Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
86 - 190
مسئلہ ۱۴۹ و ۱۵۰ :  از غازی پور محلہ میاں پورہ     مرسلہ علی بخش صاحب محرر رجسٹری ۲۳ شوال ۱۳۳۶ھ

(۱) صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے سوا ائمہ مجتہدین وشہداء وصالحین خصوصا اولیائے کاملین وعلمائے متقین کی شان میں ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا لفظ کہنا کیسا ہے۔ چاہئے یا نہیں؟

(۲) شرعا انبیاء ومرسلین وملائکہ ومقربین کے نام کے ساتھ علیہ السلام اور صحابہ کے نام کے ساتھ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور اولیاء وعلماء کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ کہنے کا کیا حکم ہے، ہر ایک کے لئے یہ الفاظ تخصیص کے ساتھ کردئے گئے ہیں یا جس جس کے نام کے ساتھ جو الفاظ چاہیں کہہ سکتے ہیں؟
الجواب

(۲) رضی اللہ تعالٰی عنہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو تو کہا ہی جائے گا ائمہ واولیائے وعلمائے دین کو بھی کہہ سکتے ہیں کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار شریف وجملہ تصانیف امام عارف باللہ سیدی عبدالوہاب شعرانی وغیرہ اکابر میں یہ شائع وذائع ہے۔ 

تنویر الابصار میں ہے :
یستحب الترضی للصحابۃ والترحم للتابعین ومن بعدھم من العلماء والاخیار وکذا یجوز عکسہ علی الراجح ۱؎۔
صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے ساتھ ''رضی اللہ تعالی عنہ '' کہنا یا لکھنا مستحب ہے تابعین اور بعد والے علماء کرام اور شرفاء کے لئے رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ '' کہنا یالکھنا مستحب ہے اور اس کا الٹ بھی راجح قول کی بناء پر جائز ہے یعنی صحابہ کرام کے ساتھ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اور دوسروں کے ساتھ رضی اللہ تعالی عنہ ۔ (ت)
 (۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    مسائل شتٰی     مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۳۵۰)
(۲) صلٰوۃ والسلام بالاستقلال انبیاء وملائکہ علیہم الصلٰوۃ والسلام کے سوا کسی کے لئے نہیں، ہاں بہ تبعیت جائز ہے جیسے اللھم صلی وسلم علی سیدنا ومولٰینا محمد وعلی آل سیدنا ومولٰینا محمد ۔ اور صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے لئے رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا جائے اولیاء وعلماء کو رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم یا قدست اسرارہم، اور اگر رضی اللہ تعالٰی عنہم کہے جب بھی مضائقہ نہیں جیسا کہ ابھی تنویر سے گزرا، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۵۱ : از حیدر آباد دکن مرسلہ محمد اکبر علی صاحب مدیر صحیفہ روزنہ ۱۳ محرم الحرام ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص مونو گرام بنانا چاہتا ہے جس کا نقشہ درج ذیل ہے،
23_1.jpg
دریافت طلب یہ ہے کہ اس مہر کے چوتھے درجہ میں ایک آیۃ قرآنیہ لکھی ہوئی ہے اس کے اوپر کے تین درجوں میں انگریزی میں اخبار روزانہ صحیفہ حیدر آباد دکن درج ہیں اس میں کوئی امر آیۃ قرآنیہ کی توہین کا تو نہیں ہے اگر ہے تو کس آیت یا حدیث کی بناء پرہے؟ اگر انگریزی کے عوض ، چینی، جاپانی یا اطالوی زبان میں خاص ان کے حروف میں کوئی عبارت لکھ کر نیچے آیۃقرآنیہ لکھی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ ہے یا نہیں؟

دوسرا امر یہ ہے کہ اس مونو گرام کو اخبار کے بیرونی طبقی اور دوسرے خط وکتابت کے لفافہ جات پر چھپوایا جاسکتاہے یا نہیں؟ اس لئے کہ طبلق اور لفافہ مثل ملفوفہ کے حفاظت سے نہیں رکھے جاتے ہیں بلکہ ان کو چاک کرکے ردی میں پھینکا جاتاہے۔ اس صورت میں اگر لفافہ جات وطبلق وغیرہ پر اسے چھپوایا جائے تو کیا کوئی حرج شرعی لازم آتاہے؟ اگر آتاہے تو کس آیت یا حدیث کی بناء پر؟ المستفتی الفقیر الی اللہ الولی محمد اکبر علی مدیر صحیفہ روزانہ
الجواب : تعظیم قرآن عظیم ایمان مسلم ہے۔ اس کے لئے کسی خاص آیت وحدیث کی کیا حاجت، اور تعظیم و بے تعظیمی میں بڑا دخل عرف کو ہے۔ محقق علی الاطلاق فتح القدیر میں فرماتے ہیں:
یحال علی المعھود ۱؎۔
یہ معاملہ عرف اور رواج کے حوالے کیا جاتاہے۔ (ت)
 (۱؎ فتح القدیر    )
حال قصد التعظیم انگریزی،چینی، جاپانی، جرمنی، لاطینی، جو زبان غیر اسلامی ہو جسے اسلام نے فارسی اور اردو کی طرح اپنا خادم نہ کرلیا جس کی وہ زبان نہ ہو اسے بلا ضرورت اس میں کلام نہ چاہئے۔ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
ایاکم ورطانۃ الاعاجم رواہ البیھقی ۲؎۔
عجمی لوگوں کی زبانیں بولنے سے بچو، امام بہیقی نے اس کو رروایت کیا۔ (ت)
 (۲؎ المصنف لعبدا لرزاق     باب الصلٰوۃ فی البیعۃ     حدیث ۴۱۱   المکتب الاسلامی بیروت  ۱ /۴۱۱)
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
فانہ یورث النفاق رواہ الحاکم فی صحیحہ المستدرک ۳؎۔
کیونکہ یہ چیز نفاق پیدا کردیتی ہے حاکم نے اپنی صحیح مستدرک میں اس کوروایت کیا ۔ (ت)
 (۳؎ المستدرک للحاکم کتاب معرفۃالصحابۃ     فضل کافۃ العرب الخ     مکتب المطوعات الاسلامیہ    ۴ /۸۷)
نہ قرآن مجید کا اس سے ملانا کہ ضم شرعا وعقلا وعرفا مجانست ہے لہذا علمائے کرام نے زمحشری معتزلی کا تفسیر میں بعض ابیات ہزل لانا اگر چہ بروجہ استشہاد سخت مذموم ومعیوب وخلاف ادب جانا۔ علامہ برہان الدین حیدر بن الہروی تلمیذ علامہ تفتازانی پھر فاضل شمس الدین اصبہانی اپنی تفسیر جامع بین الکبیر والکشاف میں کشاف کے محاسن لکھ کر فرماتے ہیں:
الا انہ لاخطانہ سلوک الطرق الادبیۃ المتزم فی کتابہ امورا ادھشت رونقہ و ابطلت منظرہ فتکدرت مشارعہ و تنزلت زینتہ منھا انہ لشغفہ باظھار الفضائل والکمالات وان یعرف انہ مع تبحرہ فی العلوم موصوف بلطائف المحارۃ ونفاس المحاضرۃ اورد فیہ ابیاتابنی علی الھزل والفکاھۃ اساسھا وھذا امر من الشرع والعقل بعید  اھ ۱؎ ملتقطا۔
مگر یہ کہ زمحشری اس وجہ سے ادبی طریقوں پر چلنے سے غلط ہوگیا کہ اس نے اپنی کتاب میں ایسے امور کا اہتمام کیا کہ جن سے ان کی رونق دہشت زدہ ہوگئی اور ان کا منظر باطل ہوگیا اور اس کے پانی کی نالیاں گدلی ہوگئیں اور اس کی زیب وزینت نیچی ہوگئی۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ وہ فضائل وکمالات کے اظہار کا دلدادہ ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کا تعارف ہوجائے کہ وہ علوم میں سمندر کی حیثیت رکھنے کے باوجود دلچسپ محاورہ اور نفیس چٹکلوں سے موصوف ہے۔ اس لئے اس نے کتاب میں کچھ ایسے اشعار پیش کئے کہ جن کی بنیاد ہنسی مذاق اور خوش طبعی پر ہے۔ اور یہ بات شریعت اور عقل کے اعتبار سے امربعید ہے اھ ملتقطا۔ (ت) (۱؎)
