فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۱۲۱ : بعد نماز فجر اور آفتاب طلوع ہونے سے قبل قرآن شریف کی تلاوت کرنا جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : بیشک جائز ہے بلکہ بہت اعلی وقت ہے جبکہ آفتاب طلوع نہ کرے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۲۲ : از افریقہ حاجی عبداللہ ویعقوب علی ۲۴ محرم ۱۳۳۱ھ راستے میں چلے جانا اور قرآن مجید پڑھتے جانارستے میں نجس مکان بھی آتے ہیں جن کی بد بو سے چلنا بھی مشکل ہوتاہے کیا ایسے مکانوں سے چلے جانا اور قرآن مجید پڑھنا جائز ہے یانہیں؟
الجواب : راستے میں قرآن شریف کی تلاوت دوشرط سے جائز ہے۔ ایک یہ کہ وہاں کوئی نجاست نہ ہون، دوسرے یہ کہ راہ چلنا اسے قرآن عظیم پڑھنے سے غافل نہ کرے جہاں نجاست یا بدبو ہو وہاں خاموش رہے جب وہ جگہ نکل جائے پھر پڑھے، واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (اور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ جانتا ہے اور اس بزرگی والے کا علم سب سے زیادہ کامل اور زیادہ پختہ ہے۔ ت)
مسئلہ ۱۲۳ : از سرنیاں ضلع بریلی مرسلہ امیر علی صاحب قادری ۴ رجب ۱۳۳۱ھ سونے سے اُٹھ کر آیۃ الکرسی پڑھنا کیساہے بعض استاد حقہ پیتے ہیں اور شاگرد کو پڑھاتے جاتے ہیں۔ بینوا توجروا
الجواب : سونے سے اٹھ کر ہاتھ دھوکر کلی کرلے اس کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے، اگر منہ میں حقہ وغیرہ کی بدبو ہو یا کوئی کھانے پینے کی چیز ہو تو بغیر کلی کئے تلاوت نہ کرے جو استاد ایسا کرتے ہیں برا کرتے ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۲۴ : از موضع منصور پور متصل ڈاک خانہ قصبہ شیش گڈھ بہیڑی ضلع بریلی مرسلہ محمد شاہ خان ۳۰محرم۱۳۳۲ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر صاحبان کو دیکھا گیا ہے کہ کعبہ شریف کی جانب پشت کرکے دیوا رمسجد کے سہارے سے بیٹھ کر تسبیح وغیرہ پڑھتے ہیں ایسے صاحبان کے واسطے کیا حکم ہے؟
الجواب : یہ نامناسب ہے حدیث میں ہے :
افضل المجالس مااستقبل بہ القبلۃ ۱؎
واﷲ تعالٰی اعلم۔ سب میں بہتر نشست رو بہ قبلہ ہے۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ کنز العمال برمز طب عن ابن عباس حدیث ۲۵۴۰۱ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۱۳۹)
مسئلہ ۱۲۵ و ۱۲۶ : مسئلہ حافظ عبدالطیف صاحب مدرس مدرسہ حنفیہ سہسوان از سہسوان ۲۸ صفر ۱۳۳۲ھ (۱) مصحف مجید جو نہایت بوسیدہ ہوجائے اس کو اولٰی دفن یا احراق اور اگر دفن ہو تو کس جگہ؟ (۲) اسبند پر بعض حفاظ کوئی آیت پڑھ کر پھونکتے ہیں پھر وہ جلایا جاتاہے یہ فعل کیسا ہے؟ بینوا تو جروا (بیان فرمائے اجر پائے۔ ت)
الجواب (۱) مصحف کریم کا احراق جائز نہیں نص علیہ فی الدرالمختار (درمختار میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔ ت) بلکہ حفاظت کی جگہ دفن کیا جائے جہاں پاؤں نہ پڑیں، اور اگر تھوڑے اوراق ہوں تو اولٰی یہ ہے کہ مسلمانوں کے بچوں کو ان کی تعویذ تقسیم کردئے جائیں۔ (۲) اسپند پر کوئی آیت دم کرکے جلانے میں حرج نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۲۷ و ۱۲۸ : از دانا پور کمپ مسئو لہ پیر خیر شاہ صاحب ۲۹ صفر ۱۳۳۲ھ (۱) زید اپنی زوجہ کی پستان منہ میں رکھ کر جماع کرتاہے اور کہتا ہے کہ لذت زیادہ حاصل ہوتی ہے کیا اس کو کسی طرح کا ہرج نکاح میں آسکتا ہے یا اس کو ہر حال میں ہمیشہ کے لئے مباح ہے؟ (۲) زید اپنی زوجہ سے کہتا ہے کہ تیری پستان بالکل خورد تری ہیں مجھ کو لذت جماع حاصل نہیں ہوتی اس کی زوجہ نے خاوند کی رضا کے لئے اپنے پستان خود ہی چوسنا اور پینا شروع کیا یہاں تک کہ اس کے پستان بوجہ دودھ آنے کے خوبصورت بن گئے۔ اب وہ خاوند خوش ہوگیا وہ عورت ایسا کرسکتی ہے کیا اپنا دودھ پی سکتی ہے؟ جواب کتب معتبرہ سے عنایت فرمائیں۔
الجواب (۱) صورت مستفسرہ جائز ہے بلکہ اگر نیت محمود ہو تو امید اجر ہے جیسا کہ ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے باہم زوجین میں مس شرمگاہ یک دگر فرمایا :
ارجو انھما یوجران علیہ ۱؎
میں امید کرتاہوں کہ وہ دونوں اس پر اجر دئے جائیں گے۔
(۱؎ فتاوی قاضی خاں کتا ب الحظرولاباحۃ فصل فیما یکرہ من النظر والمس الخ نولکشور لکھنؤ ۴ /۷۸۳)
اصل یہ ہے کہ شرع مطہر کو جس طرح اپنی حرام فرمائی ہوئی چیز یعنی زناء کے دواعی مبغوض ہیں ویسے ہی اپنی حلال کی ہوئی چیز یعنی جماع زوجہ کے دواعی محبوب ہیں ہاں اگر عورت شیر دار ہو تو ایسا چوسنا نہ چاہئے جس سے دودھ حلق میں چلا جائے اور اگر منہ میں آجائے اور حلق میں نہ جانے دے تو مضائقہ نہیں کہ شیر زن حرام ہے نجس نہیں البتہ روزے میں اس صورت خاص سے احتراز چاہئے۔ کما نصوا علی کراھۃ ذوق شیئ الا ضرورۃ (جیسا کہ کسی چیز کا چکھنا بغیرکسی ضرورت کے ائمہ فقہ نے اس کے مکروہ ہونے کی تصریح فرمائی۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔ (۲) یہاں جو بات فرض کی ہے دو وجہ سے مستبعد ہے۔ ایک چھوٹی پستان کا ایسا ہونا کہ عورت جسے خود پی سکے دوسرے اپنے پینے کی وجہ سے دودھ اتر آنا، بہر حال اگر خالی پستان پی لیا مضائقہ نہیں اوراگر دودھ پیا تو حرام ہے بلکہ دودھ کی پستان پینے سے خوبصورت ہوجانا خلاف واقع ہے۔ دودھ بھرے ہونے سے خوبصورتی ہوگی اور خالی ہوکر اور بدصورتی ہوجائے گی۔واللہ تعالٰی اعلم۔