فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
روی البغوی باسناد صحیح عن محمد بن سیرین عن انس قال دخلت علی البراء بن مالک وھو یتغنی فقلت لہ قد ابدلک اﷲ ما ھو خیر منہ فقال اترھب ان اموت علی فراشی لا واﷲ ماکان اﷲ لیحرمنی ذٰلک وقد قتلت مانۃ منفردا سوی من شارکت فیہ ۲؎۔
امام بغوی باسناد صحیح محمد بن سیرین کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں انھوں نے فرمایا میں حضرت براء بن مالک کے پاس گیا وہ خوبصورت انداز میں اشعار پڑھ رہے تھے میں نے ان سے کہا بلاشبہہ اللہ تعالٰی نے اس کے بجائے ااپ کو وہ چیز عطا فرمائی ہے جو اس سے کہیں بہتر ہے (یعنی قرآن مجید) فرمایا کیا تمھیں یہ خوف ہے کہ میں اپنے بستر پر ہی مرجاؤں گا خدا کی قسم ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالٰی ایسا نہیں کہ مجھے شہادت سے محروم کردے ایک سو کافر تو خود میرے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ جن کے قتل میں میری شراکت اور معاونت ہوئی وہ مزید ہیں۔ (ت)
(۲؎ الاصابہ فی تمیز الصحابۃ حرف الباء ترجمہ ۶۲۰ البراء بن مالک دار صادر بیروت ۱ /۱۴۳)
امام ابن حجر مکی کف الرعاع عن محرمات اللہو والسماع میں فرماتے ہیں : قال جمع من الشافعیۃ والمالکیۃ منھم الاذرعی فی توسطہ والقرطبی فی شرح مسلم الغناء انشادا و استما عا علی قسمین القسم الاول مااعتاد الناس استعمالہ لمحاولۃ عمل وحمل ثقیل وقطع مفاوز سفر ترویحا للنفوس وتنشیطا لھا کحداء الاعراب بابلھم وغناء النساء لتسکین صغار ھن ولعب الجواری بلعیھن فھذا اذا سلم المغنی بہ من فحش وذکر محرم کو صف الخمور و الغینات لا شک فی جوازہ ولا یختلف فیہ وربما یندب الیہ اذا نشط علی فعل خیر کالحداء فی الحج الغزو، ومن ثم ارتجز صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ھوالصحابۃ رضوان اﷲ تعالٰی علیہم فی بناء المسجد وحفر الخندق وغیرھما کما ھو مشہور وقد امر النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نساء الانصار ان یقلن فی عرس لھن ؎ اتینا کم اتینا کم فحیانا وحیاکم و کالاشعار المزھدۃ فی الدنیا الراغبۃ فی الاخرۃ فھی من انفع الواعظ فالحاصل علیھا اعظم الاجر ویؤید مانقلہ من نفی الخلاف فی ھذا القسم ان ابن عبدالبر وغیرہ قالوا لاخلاف فی اباحۃ الحداء واستماعہ وھو مایقال خلف نحو الابل من الشعر سوی الرجز وغیرہ لینشطھا علی السیر ومن اوھم کلامہ نقل الخلاف فیہ فھو شاذ اومؤول علی حالۃ یخشی منھا شیئ خیر لائق القسم الثانی ماینتحلہ المغنون العارفون یصنعۃ الغناء المختارون المدن من غزل اشعر مع تلحینہ بالتلحینات الانیقۃ وتقطیعہ لھا علی النغمات الرقیقۃ التی تھیج النفوس وتطربھا کحمیا الکوؤس فھذا ھو الغناء المختلف علی اقوال العلماء احدھا انہ حرام قال القرطبی وھو مذھب مالک (الی قولہ) وھو مذھب ابی حنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ وسائر اھل الکوفۃ ۱؎۔
شوافع اور مالکیہ کے ایک گروہ نے فرمایا ان میں سے امام اذرعی نے توسط میں اور قرطبی نے شرح صحیح مسلم میں فرمایا : راگ، گانا اور سننا، اس کی دوقسمیں ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جس کے استعمال کی لوگوں کو عادت ہے کوئی کام کرتے ہوئے بھاری وزن اٹھاتے ہوئے، سفر طے کرتے ہوئے بیابان سے گزرتے ہوئے سواریوں کو تیز قدم کرنے کے لئے دیہاتیوں کا حدی خوانی کرنا، اپنا دل بہلانے اور تسکین وراحت پہنچانے کے لئے خوش الحانی کے ساتھ نغمہ سنج ہونا اور اشعار پڑھنا بشرطیکہ فحش گوئی پر مبنی نہ ہو یہ ہر گز منع نہیں، عورتوں کا بچوں کو بہلانے اور سلانے کے لئے لوریاں دینا، گیت الاپنا اور باندیوں کا کھیل تماشا کرنا بوجہ حد سے تجاوز نہ کرنے کے جائز ہے ۔ حد سے تجاوز کرنے سے مرادشراب کی تعریف، گانے والی عورتوں کا تذکرہ وغیرہ ہے۔ یہ امور اگر نہ ہوں تو حدی خوانی کے جائز ہونے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں بلکہ بعض حالات میں یہ فعل مندوب ہوتا ہے یعنی اچھے کام کے لئے راغب کرے جیسے حج، جہاد وغیرہ میں حدی خوانی یہی وجہ ےہ کہ تعمیر مسجد نبوی اور خندق کھودے جانے کے موقع پر خود آنحضرت صلی اللہ اتعالٰی علیہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے اشعار پڑھے اور نہ صرف ان دو موقعوں پر بلکہ ان کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی آپ نے اور آپ کے صحابہ نے رجزیہ اشعار پڑھے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انصار کی خواتین کو یہ حکم فرمایا تھا کہ اپنی شادیوں میں عمدہ اشعار پڑھا کریں، ''ہم تمھارے پاس آئے ہم تمھارے پاس آئے اللہ تعالٰی ہمیں بھی زندہ رکھے اور تمھیں بھی زندہ رکھے'' اسی طرح ان شعار کا استعمال بھی جائز ہے جو دنیا سے رغبت ہٹا کر آخرت کی رغبت دلانے والے ہوں، اسی قسم کے اچھے اشعار پڑھنابہترین وعظ ہے اور باعث اجر وثواب ہے اور اس کی تائید اس قول سے ہوتی ہے جو امام موصوف نے اس قسم کی نفی کی خلاف کیا کہ علامہ ابن عبدالبر وغیرہ نے کہا کہ حدی خوانی اور اس کے سننے کے مباح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں یہ وہ اشعار گوئی اور حدی خوانی ہوتی تھی جو اونٹوں کو ہانکتے وقت ان کے پیچھے پیچھے کی جاتی تھی بجز رجز وغیرہ کے، اورمقصد یہ ہوتا تھا کہ اونٹوں کو چلنے میں خوش اور چست رکھا جائے اور جو اس سلسلے میں وہم اور اختلاف نقل ہوا ہے وہ شاذ ہے یا اس کی بھی تاویل کردی گئی کہ یہ اس حالت پر محمول ہے جس میں نامناسب بات کا اندیشہ کیا گیا ہو، دوسری قسم (جس کی نسبت گانے والے کی طرف کریں) جو گانیوں کی طرف منسوب ہو، جو فن موسیقی سے ماہر ہوں شائستگی سے غزل شعر کو پسند کریں اپنے لہجہ کے ساتھ خوشنما لہجوں سے اور ان کی تقطیع کریں نغمات رقیقہ پر جونفوس کو ابھاریں اور آمادہ کریں اور انھیں شراب کے جاموں کا شوق دلائیں پس یہ وہی راگ ہے جس میں علماء کے اقوال مختلف ہیں ان اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ وہ حرام ہے۔ علامہ قرطبی نے فرمایا کہ امام مالک کا یہی مذہب ہے بلکہ فرمایا کہ یہی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور باقی اہل کوفہ مذہب ہے۔ (ت)
(۱؎ کف الرعاع عن محرمات اللہو والسماع دارالکتب العلمیہ بیروت ص۵۹ تا ۶۱)