مسئلہ ۱۶۴و۱۶۵: از شہر بریلی محلہ جامع مسجد مسئولہ عبدالرحمن صاحب ۱۱ صفر ۱۳۳۸ھ
(۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بزرگان دین کے مزاروں پر کسی اپنے مدعا کے حصول کے لئے بحکم خداوند کریم کا چڑھانا یا کسی پارچے یا پھول کا معہ نعت خوانی مزار موصوف یا اثناء راہ یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں؟
(۲) چادر پھول میں سے لڑ توڑ کر بنا کر اس وقت میلا د شریف پڑھنے والوں کے گلے میں ڈال دینا درست ہے یا نہیں؟
الجواب
(۱) جائز ہے جبکہ منکرات شرعیہ سے خالی ہو، واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲) جائز ہے جبکہ باذن مالک ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۶۶: از فیض آباد مرسلہ محمد خلیل ۲۱ ربیع الاول شریف ۱۳۳۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چند قرآن بوسیدہ اور تمام اوراق ان کے پھٹ پھٹ کر علیحدہ ہوگئے ہیں اس حالت میں وہ اوراق ادھر اُدھر زمین پرپائے جاتے ہیں اس طرح نہایت ہی خرابی ہے اور گناہ بھی بیحدہوتا ہے تو کیا ان کو جلا کر کسی جاری پانی میں ڈالا جائے یا بے جلائے کسی کپڑے میں مع پتھر کے باندھ کر کنویں میں ڈالا جائے۔ بینوا توجروا (بیان فرمائیے ثواب پائیے۔ ت)
الجواب :اسے مثل دفن کریں یعنی ان اوراق کو جمع کرکے پاک کپڑے میں لپیٹیں اور ایسی جگہ جہاں پاؤں نہ پڑتا ہوں عمیق بغلی قبر اس کے لائق کھود کر اس میں سپرد کردیں۔ درمختا رمیں ہے :
المصحف اذا صار بحال لایقرأ فیہ یدفن کالمسلم ۱؎۔
مصحف شریف کی جب ایسی حالت ہوجائے کہ اسے پڑھا نہ جاسکے تو پھر اسے مسلمان کی طرح (احترام سے) دفن کردے۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۳)
ردالمحتار میں ہے :
ای یجعل فی خرقۃ طاھرۃ یدفن فی محل غیر ممتھن لایؤطأ وفی الذخیرۃ وینبغی ان یلحد لہ ولا یشق لہ لانہ یحتاج الی اھالۃ التراب علیہ وفی ذٰلک نوع تحقیر الا اذا جعل فوقہ سقفا بحیث لایصل الیہ فھو حسن ایضا ۲؎ اھ اقول الشق قد ینھدم فاللحد اولٰی۔
یعنی اس صورت میں اسے کسی صورت میں پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی ایسی جگہ دفن کیا جائے جہاں نہ تو اس کی توہین ہو اور نہ لوگوں کے پاؤں سے پامال ہو، اور ذخیرہ میں ہے مناسب یہ ہے کہ اس کے لئے ''لحد'' (یعنی بغلی قبر) بنائی جائے لیکن ''شق'' (سیدھی) نہ ہو کیونکہ اس صورت میں اس پر یعنی اس کے اوپر مٹی ڈالنے کی ضرورت میں اس پر یعنی اس کے اوپر مٹی ڈالنے کی ضرورت پیش آئے گی کہ جس میں ایک قسم تحقیر ہے۔ ہاں اگر اس قبر پر چھت بنائی جائے کہ اس تک مٹی نہ پہنچے تو پھر یہ بھی ایک اچھی صورت ہے اھ میں کہتاہوں شق (سیدھی قبر) کبھی گرجاتی ہے لہذا بغلی قبر ہی زیادہ بہتر ہے۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۹)
ہاں جہاں زمین ایسی نرم وکمزور ہو کہ بغلی کے دھنس جائے اندیشہ ہو تو اڑانے تختے مضبوط لگا کر قبر بنائیں اور اگر اوراق تھوڑے ہوں تو یہ سب سے اولٰی یہ کہ ایک ایک یا زیادہ کا تعویذ بنا کر اطفال مسلمین کو تقسیم کردیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئہ ۱۶۷ : از گونڈل کاٹھیا واڑ مرسلہ قاضی قاسم میاں صاحب ۲۶ ربیع الآخر شریف ۱۳۳۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کانچ کی ایک سطح پر آیات واذکار تیزاب وسپیدی سے الٹے لکھے جاتے ہیں جودوسری طرف سیدھے دکھائی دیتے ہیں ایسے ایسے تختے ونیز کاغذ میں لکھے ہوئے آیات واذکار کانچ میں مڑھاکر مکان میں برکت وآرائش کے لئے رکھتے ہیں ایسے مکان میں جماع کرنا بے ادبی ہے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرمائے اجر پائیے۔ ت)
الجواب : جہاں قرآن کریم کی کوئی آیت کریمہ لکھی ہو کاغذ یا کسی شے پر اگر چہ اوپر شیشہ ہو جو اسے حاجت نہ ہو جب تک اس پر خلاف نہ ڈال لیں وہاں جماع یا برہنگی بے ادبی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۶۸ : از بریلی لال کورتی بازار مرسلہ نیاز احمد اینڈ سنس ۴ رجب المرجب
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،، ہمارے پاس ہمیشہ ذیل کے مضمون کے کارڈ آتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم صراط ، انعمت۔ اس کے علاوہ اور مضمون کے بھی دیتے ہیں اور لکھا ہوتاہے؟ یا۱۱ مرتبہ لکھ کر مختلف لوگوں کو تقسیم کرو ورنہ نقصان ہوگا۔ مہربانی فرماکر تحریر فرمائیں کہ کیا کرنا چاہئے؟ والسلام
الجواب : یہ محض بے اصل بات ہے اس پر عمل نہ کیجئے ناحق تضیع مال ہے اور وہ دھکمی غلط باطل ہے، ان کارڈوں پر خدا ترس لوگ آیات کریمہ لکھتے ہیں کہ ان کی نو نقلیں کرکے بھیجو حالانکہ وہ بے وضو بلکہ جنب کو کفار کے ہاتھ میں آتی ہیں اور زمین پر رکھ کر ان پر ڈاک کہ مہریں لگائی جاتی ہے۔ قرآن عظیم کی اس بے ادبی کا وبال ان لکھنے والوں پر ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۶۹ : از مؤ پور میواڑ راجپوتانہ مہارانا سکول مرسلہ مولوی وزیر احمد صاحب مدرس ۱۲ رمضان ۱۳۳۸ھ
قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے عالم یا والدین یا دینی مہتمم مدرسہ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا جائز ہے یا نہیں؟ تعظیم کرنا چاہئے یا نہیں؟
الجواب : قرآن عظیم کی تلاوت میں سلطان اسلام اور عالم دین اور استاد علم دین اور والدین کی تعظیم کرسکتا ہے وبس۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۷۰ : از مقام آصف آباد ڈاک خانہ بلہار پور ضلع چاند ملک متوسط مرسلہ عبداللہ الرحمن صاحب ۱۶رمضان المبارک ۱۳۳۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حمد ونعت میں آداب مقام طہارت کابخیال حرمت رسول اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہاں تک لحاظ کیا جانالازم ہے ہے کہ حمد ونعت تماشاگاہوں، شادی کی مجلسوں اور دعوت کے ایسے جلسوں میں جس میں لوگ انگریزی وضع کے موافق آداب اسلام کے برعکس کرسیوں پر تبختر سے بیٹھے ہوں اور ارباب نشاط جمع ہوں پڑھنا جائز ہے یانہیں؟اگر کوئی شخص اس موقع پر جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ادائے حمد ونعت سے بخیال ادب وحرمت تامل پذیر ہو اور انکار کرے توگناہ تو لازم نہ آئے گا ایسے جلسوں میں آداب ورواج اسلام کے خلاف جوتا پہنے ہوئے میز کے پاس کھڑے ہو کر جبکہ سامعین کرسیوں پر نشست رکھتے ہوں اور قاری زمین پر کھڑا ہو حمد ونعت کے متبرک الفاظ بآواز بلند پڑھنا جائز ہوگا اوراگر کوئی شخص جائز نہ سمجھ کر ایسے موقع پر تامل کرے تو کوئی حرج تو نہیں؟
الجواب
ادب واجلال جہاں تک ممکن ہو بہترہے فتح القدیر میں ہے :
کل ماکان فی الادب والاجلال کان حسنا ۱؎۔
ہر وہ کام جو ادب واحترام میں داخل ہو وہ اچھا ہے۔ (ت)
(۱؎ فتح القدیر کتاب الحج مسائل منثورہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۳ /۹۴)
تماشا گاہوں میں جہاں لوگ لہو ولعب میں مشغول ہوں اور ذکر شریف نہ سنیں گے نعت شریف بآواز بلند پڑھنا ممنوع ہے جس طرح ایسی جگہ قرآن عظیم پڑھنا حرام ہے شادی ودعوت کے جلسوں میں حالت دیکھی جائے اگر حاضرین سب اسی بے ہود طرز کے ہیں کہ التفات نہ کریں گے تو وہاں بھی پڑھنا منع اور تامل و انکار کرنے والا کہ بہ نیت ادب وحرمت انکار کرے گا ثواب پائے گا اور اگر وہاں وہ لوگ ہیں کہ متوجہ ہوکر ذکر شریف سنیں گے اگر چہ بعض انگریزی بیہودہ فیشن کے متکبر ومتبختر بھی ہوں تو ممانعت نہیں اور ایسی جگہ تاویل وانکار بیجا ہے گناہ گار اب بھی نہ ہوگا جبکہ اسی کی نیت ادب واحترام ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