فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
کان رضی اﷲ تعالٰی عنہ یقول رأیت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقلت یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیک وسلم قدوھبت لک ثواب صلاتی علیک و ثواب کذا وکذا من اعمالی ان کان ذٰلک ما اردتہ بقولک للسائل الذی قال لک (افاجعل لک ثواب صلاتی کلھا فقلت لہ ذا تکفی ھمک ویغفرلک ذنبک) فقال لی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نعم ذٰلک اردت ولکن ابق لنفسک ثواب الکذا والکذا فانی غنی عنہ ۲؎۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
وہ فرماتے تھے (اللہ تعالٰی ان سے راضی ہو) میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت کی اورآپ کی خدمت میں عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میں آپ پر جو درود پڑھتاہوں میں نے اس کا ثوآپ کو بخش دیا اور اپنے فلاں فلاں عمل کا ثواب بھی بخش دیا، اگر آپ نے یہی ارادہ کیا تھا اپنے قول سے اس سائل کے لئے جس نے آپ سے عرض کی تھی کیا میں اپنے پڑھے ہوئے تمام درود کا ثواب آپ کو دے ڈالوں؟ تو آپ نے اس سے فرمایا پھر تو یہ تیرے غموں کے لئے کفایت کرے گا اور تیرے گناہ بخش دئے جائیں گے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں میں نے یہی ارادہ کیا تھا لیکن تو اپنی ذات کے لئے اتنا اتنا ثواب باقی رہنے دے کیونکہ میں اس سے بے نیاز ہوں، اور اللہ تعالٰی پاک ، برتر اور خوب اچھی طرح جاننے والا ہے اور اس بڑی عزت والے کا علم نہایت درجہ کامل اور بڑاپختہ ہے۔ (ت)
(۲؎ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار ذکر الشیخ محمد ابوالمواہب مصطفی البابی مصر ۱/۷۳و ۷۵)
مسئلہ ۲۹ و ۳۰: از محمد گنج ضلع بریلی مرسلہ عبدالقادر خاں صاحب رامپوری ۱۹ ذیقعدہ ۱۳۱۵ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ: (۱) تین برس کے بچے کی فاتحہ دو جے کی ہونا چاہئے یا سوئم کی ہونا چاہئے؟ (۲) اگر کسی کھانے پر یا شرینی پربچے کی فاتحہ دے کر مسکینوں کو کھلادے تب اس کھانے کی فاتحہ یا شیرینی کامیت کو ثواب ملے گا یا نہیں۔ جائز ہے یاناجائز؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجرپاؤ۔ ت)
الجواب (۱) شریعت میں ثواب پہنچانا ہے دوسرے دن ہو خواہ تیسرے دن ، باقی یہ تعیین عرفی ہیں جب چاہیں کریں انھیں دنوں کی گنتی شرعی جاننا جہالت ہے وبدعت (عہ)، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
عہ : ایک نجدی شخص رامپور سے آیا منافقانہ سنی بن کر بعض استفتا کئے جن کا جواب اسی جلد میں تھا دارالافتاء سے اسے یہ جلد دی گئی کہ جواب نقل کرلے، اس نے یہ لفظ ''بدعت'' اضافہ کیا ہے سطر میں جگہ نہ پائی تو نیچے اور بین السطور ہیں، فتاوٰی گنگوہی حصہ اول میں یہ فتوٰی مع اضافہ مفتری نقل کیا اور عبارت ''جہالت ہے وبدعت'' غلط تھی جس سے ہر ذی عقل نے بھی لیا کہ یہ عبارت فتاوٰی رضویہ کی نہیں لہذا براہ چالا کی کہ وہابیہ کی شعار ہے اسے یوں بنالیا'' جہالت وبدعت ہے'' مسلمانو! وہابیہ کے یہ شیوے ہیں ۱۲۔
(۲) ضرور جائز ہے اور بیشک ثواب پہنچتاہے اہلسنت کا یہی مذہب ہے،
والصبی لاشک انہ من اھل الثواب ونصوص الحدیث وارشادات العلماء مطلقۃ لاتخصیص فیھا، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ اہل ثواب میں سے ہے (کیونکہ) حدیث شریف کی تصریحات اور علمائے کرام کے ارشادات اس میں بارے میں علمائے کرام کے ارشادات اس بارے میں مطلق مذکور ہیں (کوئی قید مذکور نہیں۔ مترجم) کہ جن میں کوئی تخصیص نہیں، اور اللہ تعالٰی پاک برتر اور سب سے زیادہ جاننے والا ہے (ت)
مسئلہ ۳۱: مسئولہ حافظ محمود حسین ۹ جمادی الاولٰی ۱۳۱۶ھ نقالوں کو دینا جیسا کہ تقریب نکاح وغیرہ میں آتے اور گھیرتے ہیں اور مانگتے ہیں دینا ان کو شرعا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : اگر انھیں ممنوعات شرعیہ سے اپنے یہاں باز رکھا جائے اور بغیر کسی امر ممنوع شرعی کی اجرت کے احسانا دیا جائے تو جائز ہے بلکہ اگر اس نیت سے دیں کہ یہ مسلمان اس مال حلال کو پاکر اکل حلال سے بہرہ مند ہوں اور شاید اس کی برکت سے اللہ تعالٰی ان کو تو بہ نصیب فرمائے تو محمود وحسن وباعث اجر ہے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی حدیث :
اللھم لک الحمد علی زانیۃ اللھم لک الحمد علی سارق ۱؎۔
یا اللہ! تیرے لئے ہی تعریف وثنا ہے کہ مال توبدکار کے ہاتھ میں گیا ، اے اللہ! تیرے ہی لئے حمد وستائش کہ مال تو چور کے ہاتھ لگ گیا۔ (ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ باب ثبوت اجر المتصدق الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۲۹)
اس پر شاہد عدل ہے اس صورت میں دینے والے کو دینا اور لینے والے کو لینا حلال وطیب ہے، عالمگیری وغیرہ میں اس کی تصریح ہے اور اگر یہ صورت ہے کہ نہ دے گا تو اسے مطعون کرتے پھرینگے اس کا مضحکہ اڑائیں گے جیساکہ ان کی عادت سے معروف ومشہور ہے تو اس صورت میں بھی اپنے تحفظ کے لئے دینا جائز وحلال ہے اگر چہ انھیں لینا حرام ہے اس کے جواز پر وہ حدیث شاہد کہ ایک شاعر نے بارگاہ رسالت میں آکر سوال کیا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ارشاد فرمایا :
اقطع عنی لسانہ ۲؎۔
میری طرف سے اس کی زبان کاٹ دے۔
(۲؎ السنن الکبرٰی کتاب الشہادات باب ماجاء فی اعطاء الشعراء دارا صادر بیروت ۱۰/ ۲۴۱)
درمختار وغیرہا میں بھی اس کا جواز مصرح ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۲ : پختنی حلوہ شب برات کی کیا تخصیص ہے؟
الجواب : یہ تخصیص عرفی ہے لازم شرعی نہیں۔ ہاں اگر کوئی جاہل اسے شرعا لازم جانے کہ بے حلوے کےثواب نہ پہنچے گا تو وہ خطا پر ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