Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
80 - 190
اسی میں ہے :
قال الاذرعی ومانسب الٰی اولئک الصحابۃ اکثرہ لم یثبت ولو ثبت منہ شیئ لم یظھر منہ ان ذٰلک الصحابی یبیح الغناء المتنازع فیہ فالمروی عنہ عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان غلاما دخل علیہ فوجدہ یترنم ببیت اونحو ذٰلک فعجب منہ فقال اذا خلونا قلنا کما تقول الناس فاﷲ اعلم ماکان ذٰلک البیت وما کان ترنمہ وصفتہ وصح عن عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ ماتمنیت ای زینت فاطلاق القول بنسبۃ الغناء المتنازع فیہ واستماعہ الی ائمۃ الھدٰی تجاسرولا یفھم الجاہل منہ ھذا الغناء الذی یتعا طاہ المغنون المخنثون ونحوھم وقال الشیخ الامام ابراھیم المروزی فی تعلیقہ وعن عمرو عبدالرحمٰن بن عوف وابی عبیدۃ بن الجراح وابی مسعود الانصاری انھم کانوا یترنمون بالاشعار فی الاسفار وکذٰلک عن اسامۃ بن زیدو عبداﷲ بن ارقم وعبداﷲ بن الزبیر رضی اﷲ تعالٰی عنہم والترنم کذٰلک لیس فی محل النزاع اذھو من انواع القسم الاول من القسمین السابقین وقد مر انہ لاخلاف وبہ یعلم ان الظاھر الذی یتعین القطع بہ ان غالب ماحکی عن الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم وعمن بعدھم من الائمۃ انما مومن ھذا القسم الذی لاخلاف فیہ ۱؎ وتمامہ فیہ وفیما ذکرنا کفایۃ، واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
امام اذرعی نے فرمایا ان لوگوں اور صحابہ کرام کی طرف جو کچھ منسوب کیا گیا ہے ان میں اکثر حصہ ثابت نہیں اور اگر کچھ ثابت بھی ہوجائے تو اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ صحابہ راگ متنازع فیہ کو مباح کہتے تھے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے  کہ ایک غلام ان کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے دیکھا کہ وہ خوش الحانی سے اشعار پڑھ رہے تھے اسے تعجب ہوا تو آپ نے فرمایا کہ جب ہم اکیلے اور تنہا ہوتے ہیں تو وہی کچھ کہتے ہیں جو لوگ کہتے ہیں پس اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے کہ وہ اشعار کیا تھے اور ان کا حال اور کیفیت کیا تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بصحت ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو کچھ میں گیت گاتاہوں تو اسے میں بنا سنوار لیتاہ ہوں لہذا غنا متنازع فیہ اور اس کے سننے کی اجازت کی نسبت ہدایت یافتہ اماموں کی طرف کرنا بہت بڑی جرأت ہے اور جاہل آدمی اس سے یہ غنا نہیں سمجھتا جو گانے والے ہیجڑے وغیرہ اختیار کرتے ہیں شیخ امام ابراہیم مروزی نے اپنی تعلیق میں فرمایا حضرت عمر فاروق حضرت عبدالرحمن ابن عوف، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اور حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہم یہ سب اپنے سفروں کے دوران خوش الحانی سے اشعار پرھا کرتے تھے اسی طرح حضرت اسامہ بن زید،  حضرت عبداللہ بن ارقم اور حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت ہے پس اس طرح کا ترنم محل نزاع نہیں کیونکہ وہ سابقہ دو قسموں سے پہلی قسم میں داخل ہے۔ اور پہلے یہ بیان کیا جاچکا ہےکہ اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں، اور اس سے یہ معلوم ہوا کہ ظاہر بات جس کا قطعی ہونا متعین ہو یہ ہے کہ جس کی حکایت صحابہ کرام اور ان کے بعد ائمہ حضرات کی طرف کی گئی غالبا ا سے یہی قسم مراد ہے جس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں، پوری بحث اس میں موموجود ہے اور ہم نے جو کچھ بیان کیا وہ کافی ہے اور اللہ تعالٰی پاک برتر اور سب سے بڑا عالم ہے۔ (ت)
 (۱؎ کف الرعاع عن محرمات اللہو والسماع    دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۶۷۔۶۶)
مسئلہ ۱۱۵ : از کلکتہ دھرم تلا ۱۲۴ مرسلہ جناب محمد یونس صاحب ۸رجب ۱۳۲۷ھ

علمائے دین سے سوال یہ ہے کہ اس شخص کا کیاحال ہے کہ عمرو دو زوجہ رکھتا ہے اور دونوں سے مباشرت ایک مکان میں بے پردہ کرتا ہے اور جو اس سے کہا جاتاہے تو کہتا ہے اپنی بی بی سے کیا حجاب۔
الجواب : یہ امر مکروہ وبے حیائی ہے مرد کو بی بی سے حجاب نہیں تو بی بی کو بی بی سے تو ستر فرض ہے اور حیا لازم ہے۔ بحرالرائق وفتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :
یکرہ ان یطأ احدھما بحضرۃ الاخرٰی حتی اوطلب وطاھألم یلزمھا الاجابۃ ولا تصیر فی الامتناع ناشرۃ ولا خلاف فی ھذہ المسائل ۱؎۔
دو بیویوں میں سے کسی ایک سے دوسری کی موجودگی میں ہمبستری کرنا مکروہ ہے اگر شوہر ایک بیوی سے دوسری بیوی کی موجودگی میں اس قسم کا تقاضا کرے تو بیوی کے لئے اس کا تقاضا پورا کرنا ضروری نہیں، اور اس انکار یا رکاوٹ کے سبب وہ نافرمان نہیں ہوگی۔ ان مسائل میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ (ت)
 (۱؎ بحرالرائق     کتاب النکاح    باب القسم    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۳ /۲۲۱)

