فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۱۱۲ و ۱۱۳ : از ملک بنگالہ ضلع کمرالہ ڈاکخانہ چاند پور مرسلہ منشی عبدالرحمن ۱۹ ربیع الآخر ۱۳۱۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ : (۱) ایک مجلس میں چند آدمی ہوکر قرآن مجید ساتھ آواز بلند کے ہایا خفی کے پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ (۲) قرآن مجید کو چند آدمی مل کر اس طور پر پڑھنا کہ ایک آدمی کو ئی سورت کے نصف یا رُبع یا ایک دو آیت شروع کردے باقی آیتوں کو باقی لوگ انتہائے سورت تک ختم کردیں پس میں آواز ملا کر تقریر جائز ہے یانہیں؟ بینوا بالدلیل مع حوالۃ الکتب توجروا بالتحقیق (بحوالہ کتب دلیل کے ساتھ بیان کرو تاکہ یقینی طو ر پر اجر وثواب کے مستحق قرار پاؤ۔ ت)
الجواب (۱) قرآن مجید پڑھا جائے اسے کان لگا کر غور سے سننا اور خاموش رہنا فرض ہے:
قال اﷲ تعالٰی واذا قرئ القراٰن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر (بغور ) سنو اور خاموشی اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۷ /۲۰۴)
علماء کو اختلاف ہے کہ یہ استماع وخاموش فرض عین ہے کہ جلسہ میں جس قدر حاضر ہوں سب پر لازم ہے کہ ان میں جو کوئی اس کے خلاف کچھ بات کرے مرکتب حرم وگنہگار ہوگا یا فرض کفایہ ہے کہ اگر ایک شخص بغور متوجہ ہو کر خاموش بیٹھا سن رہا ہے تو باقی پر سے فرضیت ساقط، ثانی اوسع اور اول احوط ہے۔
فی ردالمحتار فی شرح المنیۃ والاصل ان الاستماع للقراٰن فرض کفایۃ لانہ لاقامۃ حقہ بان یکون ملتفتا الیہ غیر مضیع وذٰلک یحصل بانصات البعض الخ نقل الحموی عن استاذہ قاضی القضاۃ یحیٰی شھیرۃ بمنقاری زادہ ان لہ رسالۃ حقق فیھا ان استماع القراٰن فرض عین ۲؎۔
دوسرے قول میں زیادہ وسعت اور گنجائش ہے جبکہ پہلے قول میں زیادہ احتیاط ہے ردالمحتار میں شرح منیہ کے حوالے سے فرمایا اصل یہ ہے کہ قرآن مجید سننا (شرعا) فرض کفایہ تاکہ اس کا حق قائم ہوجائے اس کی صورت یہ ہے کہ اس کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو اس کو ضائع نہ کرے اور بعض کے خاموش رہنے سے بھی یہ مقصد حاصل ہوجاتاہے الخ۔ علامہ حموی سے بھی یہ مقصد حاصل ہوجاتاہے الخ۔ علامہ حموی نے اپنے استاذ قاضی القضاۃ یحیٰی سے (جو منقاری زادہ کے نام سے مشہور تھے) نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنے رسالہ میں تحقیق فرمائی کہ قرآن مجید کا سننا فرض عین ہے۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتا ب الصلٰوۃ فصل فی القرأۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۶۷۔۳۶۶)
اقول : وباللہ التوفیق (میں اللہ تعالٰی کے توفیق دینے سے کہتاہوں۔ ت) ظاہر یہ ہے واللہ تعالٰی اعلم کہ اگر کوئی شخص اپنے لئے تلاوت قرآن عظیم بآواز کررہا ہے اور باقی لوگ اس کے سننے کو جمع ہوئے بلکہ اپنے اغراض متفرقہ میں ہیں تو ایک شخص تالی کے پاس بیٹھابغور سن رہاہے ادائے حق ہوگیا باقیوں پر کوئی الزام نہیں، اوراگر وہ سب اسی غرض واحد کے لئے ایک مجلس میں مجتمع ہیں تو سب پر سننے کا لزوم چاہئے جس طرح نماز میں جماعت مقتدیان کہ ہر شخص پر استماع وانصات جداگانہ فرض ہے یا جس طرح جلسہ خطبہ کہ ان میں ایک شخص مذکر اور باقیوں کو یہی حیثیت واحدہ تذکیر جامع ہے تو بالاتفاق ان سب پر سننا فرض ہے نہ یہ کہ استماع بعض کافی ہو جب تذکیر میں کلام بشیر کا سننا سب حاضرین پر فرض عین ہوا تو کلام الٰہی کاا ستماع بدرجہ اولٰی۔
