Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
90 - 190
مسئلہ ۱۷۱ :  ازریاست کوٹہ راجپوتانہ محلہ حیدر گڑھ مسئولہ فضل احمد امام جامع مسجد     ۱۶ محرم ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ صحن مسجد داخل مسجد ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : صحن مسجد مسجد ہے، فقہا اسے مسجد صیفی کہتے ہیں اور حد مسقف کو مسجد شتوی، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۷۲ : از بمبئی ۸ مدنپورہ صفی آبادی بردکان جہانگیر مرچ مصالحہ والے مسئولہ عبدالستار صاحب یکم صفر ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ م ین کہ زید کہتاہے کہ تعویز کا یا آیات قرآن نقش جداول میں لکھنا خلاف شرع اور ناجائز ہے۔ عمرو کہتاہے کہ نہیں، عدد میں خلاف شرع تو نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ حرفوں لکھنا فضیلت رکھتا ہے۔ دونوں میں سے کسی کا قول مطابق شریعت ہے۔ بینوا توجروا
الجواب : آیات کریمہ واسمائے طیبہ کی برکات سے استفادہ کے دنوں طریقے ہیں جن میں عبارت و الفاظ لکھے جائیں وہ جزر کہلاتے ہیں اور زبان تکسیر میں مظہر اور اعداد والے وفق ومضمر ، علم اوفاق امام حجۃ الاسلام غزالی وامام فخر الدین رازی وشیخ اکبر محی الدین ابن عربی وغیرہم اجلہ اکابر سے ہے اس میں عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں بلکہ محل احراق ونحوہ میں وہی انسب ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۷۳ :  سید عرفان علی صاحب رکن انجمن خادم الساجدین ربڑی ٹولہ بریلی    ۴ صفر ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں :
من یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھاو من یشفع شفاعۃ سیئۃ یکن لہ کفل منھا وکان اﷲ علی کل شیئ مقیتا ۱؎۔
جو کوئی اچھی سفارش کرے تو اس کے لےلئے اس میں حصہ ہے اور جو کوئی بری سفارش کرے تو اس کے لئے اس میں بھی حصہ ہے اور اللہ تعالٰی ہر چیز پر پوری طاقت رکھنے والا ہے۔ (ت)
 (۱؎ القرآن الکریم        ۴ /۸۵)
اس آیت شریف کا کیا مطلب ہے اورشفاعت حسنہ اورسیئہ سے کیا مراد ہے؟
الجواب : نیک بات میں کسی کی سفار ش کرنا مثلا سفارش کرکے مظلوم کو اس کا حق دلادینا یا کسی مسلمان کو ایذا سے بچلا لینا یا کسی محتاج کی مدد کرادینا شفاعت حسنہ ہے ایسی شفاعت کرنے والا اجر پائیگا اگر چہ اس کی شفاعت کارگر نہ ہو، اور بری بات کے لئے سفارش کرکے کوئی گناہ کرادینا شفاعت سیئہ ہے اس کے فاعل پر اس کا وبال ہے اگر چہ نہ مانی جائے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۷۴: از شہر محلہ سوداگران مسئولہ شمس الدین طالب عالم مدرسہ منظر الاسلام ۱۲ صفر ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں حضور پر نور اعلحضرت مجدد مائۃ حاضرہ مؤید ملۃ طاہرہ قبلہ مدظلہ العالی کہ مسجد میں امام کو دبوانا کیسا ہے؟ بینوا توجروا
الجواب : کوئی حرج نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۷۵ ۱تا ۱۷۹ :  از موضع ہرن پاور ضلع بریلی تحصیل نواب گنج     مسئولہ فقیر بخش

(۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حضرت پیران پیر دستگیر غوث اعظم کی گیارھویں شریف میں تعظیم کو اٹھنا جائز ہے یا نہیں؟

(۲) محرم میں ماتم یا نوحہ کرنا جائز ہے یانہیں؟

(۳) رافضیہ کی مجلس میں جانا جائز ہے یانہیں؟

(۴) اولیائے کرام کے کسی مزار پر شیرینی لے جانا جائز ہے یانہیں؟

(۵) جو کوئی کسی نیک کام کو جاتا ہے اور اس کو کوئی روکے ترو اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
الجواب

(۱) گیارھویں شریف میں قیام سے کوئی ممانعت شرعیہ نہیں مگر یہ تعظیم عرف مسلمین میں ذکر اقدس حضور سید علام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے خاص ہورہی ہے اس تخصیص کا لحاظ چاہئے۔

(۲) ماتم ونوحہ محرم ہو یا غیر محرم مطلقا حرام ہے۔   (۳) رافضیوں کی مجلس میں جانا سخت حرام ہے۔

(۴) شرینی اگر ایصال وثواب کے لئے ہو اور وہاں مساکین پر تقسیم کی جائے تو حرج نہیں۔

