فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
اشعار حسنہ محمودہ کا پڑھنا جن میں حمد الٰہی ونعت رسالت پناہی جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ومنقبت آل واصحاب واولیاء وعلمائے دین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین بروجہ صحیح اور نجیع مقبول شرعی یا ذکر موت وتذکیر آخرت واہوال قیامت وغیر ذٰلک مقاصد شرعیہ ہو قطعا جائز وروا اور خود زمانہ اقدس حضور پر نورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے آج تک تمام ائمہ دین وعباد اللہ الصالحین میں رائج دیا ہے۔
صحیح بخاری شریف میں ام المومنین صدیقہ بنت الصدیق صلی اللہ تعالٰی علٰی زوجہا الکریم و ابیہا وعلیہا وسلم سے ہے :
قالت کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان اﷲ یؤید حسان بروح القدس مانا فح او فاخر عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے مسجد اقدس نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں منبر بچھاتے حسان اوپر کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل ومفاخر بیان کرتے حضور کی طرف سے طعنا ئے کفا کا رد کرتے رسول اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے جب تک حسان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طر ف سے اس مفاخرت یا مدافعت میں مشغول رہتاہے اللہ عزوجل جبریل امین سے اس کی مدد فرماتا ہے۔
(۱؎ احیاء العلوم بحوالہ صحیحین کتاب آداب السماع والوجد مطبعۃ المشہد الحسینی ۲ /۲۷۴)
پھر ظاہر کہ وعظ کے اشعار حدیث کے ترجمے اس قسم میں داخل ہیں تو ایسی شعر خوانی کا جواز بالیقین ہے اور جب خوش الحانی خودقرآن عظیم میں مطلوب ومندوب ہوئی تویہ شعر ہے یہاں اگر الحان کے لئے مدقصر وحرکات وسکنات وغیرہ ہئیات حروف میں کچھ تغیر بھی ہو تو حرج نہیں جب کہ صرف سالہ دہ خوش الحانی ہوا ور تمام منکرات شرعیہ سے خالی اس قدر بھی احکام شدید مذکورہ تکفیر و زوال نکاح میں تقریبا ویسی ہی ناپاکی وبیباکی ہے حلال کو حرام مسلمان کو کافر بتانا کس شریعت نے مانا اس قدر کو عرف میں پڑھنا کہتے ہیں نہ کہ گانا کہ موسیقی کے اوزان مقررہ نغمان محررہ طرقات مطربہ قرعات معجبہ اتار چڑھاؤ زیرو بم تان گٹکری تال سم کی رعایت سے رنڈیوں ڈومنیوں مراثیوں ڈھاریوں نقالوں قوالوں وغیرہم میں معمول اور باوضع شرفاء مہذبین صنعا میں معیوب ومخذول محمود ومباح اشعار کا سادہ خوش الحانی سے پڑھنا بھی زمانہ صحابہ وتابعین وائمہ دین مجوزہ مقبول ہے بلکہ خود بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے ماثور ومنقول بلکہ خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے ہونا حضور سنتے اور انکار نہ فرماتے بارگاہ رسالت میں حدی خوانی پر صحابہ مقرر تھے۔کہ اپنی خوش الحانیوں دلکش صدی خوانیوں سے اونٹوں کو راہ روی میں وارفتہ بناتے، انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے برادر اکرم سیدنا براء بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ خود موکب اقدس کے حدی خواں تھے عجب آواز دلکش رکھتے اور بہت خوبی سے اشعار حدی پڑھتے یہ اجلہ صحابہ کرام سے ہیں بدر کے سوا سب مشاہد میں حاضر ہوئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی نسبت فرمایا : بہت الجھے بال میلے کپڑے والے جن کی کوئی پروا نہ کرے ایسے ہیں کہ اللہ عزوجل پر کسی بات میں قسم کھالیں تو خدا ان کی قسم سچی ہی کرے انھیں میں سے برادر بن مالک ہے ۱؎''
(۱؎ جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب البراء بن مالک امین کمپنی دہلی ۲ /۶۲۶)
