والے ہیں جس میں بیہودگی اورگنہگاری نہیں، اﷲ تعالٰی ان کے فیض سے ہمیں بھی عطافرمائے کہ ہم بھی اس کوپالیں، اورسخیوں کے جام سے زمین کے لئے حصہ ہوتاہے۔(ت)
قول منصورومختار میں تاڑی وغیرہرمسکرپانی کاقطر ہ قطرہ مثل شراب حرام ونارواہے اورنہ صرف حرام بلکہ پیشاب کی طرح مطلقاً نجاست غلیظہ ہے۔ یہی مذہب معتمد اوراسی پرفتوٰی ہے۔
تنویرالابصارمیں ہے :
حرمھا محمد مطلقا وبہ یفتٰی۔۱؎
امام محمد علیہ الرحمہ نے اس کومطلقاً حرام قراردیا اور اسی پرفتوٰی دیاجاتاہے۔(ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویرالابصار کتاب الاشربہ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۶۰)
درمختارمیں ہے :
ذکرہ الزیلعی وغیرہ واختارہ شارح الوھبانیۃ۔۲؎
اس کو زیلعی وغیرہ نے ذکرکیا اور شارح وہبانیہ نے اس کو اختیارفرمایا۔(ت)
(۲؎ درمختار شرح تنویرالابصار کتاب الاشربہ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۶۰)
اس کے قول وغیرہ سے مرادیہ حضرات ہیں جیسے صاحب ملتقی، صاحب مواہب، صاحب کفایہ، صاحب نہایہ، صاحب معراج، صاحب شرح المجمع، صاحب شرح دررالبحار، قہستانی اورعینی، کیونکہ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے زمانے میں غلبہ فساد کے سبب فتوٰی امام محمدکے قول پرہے الخ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الاشربہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۹۳)
غنیہ ذوی الاحکام میں ہے :
قال فی البرھان والحقھا محمد کلھا بالخمر فی المشھور عنہ کالشافعی ومالکی وبہ یقتی۲؎۔
برہان میں کہاکہ امام محمد نے ان تمام کومشہورقول میں شراب کے ساتھ ملحق کیاہے جیساکہ امام شافعی وامام مالک کہتے ہیں، اور اسی پرفتوٰی دیاجاتاہے۔(ت)
(۲؎ غنیہ ذوی الاحکام علی الدررالحکام کتاب الاشربہ میرمحمدکتب خانہ کراچی ۲ /۸۷)
طحطاوی علی الدرمیں ہے :
قال الحموی واعلم ان الاصح المختار فی زماننا ان کل ما اسکر من الاشربۃ المذکورۃ بعمومھا کثیرہ وقلیلہ حرام وھو قول محمد لحدیث کل مسکر حرام۔۳؎
حموی نے کہاجان لوکہ ہمارے زمانے میں اصح ومختاریہ ہے کہ مذکورہ نشہ آور شرابوں میں سے علی العموم ہرایک کاقلیل وکثیرحرام ہے اوریہ ہی امام محمدکاقول ہے، اس کی دلیل یہ حدیث ہے کہ ہرنشہ آورحرام ہے۔(ت)
(۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الاشربہ المکتبۃ العربیہ، کانسی روڈ، کوئٹہ ۴ /۲۲۵)
وجیزکردری میں ہے :
قال محمد رحمہ اﷲ تعالٰی قلیلہ وکثیرہ حرام قالوا وبقول محمد نأخذ ومذھب محمد انہ حرام نجس۴؎الخ۔
امام محمدعلیہ الرحمہ نے فرمایا: اس کاقلیل وکثیرحرام ہے، علماء نے کہاہم امام محمدکے قول سے اخذکرتے ہیں اورامام محمدکامذہب یہ ہے کہ یہ نجس ہے الخ (ت)
امام محمد علیہ الرحمہ کے نزدیک اس کاپینا حرام ہے، فقیہ نے کہاہم اسی کولیتے ہیں۔(ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الاشربہ المکتبۃ العربی کانسی روڈ کوئٹہ ۴ /۲۰۵)
فتاوٰی ہندیہ میں فتاوٰی ظہیریہ سے ہے :
ذکرمحمد رحمہ اﷲ تعالٰی فی الکتٰب کل ماھو حرام شربہ اذا اصاب الثوب منہ اکثر من قدرالدرھم یمنع جوازالصّلٰوۃ قالوا وھکذا روی ھشام عن ابی یوسف حکی عن الفضلی انہ قال علٰی قول ابی حنیفۃ وابی یوسف رحمھما اﷲ تعالٰی یجب ان یکون نجسا نجاسۃ خفیفۃ والفتوی علی انہ نجس نجاسۃ غلیطۃ۲؎ اھ
امام محمدعلیہ الرحمہ نے کتاب میں فرمایا کہ جس شیئ کاپینا حرام ہے اگروہ مقدار درھم سے زائدکپڑے کولگ جائے تو اس کپڑے میں نماز ممنوع ہوگی۔ علماء نے کہاکہ ہشام نے امام ابویوسف علیہ الرحمہ سے یونہی روایت کیاہے۔ فضلی سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہما کے قول پرضروری ہے کہ وہ کپڑا نجاست خفیفہ کے ساتھ نجس ہو، اورفتوٰی اس پر ہے کہ وہ نجاست غلیظ کے ساتھ نجس ہے اھ ،
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الاشربہ نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۴۱۲)
اعلم ان المحقق صاحب البحر کان بحث فی البحر ترجیح التغلیظ بناء علی اصل مھدہ سابقا ونازعہ اخوہ المدقق فی النھر محتجا بما فی المنیۃ صلی وفی ثوبہ دون الکثیر الفاحش من السکر اوالمنصف تجزیہ فی الاصح۳؎ اھ وذکرفی الدرخلاف الاخوین ولم یزد وقال العلامۃ ابراھیم الحلبی فی حواشی الدربعد ذکرما فی المنیۃ، ھو نص فی التخفیف فکان ھو الحق لان فیہ الرجوع الی الفرع المنصوص فی المذھب واما ترجیح صاحب البحر فبحث منہ ۱؎ اھ ونقلہ العلامۃ الطحطاوی مقرا علیہ واستدرک علیہ المحقق الشامی بمافی شرح النقایۃ، انھا غلیظۃ فی ظاھر الراویۃ خفیفۃ علٰی قیاس قولھما اھ ثم قال ''ینبغی ترجیح التغلیظ فی الجمیع یدل علیہ مافی غرر الافکار من کتاب الاشربۃ حیث قال وھٰذہ الاشربۃ عند محمد وموافقیہ کخمر بلاتفاوت فی الاحکام وبھذا یفتی فی زماننا اھ '' قال فقولہ بلاتفاوت فی الاحکام یقتضی انھا مغلظۃ فتدبر ۲؎ اھ ۔
جان لوکہ امام محقق صاحب البحرنے بحرمیں اس پربحث کرتے ہوئے نجاست غلیظہ کو ترجیح دی اور اس کی بنیادایسے قاعدہ پر رکھی جس کو انہوں نے اولاً مقرر فرمایا، اور ان کے بھائی مدقق نے نہرمیں ان کی مخالفت کی، استدلال کرتے ہوئے اس مسئلہ سے جومنیہ میں مذکور ہے کہ کسی شخص نے اس حال میں نمازپڑھی کہ اس کے کپڑوں میں شراب یا انگورکاشِیرہ لگاہواتھا جوکہ کثیرفاحش نہ تھا تومذہب اصح میں اس کی نمازہوگئی اھ درمیں دونوں بھائیوں کا اختلاف ذکرکیاہے اس پراضافہ نہیں کیا۔ علامہ ابراہیم نے منیہ کے مذکورہ مسئلہ کے ذکرکے بعد حواشی در میں فرمایا یہ تخفیف میں نص ہے اوریہی حق ہے کیونکہ اس میں اس فرع کی طرف رجوع ہے جو مذہب میں منصوص ہے۔ رہی صاحب بحر کی ترجیح تو وہ ان کی بحث ہے اھ علامہ طحطاوی نے اس کو برقراررکھتے ہوئے نقل فرمایا، علامہ شامی نے اس کی اصلاح فرمائی اس کے ساتھ جو شرح نقایہ میں ہے کہ ظاہرالروایہ میں یہ نجاست غلیظہ ہے اورشیخیین کے قول کے مطابق خفیفہ ہے اھ پھرفرمایا کہ ان سب میں ترجیح نجاست غلیظہ کو ہونی چاہئے۔ اس پردلیل وہ ہے جوغررالافکار کی کتاب الاشربہ میں ہے، جہاں فرمایا کہ یہ تمام شرابیں امام محمدعلیہ الرحمہ اوران کی موافقت کرنے والوں کے نزدیک تمام احکام میں بلاتفریق خمر کی طرح ہیں اورہمارے زمانے میں فتوٰی اسی پر دیاجاتاہے اھ فرمایا کہ اس کاقول ''بلاتفاوت''تقاضاکرتاہے کہ یہ نجاست غلیظہ ہے پس غورکر اھ ۔
(۳؎ النہرالفائق کتاب الطہارۃ باب الانجاس قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۴۷)
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ الحلبی کتاب الطہارۃ باب الانجاس دراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۱۳)
(۲؎ردالمحتار بحوالہ الحلبی کتاب الطہارۃ باب الانجاس دراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۱۳)