Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
77 - 190
اسی میں ہے :
اما تحسین الصوت فلا اظن ان قائلا مایمنعہ لعدم وجہہ بل کان جماعۃ من السلف یطلبون من اصحاب القرأۃ بالاصوات الحسنۃ ان یقرؤا وھم یستمعون وھذا متفق علی استحبابہ وھو عادۃ الاخیار والمتعبدین وعباداﷲ الصالحین ۲؎۔
جہاں تک اچھی اور خوبصورت آواز کا تعلق ہے تو میں نہیں خیال کرتا کہ کوئی اس سے منع کرتا ہو اس لئے کہ اس ممانعت کی کوئی وجہ نہیں بلکہ سلف میں ایک جماعت ایسی ہونی ہے جو پڑھنے والوں سے اچھی آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے کا مطالبہ اور تقاضہ کیاکرتی تھی تاکہ وہ لطف اندوز ہوں چنانچہ اس کے مستحب ہونے پر اتفاق پایا جاتاہے اور یہ اچھے لوگوں، عبادت گزاروں اور اللہ تعالٰی کے نیک بندوں کی عادت اور روش رہی ہے۔ (ت)
 (۲؎فتاوٰی خیریہ    کتاب الکراھیۃ والاستحسان   دارالمعفرۃ بیروت    ۲ /۱۷۷)
تو ایسے امر محمود ومسعود کی تحسین پر جو خود ائمہ رسول کو محبوب اورباجماع صحابہ وتابعین وائمہ دین  مستحسن ومندوب ہے معاذاللہ کفر وبطلان نکاح کا حکم دینا خیال کیجئے کہاں تک پہنچتاہے فرق اجماع امت ہے تکفیر جملہ امت کی خبر دیتاہے۔ خود ان قائلوں کو چاہئے کہ بعد توبہ اپنی عورتوں سے نکاح جدید کریں ہاں معاذاللہ بالقصد راگنی پر قرآن عظیم ٹھیک کرنا اس کی درستی کو بے جگہ مدیا حرکت یا غنہ وغیرہا بڑھانا گھٹانا تانیں لینا یہ ضرور حرام اور اس کی تحسین اس پر سبحانہ اللہ وافریں اس سے زیادہ حرام تر ومجمع آثام ہے والعیاذ باللہ تعالٰی( اللہ تعالٰی کی پناہ۔ ت)
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اقرؤا القراٰن بلحون لعرب واصواتھا ویاکم ولحون اھل الکتابین واھل الفسق فانہ سیجیئ بعدی قوم یرجعون بالقراٰن ترجیع الغناء والرھبانیۃ والنوح لایجاوز حناجرھم مفتونۃ قلوبھم وقلوب من یعجبھم شانھم رواہ الطبرانی ۱؎ فی الاوسط والبیھقی فی الشعب عن حذیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
قرآن مجید عرب کے لحنوں میں پڑھو اور یہود ونصارٰی اہل فسق کے لحنوں سے بچو کہ میرے بعد کچھ لوگ آنے والے ہیں جو قرآن آ آ کرکے پڑھیں گے جیسے گانے کی تانیں اور راہبوں اور مرثیہ خوانوں کی اتار چڑھاؤ قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا یعنی ان کے دلوں پر کچھ اثر نہ کرے گا فنتے میں ہوں گے ان کے دل اور جنھیں ان کی یہ حرکت پسند آئے گی ان کے دل، (طبرانی نے الاوسط میں اور بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کو روایت کیا ہے۔ ت)
 (۱؎ المعجم الاوسط    حدیث ۷۲۱۹     مکتبہ المعارف ریاض    ۸ /۱۰۸)

(شعب الایمان     حدیث ۲۶۴۹     دارالکتب العلمیہ بیروت    ۲ /۵۴۰)
تیسیر شرح جامع الصغیر میں ہے :
 (واھل الفسق) من المسلمین الذین یخرجون القراٰن عن موضوعہ بالتمطیط بحیث یزید اوینقص حرفا فانہ حرام اجماعا ۲؎۔
مسلمانوں میں فاسق وہ لوگ ہیں جو قرآن مجید کی تلاوت اور آدائیگی میں کمی بیشی کرتے ہیں یعنی الفاظ وحروف گھٹا یا بڑھا دیتے ہیں اور ایسا کرنابالاتفاق حرام ہے۔ (ت)
 (۲؎ التیسیرشرح الجامع الصغیر     حرف الہمزۃ تحت حدیث اقراء القرآن     مکتبہ الامام الشافعی الریاض    ۱ /۱۹۴)
خیریہ میں بعد عبارت مذکورہ سابقا ہے:
ثم قال (ای فی التبیان) قال العلماء رحمہم اﷲ یستحب تحسین الصوت بالقراء ۃ تزیینھا مالم یخرج عن حد القرأۃ بالتمطیط فان افرط حتی زاد حرفا اواخفاہ نھو حرام انتھی فان قلت ماتصنع فیما نص علیہ فی البزازیۃ وغیرھا من کتاب الاستحسان قراء ۃ القراٰں بالالحان معصیۃ والتالی والسامع اٰثمان قلت محلہ اذ اخرج لفظ القراٰن عن صیغتہ بادخال حرکات فیہ اواخراج حرکات منہ او قصر ممدود او مد مقصور اوتمطیط یخفی بہ القظ او یلبس بہ المعنی فھو دراء یفسق بہ القاری ویأثم بہ المستمع لانہ عدل بہ عن نھجہ القویم الی الاعو جاج واﷲ تعالٰی یقول قراٰنا عربیا غیر ذی عوج وان لم یخرجہ اللحن عن لفظہ قرأتہ علی ترتیلہ کان مباحا لانہ زاد بالحانہ فی تحسینہ ویؤید ذٰلک تفسیر کثیر من علمائنا التغنی فی کلام ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما فی الاذان بالتطریب الذی ھو اخراج الکلام عن موضوعہ الاصلی و صیغتہ واماتحسین الصوت فلا اظن ان قائلا ما یمنعہ ۱؎ الی اٰخر مامر۔
پھر تبیان میں فرمایا علماء کرام (اللہ تعالٰی ان پر رحم فرمائے) کہتے ہیں کہ خوبصورت آواز کے ساتھ قرآن مجید کو بنا سنوا ر کر پڑھنا مستحب ہے بشرطیکہ قراءت کی حد سے تجاوز نہ کرتے ہوئے باہر نہ نکلے پھر اگر اس نے افراط سے کام لیا یعنی کوئی حرف بڑھا دیا یا کم اور پست کردیا تو ایسا کرنا حرام ہے اھ اگر تو یہ کہے کہ بزازیہ وغیرہ کی ''کتاب الاستحسان'' میں بیان کردہ صراحت کا کیا جواب ہوگا جس میں یہ مذکور ہے کہ قرآن مجید غیرموزوں لہجوں کے ساتھ بگاڑ کر پرھنا گناہگار ہوں گے، میں کہتاہوں اورجواب دیتا ہوں کہ اس کا محل یہ ہے کہ جب لفظ قرآن کو اس کے مخرج سے نکالتے ہوئے اس میں کچھ حرکات داخل یا خارج کردے یا حروف ممدودہ کو مختصر کردے یا غیر ضروری درازی کردے جس سے لفظ کی ہیئت بدل جائے یا اس کے معانی میں اشتباہ پیدا ہوجائے تو ایسا کرنا حرام ہے اس طرح کاپڑھنے، والا فاسق اور سننے والا گنہ گار ہوگا کیونکہ اس طرح کرنے سے اس نے اس لفظ کو اس کے درست مقام سے ہٹا کر بدل ڈالا، جبکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ یہ عربی زبان میں قرآن ہے جس میں بالکل کجی اور ٹیڑھا پن نہیں ہے۔ اور اگر لہجہ اس لفظ کو اس کی ترتیل کے مطابق پڑھتے ہوئے نہ نکالے تو یہ مباح ہے کیونکہ اس نے اپنے لہجہ سے اس کے حسن میں اضافہ کیا ہے اور اس کی تائید تغنی کی اس تفسیر سے ہوتی ہے جو متعدد علماء کرام نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے کلام التطریب فی الاذان سے فرمائی ہے یعنی وہ اذن میں تطریب کیا کرتے تھے، اور اصل تطریب کلام کو اس کے ٹھکانے اور صیغے سے نکالنے کا نام ہے (اوریہاں صرف خوش الحانی سے آواز بلند کرنا ہے) ریا تحسین صوت (آواز کو بنا سنوار کرخوبصورت بنا کر پڑھنا) میراخیال ہے کہ کوئی بھی اس کو منع کرنے والا نہ ہوگا۔ پھر آخر تک وہی کلام دہرایا گیا جو گزر چکا ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ  کتاب الکراھیۃ والاستحسان   دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۱۷۷)
Flag Counter