ولا یفرق بافتراض الخطبۃ و رودالامر بقولہ تعالٰی فاسمعوا الی ذکر اﷲ ۱؎ بخلاف التلاوۃ فان المعتمد وجوب الاستماع لکل خطبۃ ولو خطبۃ ختم القراٰن ولو خطبۃ النکاح کما فی ردالمحتار وغیرہ من الاسفار وان حملنا القولین علی ماذکرنا من الصورتین یحصل التوفیق۔
خطبہ کی سماعت فرض ہونے میں اللہ تعالٰی کے اپنے اس ارشاد ''فاسمعوا الی ذکر اﷲ'' ( اللہ تعالٰی کے ذکر (خطبہ) کی طرف جلدی سے جاؤ) میں امروارد ہونے سے فرق نہ کیا جائے گا بخلاف تلاوت کے کیونکہ سماع خطبہ میں ہر خطبہ شامل ہے اور سماعت واجب ہے خواہ ختم قرآن کا خطبہ ہو یا خطبہ نکاح ہو جیسا کہ فتاوٰی شامی وغیرہ بڑی کتابوں میں مرقوم ہے۔ اگر ہم دوقولوں کو ان دو صورتوں پر حمل کریں کہ جنھیں ہم نے (پہلے بیان کردیا تو دونوں اقوال میں موافقت پیدا ہوجائے گی۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶۲ /۹)
بہر حال اس قدر میں شک نہیں کہ قرآن عظیم کا ادب وحفظ حرمت لازم اور اس میں لغو ولغط حرام و ناجائز پس صورت اولٰی میں جہاں مقصود تلاوت وختم قراٰن ہے۔ نہ حاضرین کو سنانا اگرسب آہستہ پڑھیں کہ ایک کی آواز دوسرے کو نہ جائے تو عین ادب واحسن واجب ہے ۔ اس کی خوبی میں کیا کلام، اور اگر چند آدمی بآواز پڑھ رہے ہیں یوں ہی قاری کے پاس ایک یا چند مسلمان بغور سن رہے ہیں اور ان میں باہم اتنا فاصلہ ہے کہ ایک کی آواز سے دوسرے کا دھیان نہیں بٹتا تو قول اوسع پر اس میں بھی حرج نہیں اوراگر کوئی سننے والانہیں، یا بعض کی تلاوت بعض اشخاص سن رہے ہیں بعض کی کوئی نہیں سنتا یا قریب آوازیں مختلف ومختلف ہیں کہ جدا جدا سننا میسرہی نہ رہا تو یہ صورتیں بالاتفاق ناجائز و گناہ ہیں اور صورت ثانیہ میں جہاں مقصود سنانا ہے اگر قول احوط پر عمل کیجئے تو چند آدمیوں کا معا آواز سے پڑھنا صریح حرام ہے اوراگر توفیق مذکور پر نظر کی جائے تو جب بھی یہ صورت سب پر لزوم خاموشی کی ہے اور اگر اس سے قطع نظر کرکے قول اوسع ہی لیجئے تاہم اس صورت کے بدعت وشنیع ہونے میں کلام نہیں۔ آوازیں ملاناگانے وغیرہ کے مناسب حال ہے۔ قرآن عظیم میں یہ ایک نوپیدا امر ہے جس کے لئے دین میں کوئی اصل نہیں اور اس کی تجویز وتزویج میں ایک اور فتنہ عظیم کا اندیشہ صحیحہ ہے آوازیں بنا کر آوازیں ملا کر آوازیں ملا کر گانے کی طرح قرآن پڑھناہوگا تو ایسے لوگ عبارت کو اپنے لہجوں پر منطبق کرنے کے لئے جگہ جگہ آواز گھٹانے بڑھانے کے عادی ہوتے ہیں نظم میں خیریت ہے قرآن عظیم میں جب ایسا اتار چڑھاؤ کیا جائے گا قطعا اجماعا حرام ہوگا لہذا ہر طرح سے ممانعت ہی لازم ہے۔
عالمگیری میں ہے :
یکرہ للقوم ان یقرو ا القراٰن جملۃ لتضمنھا ترک الاستماع والا نصات الما مور بھما ۱؎ اھ اقول وبما قراٰن تبیین ان روایۃ القنیۃ ھذہ ھی التی ینبغی اختیار ھا فیما نحن فیہ دون رواتھا الاخری لاباس باجتماعہم علی قراء ۃ الاخلاص جھرا عند ختم القراٰں ولو قرأ واھد واستمع الباقون فھو اولی ۲؎ اھ فافھم واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
لوگوں کے لئے قرآن مجید کو جملۃ (یعنی بغیر وقفہ کے) پڑھنا مکروہ ہے اس لئے کہ یہ ترک سماع اور ترک سکوت پر مشتمل ہے حالانکہ دونوں مامور بہ ہیں اھ میں کہتاہوں کہ جو کچھ ہم نے (قارئین کے روبرو) پڑھا اس سے ظاہر ہوگیا کہ قنیہ کی یہی روایت ہماری اس بحث میں اختیار کرنے کے قابل اور مناسب ہے نہ کہ دوسری روایت (کہ جس میں یہ آیا ہے کہ) ختم قرآن کے وقت کسی مجلس اور اجتماع میں سورہ اخلاص بلند آواز سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر ایک شخص پڑھے اور باقی سنیں تو یہ زیادہ بہتر ہے اھ۔ اللہ تعالٰی پاک برتر اور سب سے زیادہ علم والا ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراھیۃ الباب الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۱۷) (۲؎ القنیۃ المنیۃ لتتمیم الغنیہ کتاب الکراھیۃ والاستحسان باب القرا ء ۃ والدعاء مطبوعہ کلکتہ انڈیا ص۱۵۱)
مسئلہ ۱۱۴ : از بڑودہ ملک گجرات محلہ مغلواڑہ نعلبند وان کاچورہ مکان استاد غریب اللہ ملازم راجہ بڑودہ مرسلہ مولوی محمد اسرار الحق صاحب دہلوی ۷ رجب المرجب ۱۳۱۷ھ افضل العماء واکمل الکملاء آیۃ من آیات اللہ برکۃ من برکات اللہ مجدد دین نائب سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضرت مولانا صاحب بریلوی معظمنا ومکرمنا ادامہ اللہ المنان علی رؤس اھل الایمان من الانس والجان بطول حیاتہٖ من بعد آداب تسلیمات خادمانہ دست بستہ معروض خدمت فیٖضد رجت بوجہ تکلیف دہی جناب قبلہ وکعبہ یہی ہے کہ یہاں ایک بہت بڑا فساد ایک امر میں پھیلا ہوا ہے اور فیصلہ اس کا یہاں علماء وجہلا نے آں قبلہ کی تحریر مبارک پر رکھا ہے لہذا جناب تکلیف فرمایا کر اس کا جواب مع دلائل روانہ فرمائیں۔ نحمدہ، ونصلی علی رسول الکریم، کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس باب میں کہ ایک شخص واعظ ہے اور وعظ کے درمیان اشعار مدحیہ نبوت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خوش الحانی کے ساتھ پڑھتا ہے یا وعظ میں حدیثوں کا ترجمہ لحن کے ساتھ نظم میں پڑھتا ہے اور درمیان میں قرآن شریف کی آیات کا لحن عرب میں پڑھتاہے۔ آیا اس طرح کا پڑھنے والا گنہگار تو نہ ہوگا؟ اور کوئی شخص قرآن شریف کو ذرا بھی لحن کے ساتھ پڑھے گا یا قصائد حسنہ وترجمہ حدیث نظم کو جیسے کہ اکثر اطفال وجوان وپیر قصائد وغیرہ زور سے پڑھتے ہیں اور اسی کے سننے والے اگر اس پر تعریف کریں یا واہ واہ یا سبحان اللہ کہیں گے تو کافر ہوجائیں گے اور ان کی عورتیں نکاح سے باہر ہوجائیں گی یا نہیں؟ یہبات صحیح ہے یا غلط؟ بینواتوجروا
الجواب : یہ حکم تکفیر وزوال نکاح صریح غلط وخطا سخت مردود وناسزا شرع مطہرہ پر کھلا افتراء مسلمانوں کو ناحق ناروا ۔ کافر بنائنے پر اجترا ہے۔ ایسا کہنے والوں پر توبہ فرض ہے قرآن عظیم خوش الحانی سے پڑھنا جس میں لہجہ خوشنما دلکش پسندیدہ، دل آویز، غافل دلوں پر اثر ڈالنے والا ہو، اور معاذاللہ رعایت اوزان موسیقی کے لئے ہیئت نظم قرآنی کو بدلا نہ جائے، ممدود کا مقصور مقصور کا ممدود نہ بنایا جائے ، حروف مد کو کثیر فاحش کشش جسے اصطلاح موسیقیان میں تان کہتے ہیں نہ دی جائے زمزمہ پیدا کرنے کے لئے بے محل غنہ ونون نہ بڑھا جائے ،غرض طرز ادا میں تبدیل وتحریف راہ نہ پائے بیشک جائز ومرغوب بلکہ شرعا محبوب ومندوب بلکہ بتاکید اکید مطلوب اعلٰی درجہ کی زمانہ صحابہ وتابعین وائمہ دین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے آج تک اس کے جواز واستحسان پر اجماع علماء ہے۔