Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
83 - 190
وہ آمدنی ان کے حق میں خبیث ہے خصوصا جبکہ ایسے حاجتمند نہ ہوں جن کو سوال کی اجازت ہے کہ اب تو بے ضرورت سوال دوسرا حرام ہوگا اور وہ آمدنی خبیث تر وحرام مثل غصب ہے،
عالمگیریہ میں ہے :
ماجمع السائل بالتکدی فھو خبیث ۱؎۔
سائل نے کدوکاوش سے جوکچھ جمع کیا وہ ناپاک ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ  کتاب الکراھیۃ    الباب الخامس عشر     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۴۹)
دوسرے یہ کہ وعظ حمد ونعت سے ان کا مقصود محض اللہ ہے اور مسلمان بطور خود ان کی خدمت کریں تو یہ جائز ہے اور وہ مال حلال، تیسرے یہ کہ وعظ سے مقصود تو اللہ ہی ہو مگر ہے حاجتمند اورعادۃ معلوم ہے کہ لوگ خدمت کریں گے اس خدمت کی طمع بھی ساتھ لگی ہوئی ہے تو اگرچہ یہ صورت دوم کے مثل محمود نہیں مگر صور اولٰی کی طرح مذموم بھی نہیں جسے درمختار میں فرمایا :
الوعظ لجمع المال من ضلالۃ الیھود و النصارٰی ۲؎۔
مال جمع کرنے کے لئے وعظ کہنا یہود ونصارٰی کی گمراہیوں سے ہے۔
 (۲؎ درمختار  کتاب الحظروالاباحۃ   فصل فی البیع     مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۲۵۳)
یہ تیسری صور ت بین بین ہے اور دوم سے بہ نسبت اولٰی کے قریب تر ہے جس طرح حج کو جائے اور تجارت کا کچھ مال بھی ساتھ لے جائے جسے
لیس علیک جناح ان تبتغوا فضلامن ربکم ۳؎
(تم پر کچھ گناہ نہیں کہ تم اپنے پروردگار کا فضل (یعنی رزق حلال )تلاش کرو۔ ت) فرمایا۔
(۳؎ القرآن الکریم    ۲ /۱۹۸)
لہذا فتوٰی اس کے جواز پر ہے۔
افتی بہ الفقیہ ابواللیث رحمہ اﷲ تعالٰی کما فی الخانیۃ والہندیۃ وغیرھما والذی ذکرتہ توفیق بین القولین وباﷲ التوفیق واﷲ تعالٰی اعلم۔
حضرت فقیہ ابواللیث سمر قندی رحمہ اللہ تعالٰی نے اس پر فتوٰی دیا ہے جیسا کہ فتاوٰی قاضی خاں اور فتاوٰی عالمگیری وغیرہ میں مذکور ہے اور جو کچھ میں نے بیان کیا ہے یہ دو قولوں کے درمیان موافقت پیدا کرنا ہے اور اللہ تعالٰی ہی سے توفیق ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
مسئلہ ۱۳۴ : مسئولہ عبدالرحمن از گگرہ ضلع کھیری بروز شنبہ بتاریخ   ۱۱ شعبان المعظم۱۳۳۴ھ

چہ میفرمایند علمائے دین ومفتیان شرع متین دریں مسئلہ (کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں ۔ت) کہ زید عرصہ اٹھارہ سال سے سفرحضر معمولی علالت میں بہ پابندی بعد ادائے نماز فجرتلاوت قرآن مجید کیا کرتا ہے گو دنیاوی تعلقات اور گونا گوں تفکرات اسے بہت ہی لاحق ہیں مگر وہ اس فرض کو ہرحالت میں انجام دیتا رہتا ہے مگر بوجہ کم استعداد ہونے کے وہ مطالب سے لاعلم رہتا ہے اسی صورت میں وہ مترجم قرآن مجید لفظی اردو یا فارسی کا ترجمہ دیکھ کر روزانہ بجائے دو پارہ ایک ربع یا اس سے کم وبیش تلاوت کرے یا حسب معمول روزانہ دو پارہ تلاوت کرے۔ دونوں میں سے کون افضل ہے؟ بینوا توجروا
الجواب : رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
احب الاعمال الی اﷲ ادومھا وان قل ۱؎۔
اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ وہ عمل پسندہے جو ہمیشہ ہو اگر چہ کم ہو۔ اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لا تکن مثل فلان کان یقوم اللیل ثم ترک قیام اللیل ۲؎۔ فلاں کی طرح نہ ہونا تہجد پڑھاکرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔
 (۱؎ صحیح البخاری  کتاب الرقاق    باب القصد والمداومۃ علی العمل     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۹۵۷)

(۲؎ سنن ابن ماجہ  ابواب اقامۃ الصلٰوۃ    باب ماجاء فی قیام اللیل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۹۵)
مہینے میں دو ختم خیر کثیر ہے اور جب اٹھارہ سال سے اس کا التزام ہے تو اس میں کمی ہر گز نہ کی جائے وفیہ حدیث عبداﷲ ابن عمر و رضی اﷲ تعالٰی عنہما (اور اس بارے میں حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث موجود ہے۔ ت) قرآن عظیم کے مطالب سمجھنا بلا شبہہ مطلوب اعظم ہے مگر بے علم کثیرہ کافی کے ترجمہ دیکھ کر سمجھ لینا ممکن نہیں بلکہ اس کے نفع سے اس کا ضرر بہت زیادہ ہے جب تک کسی عالم ماہر کامل سنی دیندار سے نہ پڑھے خصوصا اس حالت میں کہ ترجمہ شیخ سعدی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا آج تک اردو فارسی جتنے ترجمے چھپے ہیں کوئی صحیح نہیں بلکہ ان باتوں پر مشتمل ہیں کہ بے علم بلکہ کم علم کو بھی گمراہ کردیں۔ 

واﷲ یقول الحق وھو یھدی السبیل حسبنا اﷲ ونعم الوکیل۔ (اور اللہ تعالٰی حق ارشاد فرماتاہے اور وہی سیدھی راہ دکھاتاہے ہمیں اللہ تعالٰی کافی ہے، اور وہ اچھا کارساز ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۳۵ :  از ملک کاٹھیاواڑ مقام اڑتیان امین احمد پنجشنبہ ۱۹ ذی الحجہ ۱۳۳۴ھ

قرآن شریف کی تلاوت آواز سے کرنا یا آہستہ چاہئے؟
الجواب : قرآن عظیم کی تلاوت آواز سے کرنا بہتر ہے مگر نہ اتنی آواز سے کہ اپنے آپ کو تکلیف یا کسی نمازی یا ذاکر کے کام میں خلل ہو یا کسی جائز نیند سونے والےکی نیند میں خلل آئے یا کسی بیمار کو تکلیف پہنچے یا بازار یا سرایا عام سڑک ہو یا لوگ اپنے کام کاج میں مشغول ہیں اور کوئی سننے کے لئے حاضر نہ رہے گا ان صورتوں میں آہستہ ہی پڑھنے کا حکم ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۳۶ :  مرسلہ عبدالستار بن اسمعیل صاحب از گونڈل کاٹھیا واڑ     یکم صفر ۱۳۳۵ھ

اکثر لوگ اپنی اپنی جوتیوں کو بغرض حفاظت مسجد کے اندر لیجاکر اپنے قریب یا کسی گوشہ میں رکھتے ہیں یہ جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : جوتے جن میں نجاست نہ اگر کسی شہ میں رکھ دئے جائیں یااپنے پاؤں کے سامنے تو حرج نہیں مگر سجدہ کے سامنے نہ ہو کہ نمازی کی طرف رحمت الٰہی موجود ہوتی ہے نہ دہنی طرف کو ادھر ملائکہ ہیں نہ بائیں طرف کہ دوسرے کے دہنی طرف ہوں گے، ہاں اگر یہ کنارہ پر کھڑا ہے کہ اس کے بائیں طرف کوئی نہیں اور دیوار کے ساتھ متصل ہے کہ کسی کے آنے کا بھی احتمال نہیں تو رکھ سکتا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۳۷ : مرسلہ محمود احمد صاحب از قصبہ دیوی شریف ضلع بارہ بنکی    ۱۰ صفر المظفر ۱۳۳۵ھ

کیا ارشاد فرماتے ہیں حضرات علمائے دین اسلام ومفتیان شریعت خیر الانام علیہ الصلٰوۃ والسلام کہ جس طرح آگرہ میں مقبرہ تاج محل کے بیرونی پھاٹک واندرونی درو پر ونیز دہلی کی جامع مسجد کے در پر اور بعض دیگر مقدس مقامات ومساجد کے دروں پر آیات قرآن مجید کندہ ہیں اگر کسی بزرگ وبرگزیدہ خدا کے مقبرہ کے دروں پر بایں احتیاط کہ زمین سے سات فٹ بلندی پر جہاں کسی قسم کی بے ادبی کا گمان بھی نہ ہو قرآن مجید کی کوئی سورہ یا اسماء جناب احدیت جل جلالہ سنگ مرمر کے ایسے مضبوط مصالحہ سے لکھے جائیں جو مثل پتھر کے مستحکم ہوں اور جن کا رنگ دھوپ یا پانی سےکبھی تبدیل نہ ہو سکے اور حروف ہمیشہ بدستور قائم ہریں تو شرعا جائز ہے نہیں؟ بینوا توجروا
Flag Counter