(فتاوٰی ہندیہ     کتاب النکاح    الباب الحادی عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۳۴۱)
ردالمحتار شرح ملتقی اس میں امام قاضیخاں اس میں منتقی امام حاکم الشہید سے ہے :
یکرہ للرجل ان یطأ امرأتہ وعندھا صبی یعقل او اعمٰی اوضرتھا اوامتھا او اٰمتہ ۲؎۔
کسی ذی عقل وذی فہم بچے ، کسی اندھے، اپنی بیوی کی سوکن اور اپنی یا بیوی کی لونڈی کی موجودگی میں بیوی کے ساتھ ہمسبتر ہونا مرد کے لئے مکروہ ہے۔ (ت)
 (۲؎ردالمحتار      کتاب النکاح    با ب القسم         داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۴۹۲)
مسئلہ ۱۱۶ : بہیڑ ضلع بریلی مرسلہ طابل حسین خان     ۲۷ ذی الحجہ ۱۳۲۲ھ

قبر پر اذان کہنا جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان کیجئے اور ثواب حاصل کیجئے۔ ت)
الجواب : قبر پر اذان کہنے میں میت کا دل بہلتا اور اس پر رحمت الٰہی کا اترنا اور سوال جواب کے وقت شیطان کا دور ہونا اور ان کے سوا اور بہت فائدے ہیں جن کی تفصیل ہمارے رسالہ ''ایذان الاجر فی اذان القبر'' میں ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۱۷ تا ۱۲۰ :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں:

(۱) زید فجر کے بعد پانچ بجے کے مسجد میں چراغ بغرض رونق وزینت مسجد ، نہ کہ بغرض تلاوت اور مطالعہ کتب دینیہ جلادیتاہے حالانکہ روشنی کی اس وقت ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ نمازیوں کی آمد پونے چھ بجے اور جماعت بعد چھ بجے طلوع روشنی صبح صادق میں ہوتی ہے اور علاوہ اس کے سرکاری لالٹین کی روشنی تینوں دروں میں مسجد کے اور صحن میں کافی طور سے ہوتی ہے عمرو جو مہتمم قدیم مسجد کا ہے اور سیکڑوں روپیہ اپنی کوشش موفورہ سے فراہم کرکے مسجد کی ترمیم ودیگر اخراجات میں لگاتارہا ہے بلکہ اب بھی مرمت کرارہا ہے زید کو اس وقت کے فضول بلا ضرورت چراغ جلانے سے منع کرتا ہے اور کہتاہے کہ مسجد کے مال میں اسراف نہ چاہئے مگر زید نہیں مانتا پس ایسی صورت میں چراغ جلانا چاہئے یا نہیں؟

(۲) زید نے مسجد کی مرمت کے نام سے مسلمانوں سے کچھ چندہ جمع کیا اور عمرو مہتمم سے بھی دس روپیہ مرمت کے بہانے سے لئے جو اس کے پاس مرمت مسجد کے لئے رکھے تھے اس روپیہ سے اپنے چچا کی قبر جو مسجد سے باہر تھی پختہ بنواکر مسجد کے اندر داخل کرلی اور بقیہ روپیہ خورد ونوش کرلیا حساب نہیں سمجھا یا مسجد کی مرمت کا روپیہ قبر یا اپنے صرف میں لانا کیساہے اور وہ شخص شرعا کسی مواخذہ کے قابل ہے؟ بینوا توجروا۔

(۳) زید کہتا ہے کہ تلاوت قرآن مجید مسجد کے اندر گناہ ، نہیں چاہئے۔ عمرو کہتا ہے کہ گناہ نہیں ہے۔ اگر جماعت ہوتی ہو یا کوئی نماز پڑھتا ہو تو دل میں آہستہ پڑھنا اور جبکہ یہ امر مانع نہ ہوں تو بآواز پڑھنا بھی جائز ہے گناہ نہیں، زید کا قول درست ہے یاعمرو کا؟ بینوا توجروا

(۴) زید اپنا اثاث البیت مسجد کے حجرہ میں رکھ لیتا ہے جس سے مسجد کے اسباب کو پراگندگی اور مسافروں اور طلباء کو تکلیف ہوتی ہے اور بہنوئی اس کا اکثر اوقات مسجد کے اندر سورہتا ہے یہ فعل زید کا کیسا ہے؟ بینوا توجروا
الجواب

(۱) جبکہ اس وقت مسجد میں کوئی نہیں آتا چراغ جلانا فضول وممنوع ہے خصوصا جبکہ لالٹین کی روشنی ہوتی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

(۲) مسجد کے روپیہ سے اپنے چچا کی قبر پکی بنانا حرام تھا اور دھوکا دے کر لینا اور بھی سخت حرام، ایسا شخص فاسق فاجر مرتکب کبائر ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

(۳) زید کا قول غلط ہے مسجد میں قرآن عظیم کی تلاوت بیشک جائز ہے اور کسی کے نماز وظیفہ میں خلل نہ آئے تو بآواز پڑھنا بھی جائز ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

(۴) مسجد کاا سباب پر اگندہ اور مسافروں اور طلباء کوناحق تکلیف دینا حرام ہے۔ اور بے اعتکاف کے مسجد میں سونے کی اجازت نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter