Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
88 - 190
مسئلہ ۱۶۰ :  از میرٹھ مرسلہ مولوی حبیب اللہ صاحب قادری رضوی خطیب جامع مسجد خیر نگر مدرس مدرسہ قومیہ

اوراد و وظائف مقررہ کو اتفاقیہ بلاوضو پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر ناغہ ہوں تو دوسرے وقت قضاء ہوسکتے ہیں یا نہیں اور پڑھتے میں اگر کوئی شخص سلام کرے یاہم کلام ہو تو اس کا جواب دیا جائے یا نہیں؟
الجواب : وظائف جو احادیث میں ارشاد ہوئے یا مشائخ کرام نے بطور ذکر الٰہی بتائے انھیں بلا وضو بھی پڑھ سکتے ہیں اور باوضو بہتر، ان میں حسب حاجت بات بھی کرسکتاہے یعنی نیک بات مگر وہ وظیفہ جس میں عدم کلام کی شرط فرمادی ہے جیسے صبح و عصر کی نماز کے بعد بغیر پاؤں بدلے بغیر بات کئے دس بار " لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد بیدک الخیر یحی ویمیت وھو علی کلی شیئ قدیر پڑھنا " اس میں بات نہ کی جائے۔ اور ذاکر پر سلام کرنا مطلقا منع ہے اور اگر کوئی کرے تو ذاکر کواختیار ہے کہ جواب دے یا نہ دے۔ ہاں اگر کسی کے سلام یا جائز کلام کا جواب نہ دینا اس کی دل شکنی کا موجب ہو تو جواب دے کہ مسلمان کی دلدادی وظیفہ میں بات نہ کرنے سے اہم واعظم ہے۔ یہ وظائف اگر وقت خاص سے مختص ہیں اور وہ وقت نکل گیا تو ان کی قضا نہیں ورنہ دوسرے وقت پڑھ لئے جائیں کہ ثواب ملے اور عادت نہ چھوٹے، یہ احکام وظائف واذکار کے تھے رہے اعمال کہ ارباب عزائم مقرر کرتے ہیں ان کی زکوٰۃ میں تو روزانہ غسل شرط ہے وہ بھی غسل پاک یعنی بحالت طہارت نہانا، یہاں تک کہ اگر نہانے کی حاجت ہوجائے تو غسل جنابت کرکے دوبارہ پھر نہائے اور ان کی ورد میں کہ عم بجا رہنے کے لئے مقررکیا جاتاہے وضوشر ط ہے بلاوضو نہیں پڑھ سکتا نہ ان کی زکوٰۃ یا ورد میں ہر گز بات کرسکتا ہے مگر جو بات شرعا فی الحال فرض ہو اس کے لئے بمجبوری قطع قراءت لازم، مثل یہ عمل پڑھ رہا ہے اور ماں باپ نے آواز دی جواب دینا فرض ہے۔ یا کسی کافر نہ کے کہا مجھے مسلمان کرلے قطع عمل فرض ہے یہاں تک کہ جو مسلمان ہونا مانگے اس کے لئے تو فرض نماز کی نیت فورا توڑ دینی واجب ہے یا کوئی مسلمان کنویں میں گرا جاتاہے کسی لکڑی یا اینٹ سے رکا ہوا ہے اگر دیر کی جائے گی گر پڑے گا اور وہ آواز دے یا یہ دیکھے اور بچانا اس پر متعین ہو تو فرض ہے کہ عمل بلکہ فرض نماز قطع کرے اور اسے بچائے وقس علیہ مگر ان سب صورتوں میں جتنا پڑھ لیا تھا محسوب نہ ہوگا بلکہ از سر نو پڑھے اعمال میں قضا بھی نہیں اگر وسط زکوٰۃ میں کئی دن ناغہ ہوگیا تو زکوٰۃ نہ ہوئی پھر ادا کرے اور کسی دن کا ورد ناغہ ہونے کو ہو تو اس کی نیت سے اس دن ایک بار سورۃ فاتحہ ایک بار آیۃ الکرسی پڑھ لے وہ ناغہ نہ گنا جائے گا نہ اس کی قضا ہوگی اور اگر یہ بھی نہ کیا تو عمل ہاتھ سے نکل جائے گا پھر زکوٰۃ دے غرض ارباب عزائم کے یہاں ہر طرح تشدد ہے اور اللہ ورسول کے یہاں تیسیر، وللہ الحمد جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۶۱ :  از بریلی عقب کوتوالی مسئولہ شاہ محمد خاں     ۲۴ رمضان المبارک ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سفر کے جانے کے کس قدر دن ہیں اور اگر کسی وجہ سے اس روز نہ جانا ہوسکے تو اپنا اسباب اور خود بیرون شہر کردینے سے سفر کا جانا مانا جائزے گا یا نہیں۔ اسباب باہر چھوڑا اور خود شہر میں چلا آیا تو یہ سفر کی صورت ٹھیک ہے یانہیں؟ ورنہ جیسا حکم ہو اس کا کاربند ہوجاؤں ، بینوا توجروا (بیان فرمائے اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : ہر سفر پر جانے کو دو شنبہ ، پنجشنبہ، شنبہ بہتر ہیں نہ ایسے کہ ان کی رعایت واجب ہو بلکہ حرج نہ ہو تو اولٰی ہے اور حرج ہو تو جس دن بھی ہو اللہ پر توکل کرے اور اسباب باہر چھوڑ کر خود شہر میں آجانا کسی طرح سفر کی حد میں نہیں آسکتا نہ ایسے ٹوٹکو کی حاجت، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۶۲ :  از شہر کہنہ بریلی مسئولہ سید گوھر علی حسین قائم مقام معتمد انجمن خادم المسلمین بریلی ۴ذیقعدہ ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اردو اخبار کی ردی بازاری دکانداروں کے ہاتھ فروخت کی جائے یا نہیں کیونکہ عموما اسلامی اخبارات وہندو اخبارات ودیگر صحائف میں اسلامی معاملات پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور آیات واحادیث واسمائے مقدسہ کا اندراج ہوتا ہے چونکہ فی الحال انجمن خادم المسلمین بریلی کے دارالمطالعہ میں انگریزی اور اردو اخبارات کی ردی موجود ہے لہذا ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ استفتاء حاصل کیا جائے۔
الجواب : جبکہ ان میں آیت یا حدیث یا اسمائے معظمہ یا مسائل فقہ ہوں تو جائز نہیں ورنہ حرج نہیں ان اوراق کو دیکھ کر اشیائے مذکورہ میں ان سے علیحدہ کرلیں پھر بیچ سکتے ہیں۔
عالمگیری میں ہے :
لایجوز لف شیئ فی کاغذ فیہ مکتوب من الفقہ وفی الکلام الاولی ان لایفعل وفی کتب الطب یجوز ولو کان فیہ اسم اﷲ تعالٰی او اسم النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یجوز محوہ لیلف فیہ شیئ ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کسی چیز کو کسی ایسے کاغذ میں لپیٹنا کہ جس میں علم فقہ کے مسائل لکھے ہوں جائز نہیں، اور کلام میں بہتر یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے البتہ علم طب کی کتابوں میں ایسا کرنا جائز ہے یا اگر اس میں اللہ تعالٰی کا مقدس نام یا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا اسم گرامی تحریر ہو تو اسے مٹادینا جائز ہے تاکہ اس میں کوئی چیز لپیٹی جاسکے۔ اور اللہ تعالٰی سب کچھ بخوبی جانتاہے۔ (ت)
(۱؎فتاوٰی ہندیہ  کتاب الکراھیۃ  الباب الخامس  نورانی کتب خانہ پشاور  ۵ /۳۲۲)
 مسلہ ١٦٣ : از شہر محلہ ذخیر ہ مسؤلہ شیخ علی صاحب فاروقی ١٢ ذوالحجہ ١٣٣٧ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں، مسجد کے اندر سوال کرنا اپنے یا غیر کے واسطے اور سائل کو دینااس کے یا غیر کے واسطے جائز ہے یا نہیں

      الجواب : جو مسجد میں غل مچادیتے ہیں نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالتے ہیں لوگوں کی گردنیں پھلانکتے ہوئے صفوں میں پھرتے ہیں مطلقا حرام ہے اپنے لئے خواہ دوسرے کے لئے،
حدیث میں ہے :
جنبوا مساجد کم صبیانکم ومجانینکم ورفع اصواتکم رواہ ابن ماجۃ ۲؎ عن واثلۃ بن الاسقع وعبدالرزاق عن معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
مسجدوں کو بچوں اور پاگلوں اور بلند آواز سے بچاؤ (محدث ابن ماجہ نے حضرت واثلہ بن اسقع سے اور امام عبدالرزاق نے حضرت معاذ بن جبل سے اس کو روایت کیا ، اللہ تعالٰی ان دونوں سے راضی ہو۔ ت)
 (۲؎ المصنف لعبد الرزاق     باب انشادالضالۃ فی المسجد         حدیث ۱۷۲۶     المکتب الاسلامی بیروت    ۱ /۴۴۲)

(سنن ابن ماجہ کتاب المساجد باب مایکرہ فی المساجد         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۵۵)
حدیث میں ہے :
من تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ اتخذ جسرا الی جہنم، رواہ احمد والترمذی ۳؎ وابن ماجۃ عن معاذ بن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اس نے جہنم تک پہنچنے کا اپنے لئے پل بنالیا (امام احمد اور جامع ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت معاذبن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کو روایت کیا۔ ت)
 (۳؎ جامع الترمذی     کتاب الجمعۃ باب کراھیۃ التخطی یوم الجمعۃ     امین کمپنی دہلی        ۱ /۶۸)

(سنن ابن ماجہ         باب ماجاء فی النہی عن تخطی الناس یوم الجمعۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۷۹)
اور اگر یہ باتیں نہ ہوں جب بھی اپنے لئے مسجد میں بھیک مانگنا منع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من سمع رجلا ینشد فی المسجد ضالۃ فلیقل لا ردھا اﷲ الیک فان المساجد لم تبن لھذا رواہ احمد ومسلم ۱؎ وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جو کسی مسجد میں اپنی گمی چیز دریافت کرنے سنے اس سے کہے اللہ تجھے وہ چیز نہ ملائے مسجدیں اس لئے نہیں (امام احمد اور مسلم اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا ۔ ت)
 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب المساجد     باب النہی عن نشد الضالۃ الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۲۱۰)

(سنن ابن ماجہ     باب النہی عن انشادالضوال فی المسجد         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۵۶)

(مسند احمد بن حنبل     عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ     المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۳۴۹)
جب اتنی بات منع ہے تو بھیک مانگنی خصوصا اکثر بلا ضرورت بطور پیشہ کے خود ہی حرام ہے یہ کیونکر جائز ہوسکتی ہے ولہذا ائمہ دین نے فرمایا جو مسجد کے سائل کو ایک پیسہ دے وہ ستر۷۰ پیسے راہ خدا میں اور دے کہ اس پیسہ کے گناہ کا کفارہ ہوں اور دوسرے محتاج کے لئے امداد کو کہنا یا کسی دینی کام کے لئے چندہ کرنا جس میں نہ غل شور ہو نہ گردن پھلانگنا نہ کسی کی نماز میں خلل یہ بلا شبہہ جائز بلکہ سنت سے ثابت ہے۔ اور بے سوال کسی محتاج کو دینابہت خوب اور مولٰی علی کرم اللہ تعالی وجہہ سے ثابت ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter