Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
82 - 190
مسئلہ ۱۲۹ : مسئولہ معطم علی صاحب پیش امام جامع مسجد حیدر آباد دکن     ۷ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جامع مسجد بلدہ حیدرآباد دکن میں منبر کے پاس جو مصلے کا محراب ہے اس کے گردا گرد آیات قرآنی بخط طغرا  سنگ سیاہ پرکندہ ہیں اگر خطیب صاحب منبر پر خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑے رہے تو آیت قرآنی نیچے ہوتی ہیں تو کیا آیات قرآنی بوجہ منبر کے نیچے ہونے کے بے ادبی وبے حرمتی ہوتی ہے اگر بے ادبی ہے تو ان آیات کو سیمنٹ یا چونے سے پوشیدہ کردیں تو کوئی گناہ تو نہیں؟
الجواب : دیواروں پر کتابت قرآن عظیم میں رجحان جانب ممانعت ہے اور اگر منبر پر کھڑے ہونے میں اس طرف امام کی پیٹھ ہوتی ہے تو ضرور خلاف ادب ہے اور اگر پاؤں یا مجلس سے بلاسائر نیچے ہیں تو اور زیادہ سوء اور ادب ہے ان حالتوں میں ان کا سمینٹ یا چونے کسی پاک چیز سے بند کردینا حرج نہیں رکھتا بلکہ بہ نیت ادب محمود ہے اور اگر نہ نیچے ہیں نہ پیچھے جب بھی اگر اس قول راجح کے لحاظ سے یا اس لئے کہ محراب میں کوئی شے شاغل۔ نظر نہ ہونی چائے بند کرنے میں حرج معلوم نہیں ہوتا۔
فان الامور بمقاصدھا ۱؎ وانما لکل امرئ مانوی ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ کام اپنے مقاصد پر مبنی ہیں، اور ہر آدمی کے لئے وہی کچھ ہے جس کا اس نے ارادہ کیا ۔ اور اللہ تعالٰی سب کچھ خوب جانتاہے ۔ (ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر   الفن الاول     القاعدۃ الثانیہ     ادارۃ القرآن کراچی    ۱ /۸۳)

(۲؎ صحیح البخاری    باب کیف بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲)
مسئلہ ۱۳۰ : مسئولہ محمود الحسن گوالیار بروز شنبہ     تاریخ ۲۰ ذی الحجہ ۱۳۳۳ھ

جامع مسجد میں وعظ کسی کی اجازت سے  ہونا چاہئے یا اگر کوئی تقریروغیرہ کرنا چاہئے اور اس کی قابلیت علم علوم دینیہ میں کافی نہ ہو اور اس کی تقریر اشتعال انگیز ہو کیا اس کو امام مسجد تقریر کرنے سے بند کرسکتاہے؟
الجواب : وعظ میں اور ہر بات میں سب سے مقدم اجازت اللہ ورسول ہے جل اللہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو کافی علم نہ رکھتا ہو اسے واعظ کہنا حرام ہے او اس کا وعظ سننا جائز نہیں اور اگر کوئی معاذا للہ بد مذہب ہے تو وہ نائب شیطان ہے اس کی بات سننی سخت حرام ہے اور اگر کسی کے بیان سے فتنہ اٹھتا ہو تو اسے بھی رو کنے کا امام اور اہل مسجد سب کو حق ہے۔ اور اگر پوری عالم سنی صحیح العقیدہ وعظ فرمائے تو اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔
بقولہٖ تعالٰی: ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکر فیھا اسمعہ ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالٰی کے گھروں میں اس کانام لینے سے روکے، اور اللہ تالٰی سب کچھ اچھی طرح جانتا ہے۔ (ت)
 (۳؎ القرآن الکریم       ۲ /۱۱۴)
مسئلہ ۱۳۱ : از مقام اہورملک مارواڑ متصل آئر نپورا پیرمحمد امیر الدین بروزیک شنبہ بتاریخ ۱۲ محرم الحرام ۱۳۳۴ھ

بروز جمعہ کو مکتوب کے لڑکوں کو چھٹی ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو مع حدیث وآیت کے آگاہ فرمائیں فقط۔
الجواب : جمعہ کی چھٹی ہمیشہ معمول علمائے اسلام ہے اور اسی قدر اس کی سند کے لئے کافی۔ ایسی جگہ بالخصوص آیت یا حدیث ہونا ضرور نہیں اور آیت وحدیث سے یوں نکال بھی سکتے ہیں کہ حدیث صحیح میں جمعہ کی پہلی ساعت سے جمعہ کی طرف جانے کی ترغیب فرمائی توصبح سے فراغ جمعہ تک تو وقت اہتمام وانتظار جمہ میں گزرا پڑھنے کا کیا وقت ہے اگر کہئیے مسجد میں جاکر پڑھے تو قبل جمعہ حلقہ سے ممانعت فرمائی بعد نماز فرمایا گیا:
فاذا قضیت الصلٰوۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اﷲ ۱؎۔
  جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔
 (۱؎ القرآن الکریم    ۶۲ /۱۰)
یہاں بھی تجارت وکسب حلال کا ذکر فرمایا نہ کہ تعلیم علم کا تو معلوم ہوا کہ وہ دن چھٹی کا ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۳۲ : از بدایوں کچہری کلکٹری محافظ تھانہ صدر مسئولہ سلامت اللہ نائب محافظ دفتر پٹواری بروز شنبہ بتاریخ ۱۱ صفر المظفر ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ذیل کے مسئلہ میں اگر مرد کو معلوم ہو کہ میری بی بی حاملہ ہے تو کس مدت تک عورت سے صحبت کرنا جائز ہے؟ فقط
الجواب :  جب تک بچہ پیدا نہ ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۳۳ :  از شاہجہانپور بازار سبزی منڈی محمد رضا خاں سوداگر بروز دوشنبہ ۱۹ رجب ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جامع مسجد اور عیدگاہ میں واسطے ترمیم ان دونوں مسجدوں کی یا کسی اور مسجد کی خواہ اسی شہر میں ہو یا دوسرے شہر میں، جائز ہے یا ناجائز؟ اور اگر کوئی سائل اپنی ذاتی حاجت کے واسطے چندہ طلب کرے یا مؤذن اور امام مسجد اس کے واسطے اعلان کردے توجائز ہوگا یا ناجائز؟ یا جامع مسجد یا عیدگاہ میں چندہ طلب کرنا وقت قراء ت خطبہ کے حکم جواز میں ہے یا عدم جواز میں؟ اور رافضی کی مسجد میں سنی المذہب کا نماز پڑھنا جائز ہے یا ناجائز؟ مکروہ یاغیر مکروہ؟ اگر روافض نے مسجد بنوادی ہے اور اس میں روافض نماز کے واسطے کسی وقت حاجر نہ ہوسکے اور سنی لوگ اس  کے گردو پیش سکونت رکھتے ہوں اور اس مسجد میں نماز پنجوقتہ پڑھا کریں تو سنیوں کے واسطے موجب قباحت شرعا ہے یانہیں؟ نمازاس مسجد میں سنیوں کی بکراہت اد اہوگی یا بلا کراہت؟ اور علماء جو وعظ مساجد جامع یا غیر جامع میں کہتے ہیں اور حاضرین کو پند ونصائح سناتے ہیں اور وہ ان کی خدمت وتواضع نقود وغیرہ سے کرتے ہیں یہ آمدنی ان کو جائز ہے یا ناجائز؟ اور بعضے صرف حمد ونعت پڑھتے ہیں اور سامعین ان کی خدمت گزاری نقد وجنس سے کرتے ہیں یہ امر مساجد وغیر مساجد میں مباح و درست ہے یانہیں اور یہ آمدنی ان کے واسطے درجہ جواز میں ہے یا عدم جواز میں؟ یہ لوگ ماتحت آیہ کریمہ اولئک الذین اشتروالحیوۃ الدینا بالاخرۃ ۱؎ (یہی وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے دنیاوی زندگی کو آخرت کے بدلے میں خریدلیا ہے۔ ت) کے داخل ہیں یا خارج؟ اس سے تین حاملین کہ مقصود طرفین الصاع اور  انتفاع اور نفع رسانی اور مہمان نوازی اور مسافر پروری ہو، بینو ا توجروا (بیان فرمائیے اجر پائیے۔ ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۸۶)
الجواب : خطبہ کے وقت چندہ مانگنا خواہ کوئی بات کرنا حرام ہے اور خالی وقت میں مسجد یا اور کسی دینی کام یا کسی مسلمان حاجتمند کے لئے مانگے جس سے نمازیوں کی نماز میں خلل نہ آئے سنت سے ثابت ہے اور اپنے لئے مانگنے کی مسجد میں اجازت نہیں، روافض کی بنائی ہوئی مسجد شرعا مسجد نہیں نماز اس ہوگی جیسے کسی گھر میں اگر محلہ میں کوئی مسجد اہلسنت کی ہے تو اسے چھوڑ کر اس میں پڑھنا ترک مسجد ہوگا اور ترک مسجد بلاعذر شرعی جائز نہیں۔
حدیث میں ہے :
لاصلٰوۃ لجارا المسجدالا فی المسجد ۲؎۔
مسجد کے پڑوسی کی نماز سوائے مسجد نہیں ہوتی۔ (ت)
 (۲؎ السنن الکبرٰی للبیہقی     کتاب الصلٰوۃ   باب الماموم یصلی خارج المسجد الخ   دارصادر بیروت    ۳ /۱۱۱)
اور اگر کوئی مسجد نہیں تو اپنی مسجد بنائیں یا اسی کو مول لےکر وقف کردیں اس میں تین صورتیں ہیں اگر وعظ کہنے اور حمد ونعت پڑھنے سے مقصود یہی ہے کہ لوگوں سے کچھ مال حاصل کریں تو بیشک اس آیہ الکریمہ کے تحت میں داخل ہیں اور حکم لا تشتروا باٰیتی ثمنا قلیلا ۳؎ (میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ وصول کرو۔ ت) کے مخالف۔
(۳؎ القرآن الکریم       ۲ /۴۱)
Flag Counter