ایک روز انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کے پاس گئے اس وقت اشعار اپنے الحال سے پڑھ رہے تھے انھوں نے کہا کہ آپ کو اللہ عزوجل نے وہ چیز عطا فرمائی جو اس سے بہتر یعنی قرآن عظیم فرمایاکیا یہ ڈرتے ہو کہ بچھونے پر مروں گا خدا کی قسم اللہ مجھے شہادت سے محروم نہ کرے گا سو کا فر تو میں نے نہا قتل کئے ہیں اور جو شرکت میں مارے ہیں وہ علاوہ ۲ جب خلافت امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں قلہ تستر پر جہاد ہوا ہے اور مسلمانوں کو سخت دقت پیش آئی حدیث مذکور سنے ہوئے تھے ان سے کہا اپنے رب قسم کھائے انھوں قسم کھائی کہ اے رب میرے! کافروں پر ہمیں قابوں دے کہ ہم ان کی مشکیں کس لیں اور مجھے اپنے نبی سے ملا، یہ کہہ کر حملہ آور ہوئے اور ان کے ساتھ مسلمانوں نے حملہ کیا ایرانیوں کا سپہ سالار ہر مزان مارا گیا کافر بھاگ گئے اور براء شہید ہوئے رضی اللہ تعالٰی عنہ ۳؎، اور بیبیوں کے ہودجوں پر انجشہ حبشی رضی اللہ تعالٰی عنہ حدی خوانی کرتے ان کی خوش آوازی مشہور تھی حجۃ الوداع شریف میں حدی پڑھی ہے اور اونٹ گرمائے بہت تیز چل نکلے، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اے انجشہ! آہستہ ، شیشیوں کے ساتھ نرمی کر ۴؎، شیشیوں سے مراد عورتیں ہیں، یعنی اونٹ اتنے تیز نہ کروکہ تکلیف ہوگی یا عورتوں کا مجمع ہے خوش الحانی حد سے نہ گزارو، ان کے سوا سیدنا عبداللہ بن رواحہ سیدنا عامر بن الاکوع رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آگے حدی خوانی کرتے چلتے،
(۲؎ الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ترجمہ البراء بن مالک دارصادر بیروت ۱ /۱۴۳) (۳؎الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ترجمہ البراء بن مالک دارصادر بیروت ۱ /۱۴۳) (شرح الزرقانی علی المواھب اللدینہ المقصد الثانی الفصل السابع دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۳۷۷) (۴؎شرح الزرقانی علی المواھب اللدینہ المقصد الثانی الفصل السابع دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۳۷۷)
روز عمرۃ القضاء جب لشکر ٖظفر پیکر محبوب اکبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باہزاراں جاہ وجلال داخل مکہ ہوا ہے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ آگے آگے رجز کے اشعار سناتے کافروں کے جگہ پر تیر رساتے جارہے تھے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے منع کیا کہ اے ابن رواحہ! رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آگے اور اللہ جل جلالہ کے حرم کیں یہ شعر خوانی۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : پڑھنے دو کہ یہ ان پر تیروں سے زیادہ کار گر ہے۔ اور ایک حدیث میں آیا ارشد فرمایا : اے عمر! ہم سن رہے ہیں تم بھی خاموش رہو بالجملہ ممانعت منازعت جو کچھ ہے گانے میں ہے یا معاذاللہ اشعار ہی خود بُرے ہوں اگر چہ بظاہر نعت و حقیقت کا نام ہو جیسے بے قیدوں کے خلاف شرع شعر کو توہین انبیائے کرام وملائکہ عظام علیہم الصلٰوۃ والسلام بلکہ تنقیص شان سیدالانام علیہ وعلی آلہ افضل الصلٰوۃ والسلام بلکہ گستاخی وبے ادبی بار گاہ عزت ذی الجلال والاکرام کچھ اٹھانہ رکھیں اور نعت و منقبت کا نام بد نام یا محل محل فتنہ خواہ فطنہ فتنہ ہو جیسے زن اجنبیہ کا مردوں کے جلسے میں خوش الحانی کرنا یا خارج سے امور نامشروعہ کا قدم درمیان ہو مثلا مزامیر ، تالیاں، لچکا، توڑا، بھاؤ، بتانا جیسے آج کل بعض بے شرم واعظان نیچری مشرب آزادی مذہب نے اپنی مجلس گرم کرنے کا اندازبنا رکھا ہے۔ اشعار گائیں مثنوی مولانا روم کے اور رنگ رچائیں مثنوی میر حسن کی دھوم کے الی غیر ذٰلک من المحذورات والمجتنبۃ والمحظورات المتجلیۃ (ا سکے علاوہ اجتناب کردہ محرمات اور لائے ہوئے ممنوعات ہیں۔ ت) یہ تیرہ وتیرہ برت کہ جو چاہے حلال کو حرام کرے ورنہ سادہ خوش الحانی کے ساتھ جائز شعر خوانی کے جواز میں اصلا جائے کلام نہیں بلکہ اشعار مجموعہ بہ نیت محمودہ اعمال محمودہ ہیں معدود باعث اجر وضائے رب ودود ہیں۔
مواہب اللدنیہ وشروح علامہ زرقانی میں ہے:
کان یحدوبین یدیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام فی السفر عبداﷲ بن رواحۃٰ الامیر المستشھدبموتۃ ای یقول الحداء بضم المھملۃ وھو ا لغناءللابل (وفی الترمذی عن انس انہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دخل مکۃ فی عمرۃ القضیۃ (ابن رواحۃ یمشی بین یدیہ ویقول ؎ خلو بنی الکفار عن سبیلہ الیوم نضربکم علی تنزیلہ ضربا یزیل الھام عن مقیلہ ویذھل الخلیل عن خلیلہ فقال عمر یا ابن رواحۃ بین یدی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وفی حرم اﷲ تقول الشعر فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خل عنہ یا عمر فلھی فیھم اسرع من نضح النبل، وفی روایۃ انہ لما النبل وفی روایہ انہ لما انکر عمر علیہ قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا عمرانی اسمع فاسکت یا عمر (وعامر بن اکوع) کان یحدو بین یدیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم (واستشھد یوم خیبر و انجشہ العبد الاسود) کان حسن الحداء وفی الصحیح عن انس کان حسن الصوت (قال انس ) فی الصحیحین (کان براء بن مالک) اخو انس شہد المشاھد الا بدرا قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ربّ اشعث اغبر لایؤبہ لہ لواقسم علی اﷲ لابرہ، منھم البراء بن مالک قال انس فلما کان یوم تستر من بلاد فارس انکشف الناس فقال المسلمون یابراء قسم علی ربک فقال اقسم علیک یار ب لما منحتنا اکتافھم و الحقتنی بنبیک فحل وحمل الناس معہ فقتل ھر مزان من عظماء الفرس واخذ سلبہ وانھزم الفرس وقتل البراء رواہ الترمذی والحاکم وذٰلک فی خلاصۃ عمر سنۃ عشرین ،(ایحدو بالرجال وانجشہ بالنساء وقد کان یحدو وینشد القریض والرجز) وفی الصحیحین عن انس ان انجشہ حدا بالنساء فی حجۃ الوداع فاسرعت الابل فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا انجشۃ رفقا بالقواریر، (ای النساء فشبھھن بالقواریر من الزجاج لانہ یسرع الیھا الکسر فلم یأمن علیہ الصلٰوۃ والسلام ان یقع فی قلوبھن حداؤہ وقیل نھاہ لان النساء یضعفن عن شدۃ الحرکۃ) قال الدمامینی وحملہ ھذا اقرب الی ظاھر لفظہ من الحمل علی الاول ۱؎ اھ ملخصا۔
حضرت عبداللہ بن رواحہ سفر میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سامنے حدی خوانی کیا کرتے تھے یہ امیر لشکر تھے جو غزوہ موتہ شہید ہوئے کان یحدو ای یقول الحداء بعضم المھملۃ وھو الغناء للابل )یعنی "کان یحدو "کے معنی ہیں وہ اونٹوں کی تیز رفتاری کے لئے خوش الحانی سے گیت گایا کرتے تھے، الحداء بے نقطہ صرف ''ح'' کی پیش کے ساتھ اونٹوں کے لئے گیت گانے کوکہا جاتاہے جامع ترمذی میں حضرت انس سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عمرۃ القضاء کی ادائیگی کے لئے مکۃ المکرمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ آپ سے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ اے کفار کی اولاد! ان کا راستہ کھلا چھوڑ دو آج ہم تمھیں ایسی مارمارینگے کہ کھوپڑیاں تن سے جدا ہوجائیں گی اور دوست اپنے دوست کو بھول جائیگا، اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا :کیا تو رسول اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے ان کے روبرو اللہ کے حرم میں اشعار پڑھتاہے، حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے عمر! اسے چھوڑ دو کہ یہ رجزیہ اشعار دشمن پر تیر اندازی سے بھی زیادہ موثر ہیں اور دوسری روایت میں ہے کہ جب عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انکار فرمایا تو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عمرو! میں تو سن رہا ہوں لہذا تم خاموش رہو، اور حدیث عامر بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے حدی خوانی کیا کرتے تھے اور یہ خیبر میں شہید ہوئے اور حضرت انجشہ حبشی غلام تھے یہ بہتر ین حدی خواں تھے صحیح میں ہے حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت انجشہ کی آواز خوبصورت تھی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت ہےفرمایا : حضرت براء بن مالک (جو حضرت انس کے بھائی تھے) سوائے بدر کے تمام غزوات میں حاضر رہے اور آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا بہت سے لوگ بکھرے ہوئے بالوں والے خاک الود ، جن کی کوئی پروا نہیں کرتا (عنداللہ) ایسے (اہم ) ہیں کہ اگر کسی معاملے میں اللہ تعالٰی کی قسم کھابیٹھیں تو اللہ تعالٰی ان کی قسم سچی کردیتاہے، اور انہی میں سے ایک براء بن مالک بھی ہیں۔ حضرت انس نے فرمایا کہ ایران میں قلعہ تستر پر جس دن حملہ کیا گیا لوگ تتر بتر ہوگئے اس موقع پر حضرت براء سے کہا گیا کہ اپنے پروردگا کے بھروسا پر اس کی قسم کھائیں، چنانچہ حضرت براء نے قسم کھائی اور فرمایا : اے میرے پرودگار! میں تیری ذات کی قسم کھاکر کہتاہوں کہ تو نے ہمیں کافروں کے کندھے باندھنے کی طاقت بخشی اور تو نے مجھے اپنے نبی مکرم سے ملایا ہے۔ اس کے بعد حضرت براء نے عام لوگوں کے ساتھ مل کر ایرانیوں پر حملہ کیا ان کا سپہ سالار ہر مزان ماراگیا ایرانیوں کو شکست ہوئی اور فرار ہونے لگے اس کا سامان قبضے میں لے لیا گیا اور حضرت براء شہید ہوگئے ، امام ترمذی اور حاکم نے اس کو روایت کیا ۔ یہ معرکہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دورخلافت میں ۲۰ھ میں ہوا، حضرت براء مردوں کے لئے حدی خوانی کیا کرتے تھے جبکہ انجشہ عورتوں کے کجاووں کے قریب جا کر حدی خوانی کرتے، چنانچہ بخاری ومسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت ہے کہ حضرت انجشہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عورتوں کی سواریوں کے پا س جا کر حدی خوانی کی ، جس کے نتیجے میں اونٹ تیز رفتار ہوگئے، اس پر حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا اے انجشہ! کانچ کی شیشیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو، تمھیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمھارے ساتھ کانچ کی شیشیاں (بوتلیں) بھی ہیں (مراد عورتیں ہیں) کہیں جلدی ٹوٹ نہ جائیں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عورتوں کو کانچ کی بوتلوں سے تشبیہ دے کر یہ اشارہ فرمایا وہ حدی خوانی اور خوش الحانی سے متاثر نہ ہوجائیں اور یہ مفہوم بھی ہے کہ سواریوں کے بوجہ حدی خوانی تیز رفتار ہوجانے سے وہ کہیں گھبرانہ جائیں کیونکہ وہ فطرتا کمزور ہوتی ہیں، علامہ دمامینی نے فرمایا اس کو ظاہری الفاظ پر حمل کرنا بنسبت قول اول کے زیادہ مناسب ہے اور موزوں ہے اھ ملخصا (ت)
(۱؎ المواھب اللدینہ المقصد الثانی الفصل الرابع ۲ /۱۶۳ وشرح الزرقانی علی المواھب للدنیۃ ۳ /۳۷۶ و ۳۷۷)