23_2.jpg
نہ کہ انگریزی کا اوپر اور آئہ کریمہ کا نیچے ہونا نہ کہ تین درجے بلندی یہاں علو وسفل ضرور عرفا تعظیم و بے تعظیمی کا مشعر ہوتا ہے ولہذا مروی ہوا کہ انگشتری مبارک حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں کہ محمد رسول اللہ منقوش تھا سطر بالا میں کلہ جلالت تھا اور سطر دوم میں رسول سوم میں نام اقدس اس شکل پر
23_3.jpg
ظاہر جبھی سے مہروں میں یہ رسم ہے کہ نیچے سے اوپر کو پڑھی جاتی ہے۔
علامہ اسنوی پھر علامہ ابن رجب وغیرہما فرماتے ہیں :
کتابتہ کانت من اسفل الی فوق یعنی الجلالۃ اعلی الاسطر الثلاثۃ ومحمد اسفلھا ویقرا من اسفل ۲؎۔
مہر میں لکھائی نیچے سے اوپر کی طرف ہوتی ہے یعنی اللہ تعالٰی کا بارعب نام تین سطروں میں اوپر مذکور ہے اور حضور پاک کا اس گرامی سب سے نیچے ہے اور پھر نیچے کی طرف سے پڑھا جاتاہے۔ (ت)
 (۲؎ فتح الباری     کتاب اللباس    باب ھل یجعل نقش الخاتم الخ     مصطفی البابی مصر    ۱۲ /۴۴۸)
 شیخ محقق اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں :
بود نقش خاتم سہ سطر یک سطر پایاں محمد وسطر میانہ رسول وسطر دیگر بالااللہ شیخ محی الدین نووی گفتہ سطر اول اللہ وسطر دوم رسول وسطر سوم محمد بدیں ہیأت ۱؎
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی انگوٹھی نقش مبارک کچھ اس طرح تھا کہ ایک سطر میں سب سے نیچے حضور کا اسم گرامی اور درمیانی سطر میں لفظ رسول اور سب سے اوپر والی سطر میں لفظ ''اللہ'' درج تھا۔ شیخ محی الدین نووی نے فرمایا : حضور پاک کی مہر نقش مبارک (نقشہ مذکور کی طرح تھا) پہلی سطر میں لفظ اللہ ، دوسری سطر میں لفظ رسول اور تیسری سطر میں لفظ محمد اس شکل میں درج تھا۔
23_4.jpg
(۱؎ اشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ     کتا ب اللباس باب الخاتم         الفصل الاول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۵۶۰)
علامہ ابن عزیز الدین بن جماعہ فرماتے ہیں :
انہ انیق بکمال ادبہ ۲؎
( کمال ادب عزت وعظمت کے یہی زیادہ لائق ہے۔ ت)
 (۲؎ حاشیۃ البجریمی         کتاب  الزکوٰۃ   باب زکوٰۃ المعدن والرکاز     المکتبہ الاسلامی ہ دیار بکر ترکیا    ۲ /۳۲)
اور پھر آیہ کریمہ کہ اخبار کی طبلق یا کارڈ یا لفافوں پر چھپوانا ضرور بے ادبی کو مستلزم اور حرام کی طرف منجر، رہے اسس پر چھٹی رسانوں وغیرہم بے وضو بلکہ جنب بلکہ کفار کے ہاتھ لگیں گے جو ہمیشہ جنب رہتے ہیں اور یہ حرام ہے۔
قال تعالٰی لایمسہ الا المطھرون ۳؎
اللہ تعالٰی نے فرمایا : قرآن مجید کو صرف پاک لوگ ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔ (ت)
(۳؎ القرآن الکریم     ۵۶ /۷۹)
مہریں لگانے کے لئے زمین پر رکھے جائیں گے پھاڑ کر ردی میں پھینکے جائیں گے ان بے حرمتیوں پر آیت کا پیش کرنا اس کا فعل ہوا ؎
کردم از عقل سوالے کہ بگہ ایمان چیست     عقل درگوش ودلم گفت کہ ایمان ادب ست
 (میں نے عقل سے یہ سوال کیا کہ تو یہ بتادے کہ ایمان کیا ہے۔ عقل نے میرے دل کےکانوں مں کہا کہ ایمان ادب کا نام ہے۔ ت)

نسأل اﷲ حسن التوفیق ( ہم اللہ تعالٰی سے اچھی توفیق کا سوال کرتے ہیں۔ ت) اس سوال کا منشا ہی اس کے جواب کو بس تھا کہ قلب کی حالت ایمانی نے ان دونوں باتوں میں خدشہ جانا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الاثم ماحاک فی صدرک ۱؎
(گناہ وہ جو تیرے دل میں کھٹکے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎صحیح مسلم     کتاب البر والصلۃ   باب تفسیر البروالاثم     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۳۱۴)
مسئلہ ۱۵۲ :  از ریاست چھتاری مدرسہ محمودیہ ضلع بلند شہر مرسلہ امیر حسین صاحب طالب علم ۱۴ رجب ۱۳۳۷ھ

چہ می فرمایند علمائے دین اندر ینکہ سامعین را درمجلس وعظ ونصیحت اندرون وعظ درود شریف خواندن برروح پر فتوح صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جائز است یاچہ؟
علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ وعظ ونصیحت کی مجلس کے دوران سننے والوں کو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا اسم گرامی سن کر درود شریف پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب :  درو شریف خواندن بروح پر فتوح صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم درمجلس وعظ وپند بلا شک و بلا شبہ جائز است بلکہ مستحب حصول ثواب است کما فی ردالمحتار ونص العلماء علی استحبابھا فی مواضع یوم الجمعۃ وغیر ذٰلک ومنھاالوعظ ۲؎ وشر ذمہ قلیلہ وجہلا عدیدہ کہ ایشاں از ضوابط دیں و قواعد شرع متین بہر کامل وحظ اوفر نمی دارند بدون تفرقہ وبغیر امتیاز حق وباطل درود شریف را ازقبیل بدعتۃ ضلالہ شمار دہ برعدم جواز فتوٰی دادہ اند قابل اعتبار اصلا نیست چونکہ مخالف کتب شرعیہ است۔ اللہ تعالٰی اعلم بالصواب کتبہ فدوی محمد امیر حسین عفی عنہ۔
حضور کی روح پر فتوح صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا مجلس وعظ ونصیحت میں بے شک وشبہہ نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور اجر وثواب کا ذریعہ ہے جیسا کہ فتاوٰی شامی میں مذکو رہے۔ چنانچہ علمائے کرام نے درود شریف چند مقامات میں پڑھنے کے مستحب ہونے کی تصریح فرمائی، مثلا جمعہ کے دن اور وعظ و نصیحت کے دوران اور ان دو کے علاوہ باقی اچھے مقامات میں لیکن ایک چھوٹی سی جماعت جو چند جاہلوں پر مشتمل ہے کہ جو دین کے ضابطوں اور شرع متین کے قائدوں سے پوری طرح واقف نہیں اور انھیں اچھی طرح نہیں جانتے، اور نہ دین سے پورا حصہ رکھتے ہیں اور وہ تفرقہ اور حق وباطل کے درمیان امتیاز کئے بغیر درود شریف کوایک گمراہ کن بدعت شمار کرکے اس کے ناجائزہونے کا فتوٰی دیتے ہیں۔ لہذا ان کا یہ فتوٰی غیر معتبر ہے کیونکہ وہ اسلامی نصاب اور کتب شرعی کے خلاف ہے اللہ تعالٰی راہ صواب کو اچھی طرح جانتا ہے۔ کتبہ فدوی محمد امیر حسین عفی عنہ۔
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب الصلٰوۃ     باب الصلٰوۃ   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۳۴۸)
الجواب : فی الواقع درود شریف از اعظم مطلوبات و اجل مندوبات وافضل مثوبات است واعظ از او منع نکند مگر گمراہ و دربارہ سامعین خود احادیث کثیرہ ناطق است کہ ہنگام سماع ذکر اقدس ہر کہ درود نفر ستد وعید براوصادق است آرے باید کہ جہر نکنند تادرسماع وعظ خلل نہ یفتد فی الدرالمختار والصواب انہ یصلی علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عند سماع اسمہ فی نفسہ ۱؎ وفی ردالمحتار وکذا اذا ذکر النبی صلی اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لایجوز ان یصلوا علیہ بالجہر بل بالقلب وعلیہ الفتوٰی رملی ۲؎ ہمدرانست قولہ (فی نفسہ) ای بان یسمع نفسہ او یصحح الحروف فانھم فسروہ بہ وعن ابی یوسف قلبا ۳؎ الخ قلت وعلی الاول عمل الممسلمین فی الوعظ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
واقعی درود شریف سب سے بڑا مطلوب، بڑی شان والا، مستحب اور سب سے افضل ثواب، لہذا وہی واعظ درود شریف پڑھنے سے منع کرے گا جو گمراہ ہو، اور وعظ سننے والوں کے متعلق بیشمار حدیثیں ناطق ہیں (یعنی دوران وعظ ان کا درود شریف پڑھنا بتارہی ہیں) کہ حضور اطہر کا ذکر اقدس سن کر جوآدمی ان پر درود نہ بھیجے اس پر عذاب کی دھمکی ( جو حدیث میں آئی ہے) بلا شبہ صادق، ہاں یہ ضرور خیال رکھیں کہ بلند آواز سے نہ پڑھیں تاکہ وعظ ونصیحت سننے سے نقصان پیدا نہ وہ، چنانچہ درمختار میں ہے صواب یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اسم گرامی سن کر آپ پر دل میں درود شریف پڑھے، فتاوٰی شامی میں ہے یونہی جب حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ذکر چھڑ جاتے ہیں توآپ بلکہ دل میں پڑھیں اور اسی پر فتوٰی ہے۔ رملی۔ اسی میں ہے قولہ یعنی مصنف کا ''فی نفسہٖ'' کہنا، اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا نفس سنے (اور اسے سنائے) یا حروف کو صحت کے ساتھ ادا کرے کیونکہ اہل علم نےاس کی یہی تفسیر بیان فرمائی ہے۔اور قاضی امام ابویوسف علیہ الرحمۃ نے اس کی تفسیر (قلبا الخ) مروی ہے یعنی دل میں پڑھے، وعظ میں پہلی بات پر مسلمانوں کا عمل ہے۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ درمختار     کتا ب الصلٰوۃ    باب الجمعۃ   مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۱۱۳)

(۲؎ ردالمختار  کتا ب الصلٰوۃ    باب الجمعۃ      داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۵۵۰)

(۳؎ردالمحتار  کتا ب الصلٰوۃ    باب الجمعۃ      داراحیاء التراث العربی بیروت   ۱ /۵۵۱)
Flag Counter