Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۴(کتاب الحظر والاباحۃ)
1 - 160
لہوولعب

کھیل،تماشہ،میلہ،مزاح،ناچ،گانا،قوالی،مزامیر،راگ،سماع،موسیقی وغیرہ سےمتعلق
مسئلہ۱: ازفیروزپورہ ربیع الاول۱۳۱۰ھ

کیافرماتے ہیں علمائےدین اس مسئلہ میں کہ گنجفہ،چوسر،شطرنج کھیلناکیساہےاوران میں کچھ فرق ہے یاسب ایک سے ہیں ،اورگناہ صغیرہ ہیں یاکبیرہ؟ یاعبث؟ اورفعل عبث کاکیا حکم ہے؟
بینواتوجروا
(بیان فرمائیے اجرپائیے۔ت)
الجواب

یہ سب کھیل ممنوع اورناجائزہیں اوران میں چوسراورگنجفہ بدترہیں ،گنجفہ میں تصاویر ہیں اورانھیں عظمت کے ساتھ رکھتے اوروقعت وعزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ امر اس کے سخت گناہ کاموجب ہے۔اورچوسرکی نسبت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
من لعب بالنردشیرفکانماصبغ یدہ فی لحم خنزیرودمہ۱؂۔رواہ مسلم۔
جس نے چوسر کھیلی اس نے گویااپناہاتھ سورکے گوشت خون میں رنگا۔(اسے مسلم نے روایت کیا۔ت)
 (۱؂صحیح مسلم    کتاب الشعر   باب تحریم اللعب بالنردشیر   قدیمی کتب خانہ کراچی۲/ ۲۴۰)
دوسری حدیث صحیح فرمایا:
من لعب بالنردفقدعصی اللہ ورسولہ اخرجہ احمد ۱؂وابوداؤد وابن ماجہ والحاکم عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
جس نے چوسرکھیلی اس نے خدااوررسول کی نافرمانی کی(احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ اورحاکم نے اسے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰےعنہ سے روایت کیا۔ت)
 (۱؂مسند امام احمدبن حنبل    عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ     المکتب الاسلامی بیروت   ۴/ ۳۹۴)
چوسر بالاجماع حرام وموجبِ فسق وردِشہادت ہے فی ردالمحتارعن القہستانی النرد حرام مسقط للعدالۃ بالاجماع۲؂(فتاوٰی شامی میں قہستانی سے نقل کیاگیاہےکہ چوسرکھیلناحرام ہےاس سے بالاجماع عدالت ساقط ہوجاتی ہے۔ت )
 (۲؂ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ         فصل فی البیع        داراحیاء التراث العربی بیروت     ۵/ ۲۵۳)
یہی حال گنجفہ کاسمجھناچاہئے لماذکرنا(اس وجہ سے جس کو ہم نے ذکرکیاہے۔ت) اورشطرنج کواگرچہ بعض علمانے بعض روایات میں چند شرطوں کےساتھ جائزبتایاہے:

(۱) بدکر نہ ہو۔

(۲) نادراًکبھی کبھی ہوعادت نہ ڈالیں۔

(۳) اُس کے سبب نماز باجماعت خواہ کسی واجب شرعی میں خلل نہ آئے۔

(۴) اُس پرقسمیں نہ کھایا کریں۔

(۵) فحش نہ بکیں۔

مگر تحقیق یہ کہ مطلقاًمنع ہے اورحق یہ ہے کہ ان شرطوں کانباہ ہرگزنہیں ہوتاخصوصاًشرط دوم وسوم کہ جب اس کاچسکاپڑجاتا ہے ضرورمداومت کرتے ہیں اورلااقل وقت نمازمیں تنگی یاجماعت میں غیرحاضری بیشک ہوتی ہے جیسا کہ تجربہ اس پرشاہد،اوربالفرض ہزارمیں ایک آدھ آدمی ایسانکلے کہ ان شرائط کاپورالحاظ رکھے تونادر پرحکم نہیں ہوتا۔
وانماتبتنی الاحکام الفقھیۃعلی الغالب فلاینظرالی النادرولایحکم الابالمنع کماافادہ المحقق فی الفتح فی مسئلۃ مجاورۃ  الحرم وفی الدرفی مسئلۃالحمام۔
فقہی احکام غالب حالات پر مبنی ہوتے ہیں لہذانادرالوقوع پر نگاہ نہیں کی جاتی اس لئے ممانعت کافیصلہ ہی کیاجائے گاجیساکہ محقق ابن ہمام نے فتح القدیر میں ہمسائیگی حرم کے مسئلہ میں افادہ بخشا۔اوردرمختارمیں مسئلہ حمام میں یہی فرمایاہے۔(ت)
توٹھیک یہی ہے کہ اس سے مطلقاًممانعت کی جائے۔
درمختارمیں ہے:
کرہ تحریمااللعب بالنرد والشطرنج بکسراولہ ویھمل ولا یفتح الانادراواباحہ الشافعی وابویوسف فی روایۃ وہذااذالم یقامر ولم یخل بواجب والافحرام۔۱؂
چوسر کھیلنامکروہ تحریمی ہے اورشطرنج بھی۔اورایک روایت میں امام شافعی اورقاضی ابویوسف نے شطرنج کومباح قراردیاہے،اوریہ اس وقت ہوگا جبکہ جوانہ ہواورکسی واجب کی ادائیگی میں خلل بھی واقع نہ ہوورنہ حرام ہوگا(ت)
(۱؂درمختارکتاب الحظروالاباحۃ    فصل فی البیع      مطبع مجتبائی دہلی      ۲/۴۸ ۔ ۲۴۷)
ردالمحتارمیں ہے :
ھوحرام وکبیرۃعندناوفی اباحتہ اعانۃ الشیطان علی الاسلام والمسلمین کمافی الکافی قہستانی قولہ فی روایۃالخ وکذااذالم یکثرالخلف علیہ وبدون ھذہ المعانی لاتسقط عدالتہ للاختلاف فی حرمتہ عبدالبرعن ادب القاضی۔۲؂
ہمارے نزدیک شطرنج کھیلناحرام اورگناہ کبیرہ ہے اوراس کومباح قراردینے میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف شیطان کوامدادفراہم کرناہے جیساکہ کافی میں ہے،قہستانی۔قولہ فی روایۃ الخ اوراسی طرح جبکہ دورانِ کھیل زیادہ قسمیں نہ کھائی جائیں،اوربغیران چیزوں کے آدمی کی عدالت ساقط نہیں ہوتی کیونکہ اس کی حرمت میں اہلِ علم کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے،عبدالبربحوالہ ادب القاضی۔(ت)
 (۲؂ ردالمحتار    کتاب الحظروالاباحۃ   فصل فی البیع   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۵۳)
عالمگیری میں ہے:
یکرہ اللعب بالشطرنج والنردوثلثۃعشرواربعۃ عشروکل لھوماسوی الشطرنج حرام بالاجماع واماالشطرنج فاللعب بہ حرام عندناوالذی یلعب ان قامر سقطت عدالتہ لم تقبل شہادتہ اھ۱؂ملخصاً
شطرنج اورچوسراورتیرہ اورچودہ کاکھیل مکروہ ہے اورشطرنج کے علاوہ ہرکھیل بالاتفاق حرام ہے اورشطرنج کھیلنابھی ہمارے نزدیک حرام ہے۔اوروہ شخص جوکھیلے اگرجوئے کی بازی لگائے تواس کی عدالت ساقط ہوجائے گی لہذااس کی گواہی قبول نہ ہوگی اھ ملخصاً(ت)
 (۱؂فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃ  الباب السابع عشر  نورانی کتب خانہ پشاور   ۵/ ۳۵۲)
ہاں اتناہے کہ اگر بدکرنہ ہوتوایک آدھ بارکھیل لینا گناہِ صغیرہ ہے اوربدکرہویاعادت کی جائے یااس کے سبب نمازکھوئیں یاجماعتیں فوت کریں توآپ ہی گناہِ کبیرہ ہوجائے گی۔اسی طرح ہر کہیل اورعبث فعل جس میں نہ کوئی غرضِ دین نہ کوئی منفعتِ جائزہ دنیوی ہوسب مکروہ وبیجاہیں کوئی کم کوئی زیادہ۔

درمختارمیں ہے: وکرہ کل لھولقولہ علیہ الصلٰوۃوالسلام کل لھو المسلم حرام الاثلثۃملاعبتہ باھلہ وتادیبہ للفرسہ ومناضلتہ بقوسہ۔۲؂ہر کھیل مکروہ ہے اس لئے کہ حضور علیہ الصلٰوۃوالسلام نے ارشادفرمایامسلمان کاہرکھیل حرام ہے سوائے تین کے،خاوندکااپنی اہلیہ سے کھیلنا ،اپنے گھوڑے کوشائستگی سکھاتے ہوئے اس سے کھیلنا،اپنی کمان کے ساتھ تیر اندازی کرنا۔(ت)
 (۲؂درمختار       کتاب الحظروالاباحۃ     فصل فی البیع         مطبع مجتبائی دہلی۲/ ۲۴۸)
ردالمحتارمیں ہے:
کل لھو ای کل لعب وعبث فالثلثۃبمعنی واحدکمافی شرح التاویلات۳؂ الخ،واللہ تعالیٰ اعلم۔
ہرلھویعنی کھیل اوربے فائدہ کام۔پس تینوں ہم معنٰی ہیں،جیساکہ شرح تاویلات میں ہے الخ واللہ تعالٰی اعلم (ت)
 (۳؂درمختار        کتاب الحظروالاباحۃ        فصل فی البیع           داراحیاء التراث العربی بیروت      ۵/ ۲۵۳)
مسئلہ ۲: از جالندھر محلہ راستہ پھگواڑہ دروازہ مرسلہ شیخ محمد شمس الدین صاحب ۲۲ رجب ۱۳۱۰ھ 

راگ یامزامیر کرانا یاسننا گناہ کبیرہ ہے یاصغیرہ ؟ اس فعل کامرتکب فاسق ہے یا نہیں ؟
الجوا ب : مزامیر یعنی آلات لہو ولعب بروجہ لہو ولعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء وعلماء دونوں فریق مقتداکے کلمات عالیہ میں مصرح ، ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے ، اور حضرات علیہ سادات بہشت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت رضی اللہ تعالی عنھم وعنا بھم کی طرف اس کی نسبت محض باطل وافترا ہے ، حضرت سیدی فخرالدین زراوی قدس سرہ کہ حضور سیدنا محبوب الہی سلطان الاولیاء نظام الحق والدنیا والدین محمد احمد رضی اللہ تعالٰی عنھما کے اجلہ خلفاء سے ہیں جنھوں نے خاص عہد کرامت مہد حضور ممدوح میں بلکہ خود بحکم حضور والا مسئلہ سماع میں رسالہ "کشف القناع عن اصول السماع " تالیف فرمایا ،اپنے اسی رسالہ میں فرماتے ہیں : سمع بعض المغلوبین السماع مع المزامیر فی غلبات الشوق واما سماع مشائخنا رضی اللہ تعالی عنھم فبرئ عن ھذہ التھمۃ المشعرۃ من کمال صنعۃ اللہ تعالی ۱؂۔

یعنی بعض مغلوب الحال لوگوں نے اپنے غلبہ حال وشوق میں سماع مع مزامیر سنا اور ہمارے پیران طریقت رضی اللہ تعالی عنھم کا سننا اس تہمت سے بری ہے وہ تو صرف قوال کی آواز ہے ان اشعار کے ساتھ جو کمال صنعت الہی جل وعلا سے خبر دیتے ہیں انتہی ۔(ت)
(۱؂کشف القناع عن اصول السماع)
بلکہ خود حضور ممدوح رضی اللہ تعالی نے اپنے ملفوظات شریفہ فوائد الفواد وغیرہا میں جابجا حرمت مزامیر کی تصریح فرمائی ، بلکہ حضور والا صرف تالی کو بھی منع فرماتے کہ مشابہ لہو ہے ، بلکہ ایسے افعال میں عذر غلبہ حال کو بھی پسند نہ فرماتے کہ مدعیان باطل کو راہ نہ ملے ، واللہ یعلم المفسد من المصلح فرضی اللہ عن الائمۃ ما انصحھم للامۃ ۔اللہ تعالی مفسد اور مصلح یعنی فساد کرنے والے اور اصلاح کرنے والے دونوں کو جانتاہے ،پس اللہ تعالی ائمہ کرام سے راضی ہو کہ انھوں نے امت کے لیے کتنی خیر خواہی فرمائی ۔(ت)

یہ سب امور ملفوظات اقدس میں مذکور وماثور فوائد الفواد شریف میں صاف تصریح فرمائی ہے کہ مزامیر حرام است۲؂ (مزامیر یعنی گانے کے آلات کا استعمال حرام ہے ۔ت)کمانقل عنہ رضی اللہ تعالی عنہ سیدی الشیخ المحقق مولانا عبدالحق المحدث الدھلوی رحمۃ اللہ تعالی علیھم وعلینا بھم ۔آمین ۔جیسا کہ ان سے نقل کیا ہے اللہ تعالی ان سے راضی ہو میرے آقا شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نےاور ان کی وجہ سے ہم پربھی اس کی رحمتیں ہوں ،اے اللہ ! اس دعا کو شرف قبولیت سے نواز دے ۔(ت)( ۲؂فوائد الفواد) 

حضور ممدوح کے یہ ارشادات عالیہ ہمارے لیے سند کافی ،اوران اہل ہوا وہوس مدعیان چشتیت پر حجت کافی ۔ہاں جہاد کا طبل ،سحری کانقارہ ، حمام کا بوق ،اعلان نکاح کا بے جلاجل دف جائز ہیں کہ یہ آلات لہو ولعب نہیں ،یوہیں یہ بھی ممکن کہ بعض بندگان خدا جو ظلمات نفس وکدورات شہوت سے یک لخت بری ومنزہ ہو کر فانی فی اللہ وباقی باللہ ہو گئے کہ : لایقولون الااللہ و لایسمعون الااللہ بل لایعلمون الا اللہ بل لیس ھناک الااللہ ۔وہ اللہ تعالی کے سوا کچھ نہیں کہتے ،اللہ تعالی کے سواکچھ نہیں سنتے ، بلکہ اللہ تعالی کے بغیر کچھ نہیں جانتے بلکہ وہاں صرف اللہ تعالی ہی جلوہ گر ہوتاہے ۔(ت)

ان میں کسی نے بحالت غلبہ حال خواہ عین الشریعۃ الکبری تک پہنچ کر ازانجا کہ ان کی حرمت بعینھا نہیں ،
وانما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوی ۱؂۔اعمال کا دارومدار ارادوں پرہوتا ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کا اس نے ارادہ کیا ،(ت)
(۱؎ صحیح البخاری        باب کیف کان بدء الوحی الخ      قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۲)
بعد وثوق تام واطمینان کامل کہ حالاًومالاً فتنہ منعدم احیاناً اس پر اقدام فرمایا ہو ،ولہذافاضل محقق آفندی شامی قدس اللہ تعالی سرہ السامی ردالمحتار میں زیر قول درمختار : ومن ذلک (ای من الملاھی ) ضرب النوبۃ للتفاخر فلو للتنبیہ فلاباس بہ کما اذا ضرب فی ثلثۃ اوقات لتذکیر ثلث نفخات الصور۲؂۔الخ
اسی سے یعنی آلات لہو میں سے فخریہ طور پر نو بت بجانا بھی ہے ،لیکن اگر ہوشیار کرنے کے لیے بجائی جائے تو کوئی حرج نہیں ۔جیساکہ تین اوقات میں یا تین دفعہ نوبت بجائی جائے تاکہ صور اسرافیل کے تین دفعہ پھونکنے کی یاد تازہ ہو الخ (ت)
(۲؎ درمختار         کتاب الحظروالاباحۃ            مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۲۳۸)
فرماتے ہیں :
ھذا یفید ان اٰلۃ اللھو لیست محرمۃ لعینھابل لقصد اللھو منھا اما من سامعھا اومن المشتغل بھا وبہ تشعر الاضافۃ الاتری ان ضرب تلک الالۃ بعینھا حل تارۃ وحرم اخری باختلاف النیۃ بسماعھا والامور بمقاصدھا وفیہ دلیل لساداتنا الصوفیۃ الذین یقصدون بسماعھا اموراً ھم اعلم بھا فلایبادر المعترض بالانکار کی لایحرم برکتھم فانھم السادۃ الاخیار امدنا للہ تعالی بامدادتھم واعاد علینا من صالح دعواتھم وبرکاتھم ۱؂۔
یہ بات فائدہ دیتی ہے کہ آلہ لہو بعینہ (بالذات ) حرام نہیں بلکہ ارادہ وعمل لہو کی وجہ سے حرام ہے خواہ یہ سامع کی طرف سے ہو یا اس سے مشغول ہونے والے کی طرف سے ہو ،"اضافت "سے یہی معلوم ہوتا ہے،کیا تم دیکھتے نہیں کہ کبھی اس آلہ لہو کو بعینہ بجانا اور استعمال کرنا حلال ہو تا ہے اور کبھی حرام ، اور اس کی وجہ اختلاف نیت ہے ، پس کاموں کے جائز اور ناجائز ہونے کا دارومدار ان کے مقاصد پر مبنی ہوتا ہے ،اس میں ہمارے سادات صوفیہ کی دلیل موجو د ہےکہ وہ سماع سے ایسے رموز کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جن کو وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں لہذا اعتراض کرنے والا انکار کرنے میں جلدی نہ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی برکت سے محروم ہو جائے ، کیونکہ وہ پسندیدہ سادات ہیں پس ان کی امداد سے اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے ،اور ان کی نیک دعاؤں اور برکات کا ہم پر اعادہ فرمائے یعنی انھیں ہم پر لوٹادے ۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار         کتاب الحظروالاباحۃ     فصل البیع     داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۲۳)
Flag Counter