Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
87 - 190
مسئلہ ۱۵۳ : ۲۱ ربیع الاول شریف ۱۳۳۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کے ایک جوان لڑکی ہے اور وہ مسجد بنواتاہے آیا اس پر مسجد بنوانا لازمہ یا لڑکی کا نکاح کرنا۔ فقط۔
الجواب

 مسجد بنانا خیر کثیر ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : من بنی اﷲ مسجدا بنی اﷲ لہ بیتا فی الجنۃ ۱؎۔ جو اللہ کے لئے مسجد بنائے اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے۔ خصوصا اگر وہاں مسجد کی حاجت ہو تو اس کے فضل کی حد ہی نہیں۔ نکاحوں میں کثرت مصارف شرعا کچھ ضرور نہیں یہ لوگوں نے اپنی رسمیں نکال لی ہیں، رسم کو آدمی جہاں ضروری جانےپورا کرتا ہی ہے مسجد بنانے سے نہ روکا جائے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ معجم الکبیر للطبرانی  حدیث ۳۲۷۳    مکتبۃ المعارف  الریاض    ۴ /۱۶۳)
مسئلہ ۱۵۴ : از میرٹھ مرسلہ مولوی محمد حبیب اللہ صاحب قادری رضوی خطیب جامع مسجد خیر نگر مدرس مدرسہ قومیہ

گم شدہ شے کے دریافت کرنے کے لئے یسین شریف سے نام نکالا جاتاہے یا کسی اور طرح چور کا پتا معلوم کرنے کے لئے یہ طریقہ ٹھیک ہے یانہیں؟
الجواب :  یہ طریقے نامحمود ومضر ہیں اور ان سے جس کا نام نکلے اسے چور سمجھ لینا حرام۔
قال اﷲ تعالٰی یا ایھاالذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۲؎۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا : اے ایمان والو!بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔ (ت)
 (۲؎ القرآن الکریم    ۴۹ /۱۲)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ایاکم والظن فان الظن اکذب  الحدیث ۳؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
گمان سے بچو کیونکہ گمان سے زیادہ جھوٹی بات ہے الحدیث ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۳؎ صحیح مسلم     کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظن والتجسس    ۲ /۳۱۶)
مسئلہ ۱۵۵ : از میرٹھ مرسلہ مولوی حبیب اللہ صاحب قادری رضوی خطیب مسجد جامع خیر نگر مدرس قومیہ 

فال کیا ہے ؟ جائز ہے یا نہیں؟ سعدی وحافظ وغیرہ کے فالنامے صحیح ہیں یا نہیں؟
الجواب : فال ایک قسم استخارہ ہے ، استخارہ کی اصل کتب احادیث میں بکثرت موجود ہے مگر یہ فالنامے جو عوام میں مشہوراوراکابر کی طرف منسوب ہیں بے اصل وباطل ہیں، اور قرآن عظیم سے فال کھولنا منع ہے۔ اور دیوان حافظ وغیرہ سے بطور تفاول جائزہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۵۶ :  از میرٹھ مرسلہ مولوی حبیب اللہ صاحب قادری رضوی خطیب جامع مسجد خیر نگر  مدرس مدرسہ قمویہ

انگریزی قلم رورشنائی سے تعویز لکھنا کچھ عیب ہے یا حرج ہے۔ اور ہندوستانی قلم وسیاہی کیا ضروری ہے؟
الجواب : ہاں تعویذات واعمال میں ایسی اشیاء سے احتراز ضرور ہے جس میں ناپاک چیز کا میل ہو اگر چہ بروجہ شہرت وشبہہ جیسے پڑیا کی رنگت اس سے تعویز نہ لکھا جائے بلکہ ہندوستانی سیاہی سے لکھا جائے رہا قلم وہ مثل سیاہی تعویز کا جز ونہیں ہوجاتا۔ لہذا اس میں کوئی حرج نہیں، ہاں ان کاموں میں انگریزی اشیاء سے احتراز مطلقا بہتر ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۵۷ :  از میرٹھ مرسلہ مولوی حبیب اللہ صاحب قادری رضوی خطیب جامع مسجد خیر نگر مدرس مدرسہ قومیہ غیر مذہب کو آیت قرآنی لکھ کر دینا بطور تعویز جائز ہے یانہیں؟ اگر نہیں تو کیا تدبیر کی جائے؟
الجواب : غیر مسلم کو آیات قرآنی لکھ کر دینا ہر گز نہ دی جائیں کہ اساءت ادب کا مظنہ ہے مطلقا اسماء الٰہیہ و ونقوش مطہرہ نہ دین کہ ان کی بھی تعظیم واجب، بلکہ دیں تو ان کے اعداد لکھ دیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۵۷: از میرٹھ مرسلہ مولوی حبیب اللہ قادری رضوی خطیب جامع مسجد خیر نگر مدرس مدرسہ قومیہ

اعمال میں ایام ووقت مثلا حب کے لئے عروج ماہ وقت عشاء بعض کے لئے نزول ماہ وقت ظہر فتوح و دست غیب کے ئے ثابت ماہ وقت صبح وغیرہ وغیرہ کچھ اصل رکھتی ہیں بعض اعمال میں زکوٰۃ وورد ہے اگر ناغہ ہو توعمل ہاتھ سے جاتا رہتا ہے بعض کو جلالی با  پرہیز اور بعض کو جمالی بے پرہیز بتایا جاتاہے بعض میں چکی اور کسی میں کتے کی آواز کی قید ہے۔ یہ سب کیسی باتیں ہیں؟
الجواب : اوقات عشاء وظہروصبح کی قید  ان اجناس میں مطلقہ میں نہیں ہاں عمل فتوح کے لئے ماہ ثابت اور حب کے لئے دو جسدیں اور تفریق کے لئے منقلب اور دواول کے لئے عروج قمر اور آخر کے لئے نزول قمر اور ہر زکوٰۃ کے لئے التزام ورد مقرر اور اسماء الٰیہ جمالیہ میں صرف ماکولات جلالی یعنی حیوان کا پرہیز کہ لحم وبیض وغسل و سمک کو شامل ہے اور اسماء الٰہیہ جلالیہ میں جلالی وجمالی  دونوں اعنی حیوان وما یخرج منہ (جانور اور جو کچھ اس سے برآمد ہو) کا پرہیز اور سوم کا التزام مع اعتکاف تام شرط ہے اور یہ از قبیل استخراج مشائخ بسبب مناسب جلیہ یاخفیہ ہے اور امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ماثور ہے کہ دعاء استسقا کے لئے فرماتے ہیں منزل قمر کا لحاظ کرلو، ہاں معازاللہ جوان ساعات کو واکب کومؤثر سمجھے اس کے لئے حرام ہے نیز ان اکابر ان قیود کا اکل وشرب وخلوت وبعد عن الخلق سے اصل مقصود اور ہے اکثر عوام آخرت کے لئے سعی نہیں کرتے اور دنیوی مطلوب کے لئے جان مصیبت میں ڈالنا آسان سمجھتے ہیں لہذا انھوں نے اسماء واذکار الٰہیہ مقاصد عوام کی تحصیل کو مقرر کئے اور یہ قیدیں لگائیں جس سے انھیں کم خوری وکم خوابی وگوشہ نشینی کی عادت پڑے اگر ذکر الٰہی کی برکت مقصود اصلی کی طرف کھینچ لے گئی تو عین مراد ہے ورنہ کم از کم یہ فائدہ نقد وقت ہے کہ کمی اختلاط خلق سے گناہ کم ہوں گے سخت دخشن کھانے اور روزوں کی کثرت سے شہوات نفسانیہ کمزور پڑینگے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۵۹: از میرٹھ مرسلہ مولوی حبیب اللہ صاحب قادری رضوی خطیب جامع مسجد خیر نگر مدرس قومیہ

اعمال حب وبغض وحاجات وغیرہ مسجدمیں پڑھے جائیں یا خارج؟ بعض کہتے ہیں مسجد میں پڑھنے سے عبادت میں شمار ہوتے ہیں؟
الجواب : اعمال مسجد وخارج مسجد دونوں جگہ جائز ہیں جبکہ اس کے لئے مسجد کی جگہ نہ روکے کہ یہ جائز نہیں اور وہ عمل بھی جائز ہو اور اس سے مقصود بھی امر جائز ہو اور اگر عمل اصلا یا قصداً ناجائز ہو تو مسجد میں اور بھی سخت تر حکم رکھے گا مثلا زن وشو میں بغض پیدا کرنا اس کے لئے عمل حرام ہے تو اسے مسجد میں پڑھنا حرام تر ہوگا، یوہیں اعمال سفلیہ کہ اصل میں حرام ہیں مقصود محمود کے لئے بھی مسجد میں حرام تر ہوں گے پھر جو جائز عمل جائز نیت سے ہے اس میں حالتیں دو ہیں، ایک اہل علم کی کہ وہ اسماء الٰہیہ سے تو سل اور اپنے جائز مقصد کے لئے اللہ عزوجل کی طرف تضرع کرتے ہیں یہ دعا ہے اور دعا مغز عبادت ہے مسجد میں ہو خواہ دوسری جگہ، دو م عوام نافہم کہ ان کا مطح نظر اپنا مطلب دنیوی ہوتاہے اور عمل کو نہ بطور دعا بلکہ بطور تد بیر بجالاتے ہیں ولہذا حب اثر نہ دیکھیں اس سے بے اعتقاد ہوجاتے ہیں اگر دعا سمجھتے بے اعتقادی کے کیا معنٰی تھے کہ حاکم پر حکم کس کا ایسے اعمال نہ مسجد میں عبادت ہوسکتے ہیں نہ غیر میں بلکہ جب کسی دنیوی مطلب کے لئے ہوں مسجد میں نہ پڑھنا چاہئے فان المساجد لم تبن لھدی ۱؎ (اس لئے کہ مساجد اس کام کے لئے نہیں بنائی گئیں۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم
 (۱؎ سنن ابن ماجہ  باب النہی عن انشاط الضوال فی المسجد  ص۵۶   و  صحیح مسلم کتا ب المساجد باب النہی عن نشد الضالۃ الخ     ۱/ ۲۳)
Flag Counter