Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۴(کتاب الحظر والاباحۃ)
6 - 160
روی ابونعیم فی الحلیۃ عن یحیی بن معاذ الرازی انہ سئل عن الرقص فانشد یقول ؎

دققنا الارض بالرقص 		علی لطف معانیکا

ولاعیب علی الرقص 		لعبد ھائم فیکا

وھذا دقنا الارض 		اذا کنا بنادیکا

وامامن اظھر ھذہ الاحوال تعمدا للتوصل الی الدنیا اولیعتقدہ الناس ویتبرکوابہ فھذا من اقبح الذنوب المھلکات انتھی، چنانچہ محدث ابونعیم نے الحلیہ میں یحیٰی بن معاذ رازی سے روایت کی ہے کہ ان سے ناچ کے بارے میں پوچھاگیاتو وہ یہ کہنے لگے: ہم نے ناچ سے زمین کو روندا اورپامال کیا(یہ سب کچھ) تیرے معانی سے لطف اندوزہونے کے لئے کیا۔ناچ کرنے میں کوئی عیب نہیں اس بندہ کے لئے جو تیری ذات میں سرگشتہ اور گم ہوا اور محوہوا، اور یہ ہمارا زمین کوناچ کے ذریعے روندنا اورپامال کرنا اس لئے ہے کہ ہم تیراارادہ اور قصدکرنے والے ہیں، لیکن جس نے ان حالات کو دانستہ طوپردنیا تک رسائی کے لئے ظاہرکیا یا اس لئے کہ لوگ اس کے عقیدت مند ہوجائیں اور اس سے تبرک حاصل کریں تو یہ کارروائی مہلک اور تباہ کن گناہوں سے بھی زیادہ قبیح ہےاھ۔

وقال الغزالی فی الاحیاء ان اباالحسن النوری رحمہ اﷲ تعالٰی کان مع جماعۃ فی دعوۃ فجرت بینھم مسألۃ فی العلم و ابوالحسن ساکت ثم رفع راسہ وانشدھم یقول ؎

ربَ ورقاء ھتوف فی الضحٰی		ذات شجوھتفت فی فنن

ذکرت الفاوحزنا صالحا		 فبکیت حزنا فھاجت حزنی

فبکائی ربما ارقھا			وبکاھا ربما ارقنی

ولقدتشکوفماافھمھا 		ولقداشکوفمایفھمنی

غیرانی بالجوی اعرفھا		وھی ایضا بالجوی تعرفنی

قال فما بقی احد من القوم الاقام وتواجد ولم یحصل لھم ھذا الوجد من العلم الذی خاضوافیہ وان کان العلم حقا انتھی ولاشک ان التواجد فیہ تشبّہ باھل الوجد الحقیقی وھو جائز بل مطلوب شرعاً قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من تشبہ بقوم فھو منھم رواہ الطبرانی فی الاوسط عن حذیفۃ بن الیمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ، ھذا اذاکان قصدہ بذلک مجرد التشبہ بھم والتبرک بسیرتھم محبۃ لھم ورغبۃ فی زیادۃ المیل الیھم واما اذاکان مقصدہ ان یعتقدہ الناس ویتبرکون بہ فھوالابس ثوبی زورفھو مذموم ممقوت عنداﷲ تعالٰی والناس یحملونہ علی المحامل الحسنۃ واما التواجد علی الوجہ الصحیح فقداشار الیہ الشیخ القشیری فی رسالتہ حیث قال قوم قالواالتواجد غیرمسلم لصاحبہ لمایتضمن من التکلف ویبعد عن التحقیق وقوم قالوا انہ مسلم للفقراء المجردین الذین ترصدوا لوجدان ھذہ المعانی واصلھم خبرالرسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ابکوافان لم تبکوا فتباکواانتھٰی وفی شرعۃ الاسلام من السنۃ ان یقرأ القراٰن بحزن و وجدفان القراٰن نزل بحزن فان لم یکن لہ حزن فلیتحازن انتھٰی والحاصل ان تکلف الکمال من جملۃ الکمال والتشبہ بالاولیاء لمن لم یکن منھم امرمطلوب مرغوب فیہ علی کل حال ۱؎ اھ ملتقطا۔
چنانچہ امام غزالی نے احیاء العلوم میں فرمایا ابوالحسن نوری رحمۃ اﷲ علیہ کسی دعوت میں ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرماتھے کہ اچانک ان کے درمیان ایک علمی بحث چھڑگئی اور حالت یہ تھی کہ ابوالحسن نوری بالکل خاموش بیٹھے تھے پھراچانک سراٹھایا اور یہ اشعار پڑھنے لگے،

 بہت سی کبوتریاں چاشت کے وقت لمبی لمبی آوازیں نکال کر درختوں کی شاخوں پربولنے لگیں۔ میں نے محبت اور قابل قدرغم کویادکیا پھر میں غم کی وجہ سے روپڑا اور میرے غم میں ابال اور جوش آگیا۔ بسااوقات میری گریہ وزاری نے انہیں نرم کردیا اور بسااوقات ان کی آہ وبکا نے مجھے نرم کرڈالا۔ بیشک وہ شکوہ وشکایت کرتی ہیں مگرمیں تو انہیں نہیں سمجھاتا۔ اور میں شکایت کرتا ہوں تو وہ مجھے نہیں سمجھاتی مگرمیں اپنے اندرونی سوزعشق کی وجہ سے اسے پہچانتاہوں اور وہ بھی اپنے اندر موجزن سوزعشق کی وجہ سے مجھے پہچانتی ہے۔ پھربقول راوی سب کے سب وجد کرنے لگے اور یہ وجد اس علم کی وجہ سے نہ تھا جس میں وہ الجھے ہوئے تھے اگرچہ علم حق ہے انتہی، بلاشبہ اس تواجد میں حقیقی وجدکرنے والوں سے مشابہت ہے اور یہ جائزہے بلکہ شرعاً مطلوب ہے چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی قوم سے مشابہت اختیارکرے وہ انہی میں سے ہے۔ امام طبرانی نے ''الاوسط'' میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اس کو روایت کیا ہے، یہ تب ہے کہ جب اس سے اس کاارادہ محض ان سے تشبہ اور ان کی عادات سے برکت حاصل کرنا ہو، ان سے محبت رکھتے ہوئے او ان کی طرف زیادہ راغب ومائل ہوتے ہوئے۔ لیکن اگر اس کامقصد یہ ہو کہ لوگ اس (طریقہ) سے اس کے معتقد ہوجائیں اور اس سے برکت حاصل کریں توپھر وہ جھوٹالباس پہننے والا ہے جو اﷲ تعالٰی کے نزدیک مذموم ومغضوب ہے (اس کے باوجود) لوگ اچھے محمل پرمحمول اورقیاس کرتے ہیں لیکن صحیح طورپر وجدکرنا تو شیخ قشیری نے اپنے رسالہ میں اس کی طرف اشارہ فرمایا، فرمایا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ باہم وجدکرنا صاحب وجد کے لئے ٹھیک نہیں اس لئے کہ وہ تکلف پر مبنی اورتحقیق سے بعید ہے۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مجرد فقراء کے لئے ٹھیک ہے جو ان کے معانی کے  پانے کے منتظر رہتے ہیں اور اس کی اصل اور بنیاد آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث ہے (چنانچہ آپ نے فرمایا) لوگو! رویاکرو اور اگر رونہ سکو تورونی صورت بنایا کرو انتہی۔ شرعۃ الاسلام میں ہے سنت یہ ہے کہ غم کے ساتھ جھوم کر قرآن مجید کی تلاوت کی جائے کیونکہ قرآن مجید غم کے ساتھ نازل ہوا ہے اور اگرکسی میں غم کاتاثر نہ ہو توغمگین صورت بنالیاکرے انتہی۔ خلاصہ یہ کہ کسی کمال میں تکلف (بناوٹ) کمال میں شامل ہوتاہے اور جوشخص اولیاء اﷲ میں سے نہیں مگران کی مشابہت اختیارکرتاہے یہ بھی امرمطلوب اور ہرحال مستحسن ہے اھ ملتقطاً۔(ت)
 (۱؎ الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیۃ     الصنف التاسع مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد     ۲/ ۵۲۳ تا ۵۲۷)
مگرظاہر کہ عامہ ناس کا اس میں کچھ نہیں تو صورت مسئولہ میں اس حالت کے شروع ہونے پر لوگوں کاچلانا اصلاً کسی طرح محل طعن نہ تھا بلکہ انہیں یہی چاہئے تھا دوحال سے خالی نہیں یہ رقص وتمایل و تصفیق والے محق تھے یامبطل، اگرمحق تھے تو عوام جو ان مناصب عالیہ تک بالغ نہیں ان میں شریک ہونامحض بے معنی تھا، اور مبطل تھے تو ان کی حرکات ذمیمہ کا تماشا دیکھنا خود حرام ونارواتھا، اور جوامر حرام ولغو میں دائر ہو اس سے احتراز ہی طریق صواب ہے آیہ کریمہ ومن اعرض عن ذکری۲؎ کا اس پر ورود کیونکر ممکن، جہاں خودبحکم شرع ہی چلاجانا مطلوب ہو، آیہ کریمہ میں اعراض عن الذکر سے ایمان نہ لانا مقصود، خود آیت قرآنیہ اس ارادے پرشاہد عدل موجود، قال اﷲ تعالٰی: فامّا یاتینکم منّی ھدًی فمن اتبع ھدای فلایضل ولایشقی۳؎o ومن اعرض عن ذکری۴؎ الآیۃ بعد واقعہ ابلیس لعین وتناول شجرہ حضرت آدم وحوا اور ان کے دشمن کوجنت سے اتارتے وقت ارشاد ہوا کہ اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے توجومیری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ گمراہ نہ ہو نہ سختی جھیلے اور جو میرے ارشاد سے منہ پھیرے اس کے لئے تنگ زندگانی اور اسے ہم روزقیامت اندھا اٹھائیں گے۔
 (۲؎ القرآن الکریم     ۲۰/ ۱۲۴ )    (۳؎ القرآن الکریم     ۲۰/ ۱۲۳ )    (۴؎ القرآن الکریم     ۲۰/ ۱۲۴)
اس مضمون کو سورہ بقر میں یوں ادافرمایا ہے:
فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلاخوف علیھم ولاھم یحزنونo والذین کفرواکذبواباٰیتنا اولٰئک اصحٰب النّار ھم فیہا خٰلدونo ۱؎
اگرتمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جومیری ہدایت کی پیروی کریں انہیں کچھ خوف نہیں نہ وہ غمگین ہوں اور جوکفرکریں اور میری آیتیں جھٹلائیں وہ دوزخی ہیں ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔
 (۱؎ القرآن الکریم     ۲/ ۳۸ و۳۹)
ایک ہی قصہ ہے ایک ہی ارشاد ہے تو خود قرآن عظیم نے شرح فرمادی ہے کہ اعراض عن الذکر سے کفرمراد ہے، اب نقل اقوال مفسرین کی حاجت نہ رہی، حدیث میں ہے کچھ لوگوں نے چلاچلا کر مسجد میں ذکرکرنا شروع کیا سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے انہیں نکلوادیا اب خواہ یہ نکلوانا اس بناپر ہو کہ ان کے نزدیک ذکرجہرممنوع تھا خواہ اس لئے کہ ان کے چلانے سے نمازیوں پرتشویش تھی خواہ کسی وجہ سے ہوبہرحال جب ایسی حالتوں میں خود ذاکرین کونکلوادینا معیوب نہ ہوا توآپ اُٹھ کرچلاجانا کیونکر محل طعن ہوسکتاہے، غرض آیت سے نہ یہ ارادہ صحیح نہ ان مسلمانوں پر یہ حکم لگانا درست، حلقے میں کا وہ شخص جو اس کاقائل ہوا اگرجاہل ہے تو دو سخت کبیرہ گناہوں کامرتکب ہوا:
اولاً بے علم قرآن عظیم کی تفسیرکرنا، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من قال فی القراٰن بغیرعلم فلیتبوا مقعدہ من النار۔ رواہ الترمذی ۲؎ عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنھما وقال صحیح۔
جو بے علم قرآن میں کچھ بولے وہ اپناٹھکانا دوزخ میں بنالے(امام ترمذی نے حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے حوالہ سے اسے روایت کیااور فرمایا یہ حدیث صحیح ہے۔ت)
(۲؎ جامع الترمذی     ابواب التفسیر        باب ماجاء فی الذی یفسرالقرآن برأیہ     امین کمپنی دہلی         ۲/ ۱۱۹)
Flag Counter