(۵) اگر وہ کام واقعی نیک ہے اور یہ کسی وجہ شرعی سے اسے نہیں روکتا تو مناع للخیر ہے اور مناع للخیر ہونا شیطانی کام ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۸۰ : از بنارس محلہ انبیالی منڈی مسئولہ محمد عمر صاحب سنی حنفی قادری رضوی ۴ رجب ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ منجانب خلافت کمیٹی ایک روپیہ کا نوٹ شائع ہوا ہے جس میں قرآن پاک کی پوری ایک آیت لکھی پس مسلمان یا ہنود کے ہاتھ فروخت کرنا کیسا ہے کیا مسلمان اس کو ہر حالت پاکی وناپاکی میں لے سکتا ہے یا نہیں اور اس کے فروخت کرنے والے پر کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا
الجواب: اس پرچہ پر کہ ہر کس وناکس ہر پاک وناپاک ہر کافر ومشرک ہر بھنگی چمار کے ہاتھ میں جانے کے لئے وضع کیا گیاہے قرآن کریم کی آیت لکھنا اسے بے ادبی کے لئے پیش کیا ہےت بے وضو اس کا چھونا جائز نہیں اگر آیہ کریمہ کے سوا انس میں اور کتابت نہ ہوا اور اگر اور کفایت زائد ہے تو آیہ کریمہ جس جگہ لکھی ہے اس پر بے وضو ہاتھ لگنا حرام ہے اور خواہ اسی رخ ہو جدھر آیت لکھی ہے یا دوسرے رخ ہر طرف ناجائز ہے اور اسے کافر کے ہاتھ فروخت نہ کریں اور اس کا بیچنا بے ابی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۸۱ تا ۱۸۲ : از ریاست کوٹہ راجپوتانہ متصل گھنٹہ گھر مسجد مدار کا چلہ مسئولہ حافظ جان محمد امام مسجد مذکورہ ۲۹ رمضان ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس ومفتیان شرع متین مسائل ذیل میں جواب مع حوالہ کتب اہلسنت سے مرحمت فرمایا جائے :

(۱) بعد نماز جمعہ کوئی عالم یا میلاد خوان منبر پر بیٹھ کر میلاد شریف پڑھے تو جائز ہے یا نہیں؟ اور عام طو ر پر بھی منبر پر بیٹھ کر میلاد شریف پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ کیا منبر محض وعظ وخطبہ ہی کے لئے ہے؟ اگر چند مسلمان زید کو بعد نماز جمعہ مسجد میں منبر پر میلاد شریف پڑھنے کے لئے بٹھائیں اور چند لوگ کہیں کہ اگر تم میلاد شریف پڑھنا ہے تو منبر پر مت بیٹھو بلکہ تخت پر بیٹھو ہم منبر پر نہیں پڑھنے دیں گے اور نہیں پڑھنے دیا۔ ایسے لوگوں کے لئے کا حکم ہے؟

(۲) زیدنے محض فقہ کی تین کتابیں پڑھی ہیں، اردو بولنے اور صحیح املا لکھنے کی لیاقت نہیں ہے۔ اور صرف ونحو سے بالکل ناواقف ہے حتی کہ میزان الصرف نہیں جانتا بلکہ صرف ونحو کے پڑھنے کو حرام اور اس کے پڑھنے والے کو اچھا نہیں جانتا اور فارسی بھی نہیں جانتا، ایسے شخص کو منبر پر بیٹھ کر وعظ کہنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر منبر پر بیٹھ جائے تو اس کو مسلمان منبر سے اتار سکتے ہیں یا نہیں ؟ از روئے شرع کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا
الجواب

(۱) میلاد شریف منبر پر پڑھنا بلا شبہہ جائز ہے اور یہ فرق کہ میلاد شریف تخت پر ہو منبر پر صرف خطبہ ووعظ محض نادانی ہے۔ میلاد شیرف ذکر نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہے اور ذکر نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عین ذکر الٰہی ہے۔ حدیث میں ہے۔ رب عزوجل نے فرمایا :
جعلتک ذکرا من ذکری فمن ذکرک فقد ذکرنی ۱؎۔
اے محبوب! میں نے اپنے ذکر سے تمھیں ایک ذکر بنایا تو جس نے تمھارا ذکر کیا اس نے بیشک میرا ذکر کیا۔
 (۱؎الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی     الباب الاول المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیۃ        ص۱۵)
تو میلاد شریف خطبہ ووعظ بھی ہے اور خطبہ ووعظ بھی ذکر نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے خالی نہیں ہوسکتے تو سب شے واحد ہیں ور خود صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مسجد مدینہ طیبہ میں حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے واسطے منبر بچھاتے اور وہ اس پر قیام کرکے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نعت اور مشرکین کا رد سناتے ۲؎۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۲؎ سنن ابی داؤد     کتاب الادب   باب ماجاء فی الشعر     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۳۲۸)

(احیاء العلوم بحوالہ صحیحین    کتاب آداب السماع       مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ        ۲ /۲۷۴)
 (۲) منبر مسند نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہے۔ جاہل اردو خوان اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالم کی تصنیف پڑھ کر سنائے تو اس میں حرج نہیں جبکہ وہ جاہل فاسق مثلا داڑھی منڈا وغیرہ نہ ہوکہ اس وقت وہ جاہل سفیر محض ہے اور حقیقۃ وعظ اس عالم کا جس کی کتاب پڑھی جائے اور اگر ایسا نہیں بلکہ جاہل خود بیان کرنے بیٹھے تو اسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا حرام ہے۔ اور مسلمانوں کو حق ہے بلکہ مسلمانوں پر حق ہے کہ اسے منبر سے اتاردیں کہ اس میں نہی منکر ہے اور نہی منکر واجب ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter