مسئلہ ۳۳: از بنگالہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک موضع میں ایک شخص نے کمال جدودجہد سے ایک مدرسہ اس طور پر قائم کیا کہ از راہ تسہیل امر اطراف کے لوگوں سے استدعا کی کہ جَے مرتبہ گھروں میں کھانا روزانہ پکایا جایا کرے وَے مرتبہ ایک مٹھی ہر اجناس سے یعنی چاول وغیرہ علیحدہ ذخیرہ کردیا کریں اور ختم ماہ پر مدرسہ کے مصارف میں دے دیا کریں، اسی طرح مدت سے یہ مدرسہ جاری ہے اب یہ اعتراض پیدا ہوا ہے کہ یہ طریقہ ناجائزہے بلکہ غیر اللہ یا شرک یا بدعۃ کے مشابہ ہے۔ پس دینے والوں اور تائیدکرنے والوں کو گنہگار بتاتے ہیں آیا عمل مذکورہ شرعا جائز ہے یانہیں؟ اگر جائز ہے تو دہندہ اور تائید کنندہ اس عمل کا مستحق عذاب ہوگا یا ثواب؟ اگر مستحق عذاب ہوتو اس امر نیک کے باز رکھنے والے اور کارخیر کے روکنے والے پر حسب شرع شریف کیا حکم ہے؟ کیا وہ صورت مذکورہ مشابہ غیر اللہ یا شرک یا بدعت کے ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر بدعۃ ہو تو کسی قسم کی بدعۃ ہے؟ بادلائل قرآن اور احادیث اور اقوال علماء اور ائمہ مجتہدین مستنبطین کے بیان فرمایا جائے۔ بینوا توجروا عنداللہ (بیان فرماؤ تاکہ تم اللہ تعالٰی کے ہاں اجر وثواب کے مستحق بن جاؤ۔ ت)
الجواب : صورت مذکورہ بلا شبہہ جائز مستحب ومندوب ہے۔ اور اس طرح اعانت مدرسہ کرنے والے اور جولوگ اس اعانت پرمؤید ہوئے سب کے لئے اجر جزیل وثواب جمیل ہے جبکہ وہ مدرستہ مدرسہ دینیہ اور دینے والوں تائید کرنے والے کی نیت محمودہ ہو اسے بدعت کہنا گناہ بتانا سخت جہالت بلکہ امر محمود شرعی کی تحریم ومذمت ہے اور اسے
ما اھل بہ لغیر اﷲ ۱؎
(اللہ تعالٰی نے تم پر حرام کردیا) وہ جانور جسے ذبح کرتے ہوئے اس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا۔ ت) سمجھنا جسے جاہلان بے خبر صرف لغیر اللہ کہا کرتے نرا جنون ہے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۷۳)
جب علم دین کی اعانت وتائید معاذاللہ غیر اﷲ کے لئے ٹھہرے تو وہ کون سی چیز ہے جو اللہ کے لئے ہوگی، ایسے جہال سے پوچھا جائے کہ عبادت تو اللہ کے لئے ہے یا اسے بھی غیر اللہ کے لئے جانتے ہو۔ جب وہ اللہ کے لئے ہے تو علم دین تو اس سے بھی بہتر و افضل ہے وہ کیونکر غیراللہ کے لئے ہوسکتا ہے۔
متعدد حدیثوں میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
العلم افضل من العبادۃ رواہ الخطیب ۱؎ وابن عبداﷲ فی کتاب العلم عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
علم عبادت سے افضل ہے (اس کو خطیب نے روایت کیا اور ابن عبداللہ نے کتاب العلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس کی روایت کی۔ ت)
(۱؎ تاریخ بغداد للخطیب ترجمہ ۲۳۳۸ احمد بن محمد ابن الخفاف دارالکتب العربیہ بیروت ۴/ ۴۳۶)
(جامع بیان العلم وفضلہ باب تفضیل العلم من العبادۃ دارالفکر بیروت ۱/ ۲۷)
العلم خیر من العبادۃ ۲؎ ابوعمر فیہ عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
علم عبادت سے بہتر ہے۔ (ابوعمر نے اس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالہ سے ذکرکیا ہے۔ت)
(۲؎جامع بیان العلم وفضلہ باب تفضیل العلم من العبادۃ دارالفکر بیروت ۱/ ۲۷)
العلم افضل من العمل البیھقی ۳؎ فی الشعب عن البعض الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔
علم عمل سے افضل ہے (امام بیہقی نے شعب الایمان میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے اسے روایت کیا۔ ت)
(۳؎ شعب الایمان حدیث ۳۸۸۷ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳/ ۴۰۳)
العلم خیر من العمل ۴؎ ابوالشیخ عن عبادۃ الصامت رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
علم عمل سے بہتر ہے (ابوالشیخ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اسے روایت کیا ہے۔ ت)
(۴ کنز العمال بحوالہ ابی الشیخ عن عبادہ بن صامت مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰/۱۸۲)
وفی الباب احادیث یعسرا حصاؤھا
(اس باب میں احادیث کا شمار مشکل ہے۔ ت) امور خیر کے لئے مسلمانوں سے اس طرح چندہ کرنا بدعت نہیں بلکہ سنت ہے ثابت ہے جو لوگ اس سے روکتے ہیں
مناع للخیر معتد اثیم ۵؎
(بھلائی اور امور خیر سے روکنے والا حد سے بڑھنے والا اور گنہگا رہے۔ ت) میں داخل ہوتے ہیں۔
(۵؎ القرآن الکریم ۶۸/ ۱۲)
صحیحین میں جریر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کچھ برہنہ پا برہنہ بدن صرف ایک کملی کفنی کی طرح چیر کر گلے میں ڈالے خدمت اقدس حضور پر نور سید عالم صلی اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوئے حضور پر نور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی محتاجی دیکھی چہرہ انور کا رنگ بدل گیا۔ بلا ل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اذان کاحکم بعد نماز خطبہ فرمایا بعد تلاوت آیات ارشاد کیا :
تصدق رجل من دینارہ من درهمه من ثوبہ من صاع برہ من صاع تمرۃ حتی قال ولوبشق تمرۃ۔
کوئی شخص اپنی اشرفی سے صدقہ کرے کوئی روپے سے کوئی کپڑے سے، کوئی اپنے قلیل گیہوں سے کوئی اپنے تھوڑے چھوہاروں سے، یہاں تک فرمایا : اگر چہ آدھا چھوہارا۔
اس ارشاد کو سن کر ایک انصارٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ روپوں کو تھیلا اٹھالائے جس کے اٹھانے میں ان کے ہاتھ تک گئے پھر لوگ پے د ر پے صدقات لانے لگے یہاں تک کہ دو انبار کھانے اور کپڑے کے ہوگئے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا چہرہ انور خوشی کے باعث کندن کی طرح دمکنے لگا اور ارشاد فرمایا:
من سن لی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بھا بعدہ من غیر ان ینقص من جورھم شیئ ۱؎۔
جو شخص اسلام میں کوئی اچھی راہ نکالے اس کے لئے اس کا ثواب ہے اور اس کے بعدجتنے لوگ اس راہ پر عمل کریں گے سب کا ثواب اس کے لئے ہے بغیر اس کے کہ ان کے ثوابوں میں کچھ کمی ہو۔
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ باب الخف علی الصدقۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۲۷)
(سنن النسائی کتاب الزکوٰۃ باب التحریض علی الصدقۃ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱/ ۵۶۔۳۵۵)
غزوہ تبوک وغیرہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مسلمانوں کو حکم صدقات دینا اور ہر ایک کا کثیر وقلیل حسب مقدرت حاضر لانا منافقین کا تھوڑالانے والوں پر اعتراض کرنا کہ اللہ تعالٰی اس کے صدقہ سے غنی ہے زیادہ لانے والوں پر اعتراض کرنا کہ یہ ریاء کے لئے ہے اور اس پر آیہ کریمہ :
ان الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین فی الصدقات والذین لایجدون الاجھدھم ۱؎۔
بے شک جو لوگ ان ایمانداروں پر جو اپنے دل کے شوق اور خوشی سے خیرات کرتے ہیں الزام لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نشانہ طعن بنانے ہیں جو اپنی محنت وکوشش سے جو کچھ حاصل کرپاتے ہیں راہ خدا میں خرچ کردیتے ہیں۔ (ت)
کانازل ہونا، ایک بار یوہیں صدقات کا چندہ ہونا اس کا انبار ہوجانا، ایک صحابی کا صرف ایک خوشہ لانا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اسے سب سے اوپر رکھنا وغیرہ وغیرہ وقائع کثیرہ صحاح وغیرہا کتب احادیث میں مذکور ومشہور ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