فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
رسالہ الکشف شافیا حکم فونو جرافیا (۱۳۲۸ھ) (فونوگراف (گراموفون) کے حکم کے بارے میں تسلی بخش وضاحت)
مسئلہ۱۷۳ : از ریاست رامپور محلہ چاہ شور ۱۲ رمضان مبارک ۱۳۲۸ھ بسم اللہ الرحمن الرحیم کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ فونو گراف سے قرآن مجید سننا اور اس میں قرآن شریف کا بھرنا اور اس کام کی نوکری کرکے یا اجرت لے کر یا ویسے ہی اپنی تلاوت کا اس میں بھروانا جائز ہے یا نہیں اور اشعار حمد ونعت کے بارہ میں کیا حکم ہے اور عورات کے ناچ گانے یا مزامیر کی آوازاس سے سننا بھی ایسا ہی حرام ہے جس طرح اس سے باہر سننا یا کیا؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر وثواب پاؤ۔ ت)
الجواب: الحمد ﷲ الذی انزل القراٰن ذکراللعلمین، واغنانا بہ عن الغنا الخبیث ولھو الحدیث وملاھی المبطلین وحرم بغیرتہ ورحمتہ الفواحش والفتن ماظھر منھا وما بطن والصلٰوۃ والسلام علی سیدنا ومولٰنا محمد سید المرسلین المبعوث بزھق المعازف والمزامیر وکل لھو مھین وعلی الہ وصحبہ الذین ھم لعھدھم بتعظیم الذکر راعون وبلا طمع اجرۃ ولا کراموفون المنتجبین والمجتنبین عن لھو الحدیث الذین میزاﷲ بسعیھم و رعیھم الطیب من الخبیث مااطرب الورقاء بالالحان وغر القرٰی فی الافنان اٰمین !۔
سب تعریف اللہ تعالٰی کے لئے ہے کہ جس نے تمام جہانوں کی پند ونصیحت کے لئے قرآن مجید نازل فرمایا اور اس کی برکت سے ہمیں خبیث گانوں، کھیل کی باتوں اور اہل باطل کے کھیل وتماشوں سے بے نیاز کردیا اور اپنی غیرت اور رحمت کی وجہ سے فحش (یعنی بیحیائی کے کام) اور کھلے اور پوشیدہ فتنے حرام کردئیے اور درود وسلام ہمارے آقا ومولٰی پر ہو جو محمد (کریم) تمام رسولوں کے سردار اور مقتدا ہیں کہ جن کو گانے بجانے کے آلات واسباب اور ہر ذلیل کھیل وتماشہ کے مٹانے اور ختم کرنے ) کے لئے بھیجا گیا (نیز درود وسلام) ان کی تمام آل اور تمام ساتھیوں پر ہو کہ جو تعطیم ذکر کی وجہ سے اپنے عہد وپیمان کی رعایت کرتے رہے اور یہ بغیر لالچ اجرت اور کرایہ کے عہد پورا کرتے ہیں اور شرافت رکھنے والے اور کھیل کی باتوں سے بچنے والے تھے،یہ وہ پاکیزہ لوگ تھے کہ جن کی کوشش اور رعایت کرنے سے اللہ تعالٰی نے پاک کو ناپاک سے الگ اور جدا کردیا (اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے) جب تک فاختائیں خوش الحانی سے بولتی رہیں اور قمریاں شاخوں پر (جھوم کر) گیت گاتی اور خوش آوازی کرتی ہیں یا اللہ! اس دعا کو شرف قبولیت سے نواز دے۔ (ت) اس مسئلہ حادثہ میں کلام سے پہلے ایک مبحث جلیل کی تمہید ضرور جس پر انکشاف احکام مقصور، وہ فوٹوگراف سے فونوگراف کا اظہار فرق ہے فوٹو گراف کی تصویر اپنی ذی الصورہ سے مباین اور اسکی محض ایک مثال وشبیہ ہوتی ہے بخلاف اس آلہ کے کہ اس میں اگر کسی قاری کی تلاوت بھری گئی تو اس میں حقیقۃً قرآن عظیم ہی ودیعت ہوا اور اس سے جو سنا جائے وہ حقیقتاً اسی قاری کی آواز ہوگی اور اس سے جو ادا ہوا وہی قرآن عظیم ہوگا جو اس نے پڑھا نہ یہ کہ مسموع اس کی آواز کی کوئی حکایت وتصویر ہو اوریہ جو ادا ہوا قرآن مجید میں نہ ہو اس کی مثال ونظیر ہو، یوہیں اگر آلات طرف وغیرہا کی آواز ہے تو وہ بھی حقیقۃً وہی آواز ہے نہ کہ اس کا نشان وپرداز۔
کما توھمہ بعض فضلاء العصر وھو العلامۃ السید محمد عبدالقادر الاھدل الشافعی المقیم الاٰن بحدیدۃ اذ جمع فیہ رسالۃ سماھا ''القول الواضح فی ردالخفاء الفاضح'' زعم فیھا ان مایسمع من ذٰلک الصندوق لیس اصوات الاصل ولا مساویا لھا انما یشبھھما فی اصل الصوت کالصدا وھو لھما کالخیال من عالم المثال وبنی علیہ جواز ان تسمع منہ اصوات الالات اذ ماھی ھی ومایتعدی حکم الاصل الی الحکایۃ کما قال ابن حجر المکی وغیرہ فی رؤیۃ صورۃ عورۃ المرأۃ فی المراۃ وقد کنت کتبت فی ابطال ھذا الوھم عدۃ فی مکۃ المکرمۃ فی صفر ۱۳۲۴ھ حین عرض علی صاحبنا الفاضل الکامل النبیل النبیہ ذوقلب فقیہ و طبع وقاد وذھن نقادالشیخ محمد علی المکی المالکی امام المالکیۃ ومدرس المسجد الحرام ابن مفتیھم بھا مولینا العلامۃ المرحوم بکرم اﷲ تعالٰی الشیخ حسین الازھری المکی رسالۃ لہ فی ھذا الباب سماھا انوار الشروق فی احکام الصندوق'' وھو حفظہ اﷲ تعالٰی اجاد فی تحریم سماع الطرب المعتاد لاھل الفساد من فونو غرافیا وبینہ بیانا کافیا وذھب ایضا الی تحریم سماع القراٰن العظیم مطلقا منہ وسنحقق الامر فیہ کما ستری ان شاء اﷲ تعالٰی۔
جیساکہ بعض فضلائے زمانہ کو وہم ہوگیا (اور مغالطہ لگ گیا) اور وہ علامہ سید محمد عبدالقادر اہدل شافعی ہیں جوآجکل حدیدہ میں رہائش پذیر ہیں انھوں نے اس موضوع پر ایک رسالہ تصنیف فرمایا کہ انھوں نےاس کا نام القول الواضح فی ردالخطاء الفاضح (یعنی بالکل واضح اور ظاہر بات رسوا کرنیوالی خطا کے بیان میں) رکھا پس انھوں نے اس میں یہ خیال کیا کہ جو کچھ اس صندوق سے سنائی دیتا ہے وہ اصل آواز اور اس کے مساوی نہیں بلکہ وہ اصل آواز کی شبیہ ہے۔ جیسے آواز بازگشت اور اس کی گونج، جیسے خیال عالم مثال سے، اور اس پر یہ بنیاد رکھی کہ آلات سے آوازیں سننی جائز ہیں، کیونکہ وہ آوازیں اصل اور حقیقی آوازیں نہیں اور حکم اصل حکایت کی طرف متجاوز نہیں ہوتا، جیسا کہ علامہ ابن حجر وغیرہ نے ارشاد فرمایا جیسا کہ آئینہ میں جائے ستر کی صورت کا دیکھنا، اور میں نے اس وہم کو باطل قراردینے پر چند اوراق مکہ مکرمہ کی اقامت کے زمانے ماہ صفر ۱۳۲۴ھ میں تحریر کئے جب میرے سامنے ہمارے دوست (ساتھی) کامل، فاضل، شریف، سمجھدار، فقیہ دل رکھنے والے بھڑ کیلی طبیعت اور ناقد ذہن رکھنے والے، شیخ محمد علی مکی مالکی (امام مالک کے پیرو کار) جو کہ مذہب امام مالک رکھنے والوں کے امام اور مسجد حرام میں مدرس اوروہاں ان کے مفتی کے صاحبزادے ہیں اور وہ مولانا علامہ اللہ تعالٰی کے کرم سے ان پر رحم کیا جائے، شیخ حسین ازہری مکی ہیں، اس باب میں اپنا ایک رسالہ بنام انوار الشروق فی احکام الصندوق (یعنی چمکیلے انوار، صندوق کے احکام شرعی کے بیان میں) انھوں نے مجھے پیش کیا اللہ تعالٰی ان کی حفاظت فرمائے کہ انھوں نے اہل فسا د کے لئے فونو گراف سے راگ سننے کی حرمت بیان کرنے میں کمال کردیا (بہت اچھا رول ادا کیا) اور کافی بیان فرمایا اور اس طرف بھی گئے ہیں کہ اس سے مطلقا قرآن عظیم سننا حرام ہے ہم ان شاء اللہ تعالٰی عنقریب اس امر کی تحقیق پیش کریں گے جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے۔ (ت)