فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔)
1 - 135
کتاب المداینات
(مداینات کابیان)
مسئلہ ۱: ازاوجین مکان میرخادم علی صاحب اسٹیٹ مرسلہ ملا حاجی یعقوب علی خاں ۲۱ذیقعدہ ۱۳۱ اھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین عظّام شرع نبی، اس مسئلہ میں، کہ ہندوکفّار سے کسی اہل اسلام نے قرضی لیاتھا، اور قضاء عنداﷲ وہ قرضخواہ واصل جہنم ہوا اور اس کاکوئی ورثہ باقی نہیں تو اس کے قرضہ کے اداکی کیاصورت ہے؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپائیے۔ت)
الجواب : جوشخص مرجائے اورکوئی وارث نہ چھوڑے نہ کسی کے نام وصیت کی ہوتو اس کے مال کامستحق بیت المال ہے اوربیت المال کے ایسے مال کے مستحق مذہب جمہورپر فقراء مساکین عاجزین ہیں کہ ان کے کھانے پینے، دوادارُو، کفن دفن میں صرف کیاجائے۔
درمختارمیں ہے:
ورابعھا الضوائع مثلامالا یکون لہ اناس وارثونا ۱؎۔
اوران میں چہارم ضوائع (گِری پڑی اشیاء) ہیں مثلاً وہ شئی جس کالوگوں میں سے کوئی وارث نہ ہو۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الزکوٰۃ باب العشر مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۴۰)
ردالمحتار میں ہے:
الضوائع اللقطات مثل مالا ای مثل ترکۃ لاوارث لھا اصلا، اولھا وارث لایردعلیہ، فمصرفہ المشھور اللقیط الفقیر والفقراء الذین لااولیاء لھم فیعطی منہ نفقتھم وادویتھم وکفنھم وعقل جنایتھم کما فی الزیلعی وغیرہ وحاصلہ ان مصرفہ العاجزون الفقراء۱؎ اھ ملتقطا۔
ضوائع یعنی لقطے (گِری پڑی اشیاء) پس ماتن کا قول ''مثل مالا'' یعنی اس ترکہ کی مثل جس کا سرے سے کوئی وارث نہ ہو یاایساوارث ہو جس پر (بچاہواترکہ) رَدنہیں کیاجاتا۔ چنانچہ اس کا مشہور مصرف وہ لقیط ہے جو محتاج ہو اور وہ فقراء ہیں جن کے لئے کوئی ولی نہ ہوں، اس میں سے ان کو خرچہ، دوائیں کفن کے اخراجات اورجنایات کی دیتیں دی جائیں گی جیساکہ زیلعی وغیرہ میں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس کا مصرف عاجز فقراء ہیں اھ التقاطاً۔(ت)
(۱؎ ردالمختار کتاب الزکوٰۃ باب العشر داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۵۸)
اوریہ حکم جیسامال مسلم کے لئے ہے یونہی مال کافر کے لئے بھی، عالمگیری میں ہے :
من مات من اھل الذمۃ ولاوارث لہ فمالہ لبیت المال کذا فی الاختیار شرح المختار۔۲؎
ذمیوں میں سے کوئی مرگیا اور اس کاکوئی وارث نہیں تو اس کامال بیت المال میں رکھاجائے گا۔ اختیارشرح مختارمیں یونہی ہے۔(ت)
(۲؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الفرائض الباب الخامس نورانی کتب خانہ پشاور ۶ /۴۵۴)
پس ایسی صورت میں وہ مال فقراء کو دے دے نہ اس نیت سے کہ اس صدقہ کاثواب اس کافرکوپہنچے کہ کافراصلاً اہل ثواب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ خبیث مرگیا اورموت مزیل ملک ہے تو اب وہ اس کامالک نہ رہا بلکہ حق بیت المال ہوا توفقراء کو بذریعہ استحقاق مذکوردیاجاتاہے۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲ : ازبنارس محلہ پِزکنڈہ مرسلہ مولوی عبدالحمید صاحب ۲۵رجب المرجب ۱۳۱۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ابقاہم اﷲ تعالٰی الٰی یوم الدین، اس میں کہ زیداکبرآباد سے چل کر شب کوتین بجے دہلی کے اسٹیشن پراُترا اوروہاں سے تین آنے کرایہ کو ایک گاڑی کے سرائے میں آیا اوروہاں آکرگاڑی بان کوکرایہ دینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالاتو پیسے نہ تھے گاڑی بان سے کہاکہ صبح کو آن لے لینا، اس نے کہا اچھا، زیدصبح کو دس بجے تک اسٹیشن پرگاڑی بان کامنتظر رہا وہ نہ آیا بعد دس بجے کے زیدشہر میں اپناکام کرنے کوچلاگیا اپنے سب کام سے فارغ ہوکر شام کی گاڑی میں سوارہوکر اپنے گھرچلاآیا وہ گاڑی بان کاکرایہ اس کے ذمے رہے گا تو اس کو زید کب کیسے اداکرے؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : اسٹیشن پرجانے والی گاڑیاں اگرکوئی مانع قوی نہ ہوتو ہرگاڑی کہ آمدورفت پرضرورآتی جاتی ہیں۔ اگرزیداسٹیشن پرتلاش کرتا ملناآسان تھا اب بھی خودیابذریعہ کسی متدیّن معتمد کے تلاش کرائے اگرملے دے دئیے جائیں، ورنہ جب یاس ونا اُمیدی ہوجائے اس کی طرف سے تصدّق کردے اگرپھربھی وہ ملے اور اس تصدّق پرراضی نہ ہوتو اسے اپنے پاس سے دے،
(علیہ دیون ومظالم جھل اربابھا وَلیس) من علیہ ذالک (من معرفتھم فعلیہ التصدق بقدرھا من مالہ وان استغرقت جمیع مالہ) ھذا مذھب اصحابنا لانعلم بینھم خلافا کمن فی یدہ عروض لم یعلم مستحقیھا اعتبارا للدیون بالاعیان (و) متی فعل ذٰلک (سقط عنہ المطالبۃ من اصحاب الدیون (فی العقبی) ۱؎ مجتبٰی
اس پرقرض اورمظالم ہیں جن کے مالکوں کاپتہ نہیں اور وہ مقروض ان مالکوں کی معرفت سے نا امیدہوچکاہے تو اس پر ان قرضوں کے برابر اپنے مال سے صدقہ کرنا ضروری ہے اگرچہ اس کا سارامال اس میں ختم ہوجائے، ہمارے ائمہ کا یہی مذہب ہے۔ ہمارے علم میں ان کا اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ جیسے کسی شخص کے پاس ایساسامان ہو جس کے مستحقین معلوم نہیں قرضوں کواجناس پرقیاس کرتے ہوئے، اور جب اس نے ایساکردیا یعنی صدقہ کردیاتو آخرت میں اصحاب دیون کی طرف سے اس پر سے مطالبہ ساقط ہوگیا۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب اللقطۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۶۶)
انہیں میں ہے:
(فان جاء مالکھا) بعد التصدق (خیّر بین اجازۃ فعلہ ولوبعدھلاکھا) ولہ ثوابھا (اوتضمینہ) ۱؎ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
اگرصدقہ کردینے کے بعد مالک آگیا تواس کو اختیار دیاجائے گا کہ چاہے صدقہ کرنے والے کے فعل کو جائزقراردے اگرچہ اجازت لقطہ کی ہلاکت کے بعد ہو اس کاثواب مالک کوملے گا اوراگرچاہے تو اس کوضامن ٹھہرائے۔(ت) واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب اللقطۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۶۵)
مسئلہ ۳: ازبنارس محلہ کندی گڈھ ٹولہ مسجد بی بی راجی شفاخانہ مرسلہ مولوی حکیم عبدالغفور ۵شعبان ۱۳۱۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدصاحب علاقہ وجائداد اپنا ایک موضع جس میں گودام بیل اس کے متعلق مکانات وبنگہ واصطبل وگاڑی خانہ وغیرہ تھے وقدرے اپنے دوسرے موضع سے بعوض چھ ہزارروپے کے بدست عمرو بیع میعادی مدت دس سال کی کرتاہے اورخالد عم زادہ زید جس کا کاروبارسب زید سے علیحدہ عمرو مشتری سے یہ شرط کرتاہے کہ بیع میعادی کرلو سارا انتظام اس موضع کا ہم بطور ٹھیکہ دار کے کریں گے فقط تم کو نفع دوسوپچاس روپے سالانہ دیاکریں گے اورمابقی بعدادائے مال گزاری سرکار ودیگر مصارف ہم لیں گے ہم اس کے ذمہ کارہیں اور کسی امر سے تم کو تعلق نہ رہے گا ووقت انقضائے میعاد فوراً تمہارا روپیہ ادا کردیاجائے گا اوراندرمیعاد تم اپنا روپیہ چاہوگے تو قبل چندماہ ہم کو اطلاع دیناکہ ہم یعنی زید روپیہ واپس کردیں گے اوراگراندرمیعادہم کوروپیہ مہیاہوجائے گا توہم دے کراپنی جائداد واپس لیں گے اورکسی نوع کی مداخلت تم کو حاصل نہ رہے گی یہ قول خالد ٹھیکہ دار کاہے اگرعمروشرط مذکورکے ساتھ معاملہ کرلے تو جائز ہوگایانہیں؟ درصوت عدم جواز کے کس طور سے معاملہ مذکورتوجائزہوسکتاہے؟
الجواب : یہ صورت بیع وفاکی ہے اوربیع وفامذہب محقق ومنقح میں عین رہن ہے۔
فی ردالمحتار قدمنا اٰنفا عن جواھر الفتاوٰی انہ الصحیح قال فی الخیریۃ والذی علیہ الاکثر انہ رھن لایفترق عن الرھن فی حکم من الاحکام قال السید امام قلت للامام ابی الحسن الماتریدی قد فشاھذا البیع بین الناس وفیہ مفسدۃ عظیمۃ وفتواک انہ رھن وانا ایضا علی ذٰلک فالصّواب ان نجمع الائمۃ ونتفق علٰی ھذا ونظھرہ بین الناس فقال المعتبر الیوم فتوانا وقدظھرذلک بین الناس فمن خالفنا فلیبرز نفسہ ولیقم دلیلہ۱؎ الخ۔
ردالمحتار میں ہے ابھی ابھی ہم جواہر الفتاوٰی کے حوالے سے بیان کرچکے ہیں کہ یہ صحیح ہے۔ فتاوٰی خیریہ میں ہے اکثر علماء کامؤقف یہ ہے کہ یہ رہن ہے اور کسی حکم میں یہ رہن سے مختلف نہیں ہے۔ سیدامام نے فرمایا میں نے ابوالحسن ماتریدی سے کہاکہ یہ بیع لوگوں میں پھیل گئی ہے اور اس میں فسادعظیم ہے جبکہ آپ کافتوٰی ہے کہ یہ رہن ہے اورمیں بھی اسی پرقائم ہوں۔ چنانچہ درست بات یہ ہے کہ ہم ائمہ کو اس پر جمع کرکے متفق ہوں اور اس کو لوگوں میں ظاہرکریں، توانہوں نے فرمایا کہ اس وقت ہمارافتوٰی معتبر ہے اوروہی لوگوں میں ظاہرہے توجو ہماری مخالفت کرے وہ اپنا مؤقف ظاہرکرے اوراس پردلیل قائم کرے الخ(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب البیوع باب الصرف داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۲۴۶)
اور رہن میں کسی طرح کے نفع کی شرط بلاشبہہ حرام اورخالص سودہے بلکہ ان دیارمیں مرتہن کامرہون سے انتفاع بلاشرط بھی حقیقۃً بحکم عرف انتفاع بالشرط ربائے محض ہے۔
قال الشامی، قال ط قلت والغالب من احوال الناس انھم انمایریدون عندالدفع الانتفاع ولولاہ لما اعطاہ الدراھم وھذا بمنزلۃ الشرط لان المعروف کالمشروط وھو مایعین المنع۔۲؎
شامی نے کہاکہ ط نے فرمایا میں کہتاہوں غالب حال لوگوں کایہ ہے کہ وہ رہن سے نفع کاارادہ رکھتے ہیں اگریہ توقع نہ ہوتو قرض ہی نہ دیں اور یہ بمنزلہ شرط کے ہے کیونکہ معروف مشروط کے حکم میں ہوتاہے۔ یہ بات عدم جواز کومتعین کرتی ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الرہن داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۳۱۱)