Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
74 - 190
اسی عالمگیری میں اسی فتاوٰی قاضی خاں سے یہ نہ تھا:
تکرہ البان الا تان للمرض وغیرہ وکذٰلک لحومھا وکذٰلک التداوی بکل حرام ۱؎۔
گدھی کا دودھ اور گوشت مرض وغیرہ کسی میں مباح نہیں اور ایسے ہی حرام چیز سے علاج علاج۔
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ         کتاب الکراھیۃ الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۵۵)
اسی عالمگیری میں اسی ہدایہ سے یہ تو نہ تھا :
لایجوز ان یداوی بالخمر جرحا اودبر دابۃ ولا ان یسقی ذمیا ولا ان یسقی صبیا للتداوی والوبال علی من سقاہ ۲؎۔
جائز نہیں کہ شراب سے کسی زخم یا جانور کی لگی ہوئی پیٹھ کا علاج کرنے نہ کسی ذمی کافر کو پلانا جائز نہ دوا کے لئے بچے کو پلانا اور بچے کو پلانا میں وبال پلانے والے پر ہے۔
 (۲؎فتاوٰی ہندیہ         کتاب الکراھیۃ   الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۵۵)
غیر مقلد صاحبو! خدارا انصاف ، جو ائمہ دین تمھارے حقنہ کے لئے بھی کسی ناپاک چیز کا استعمال جائز نہ جانیں وہ قرآن عظیم کی آیات کا ناپاک چیز سے لکھنا کیسےجائز بتائیں گے، ذرا خدا سے ڈر کر بات کیا کرو ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم ، واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (گناہوں سے محفوظ رہنے اور نیکی کرنے کی طاقت کسی میں نہیں بجز علم والا ہے اور اس کا علم جس کی شان عظیم ہے سب سے زیادہ کامل اور نہایت پختہ ہے۔ ت)
مسئلہ ۱۱۰ : از علیگڑھ ۱۵ رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں قبلہ رو اپنی عورت سے صحبت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب : اگر کپڑا اوڑھے ہے بدن چھپا ہوا ہے تو کچھ حرج نہیں اور اگر برہنہ ہے تو ایک تو برہنہ جماع کرنا خود مکروہ،  حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وقت جماع مردوزن کو کپڑا اوڑھ لینے کا حکم دیا اور فرمایا :
ولایتجردان تجرد العیر ۳؎
گدھے کی طرح برہنہ نہ ہو۔
 (۳؎ کنز العمال         بحوالہ ابن سعد حدیث ۴۴۸۶۳     موسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۶/ ۳۴۸)
دوسرے بحالت برہنگی قبلہ کو منہ یا پیٹھ کرنا دوسرا مکروہ وخلاف ادب۔
فی الدرالمختار کرہ تحریما استقبال قبلۃ واستدبارھا الاجل بول اوغائط فلو للاستنجاء لم یکرہ ۱؎ فی ردالمحتار تحریما لما فی المنیۃ ان ترکہ ادب ولما مر فی الغسل ان من اٰدابہ ان لایستقبل القبلۃ لانہ یکون غالبا مع کشف العورۃ حتی لو کانت مستورۃ لاباس بہ ولقولھم یکرہ مدالرجلین الی القبلۃ فی النوم وغیرہ عمدا وکذا فی حال مواقعۃ اھلہ اھ ۲؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار کےآداب استنجاء میں ہےکہ پیشاب اور پاخانہ کی ضرورت کے وقت قبلہ رخ ہوکر یا اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا مکروہ تحریمی ہے اور اگر استنجاء کے لئے بیٹھنا پڑے تو مکروہ نہیں۔ ردالمحتار میں ہےلم یکرہ یعنی مکروہ تحریمی نہیں اس لئےکہ منیۃ المصلی میں ہے استنجا کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرنا مستحب ہے، بحث غسل میں گزرا ہےکہ غسل کرنے میں ادب اور مستحب یہ ہے کہ قبلہ کی طرف منہ نہ کرے، کیونکہ وہ غالبا کشف عورت کے ساتھ ہوگا (یعنی غسل کرتے وقت اسی کی شرمگاہ ننگی ہوگی حتی کہ اگر شرمگاہ پوشیدہ اور ڈھکی ہوئی ہو تو کچھ حرج نہیں) اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے نیند وغیرہ میں دانستہ طور پر قبلہ کی طرف پاؤں پھیلانا مکروہ ہے اسی طرح اپنی بیوی سے ہمبستری کے وقت (پاؤں پھیلانا) ۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ درمختار     کتاب الطہارۃ   فصل الاستنجاء     مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۵۷)

(۲؎ ردالمحتار   کتاب الطہارۃ   فصل الاستنجاء      داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۲۲۷)
مسئلہ ۱۱۱ :  ۶ ربیع الثانی ۱۳۱۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں اکثر مساجد میں رنڈیاں چراغ جلاتی ہیں آیا انکا چراغ مسجد میں جلانا جائز ہے یاناجائز؟
الجواب :  اس قوم کی عادت سنی گئی کہ ایسے مصارف خیر میں جو کچھ صرف کریں اپنے مال خبیث سے نہیں ہوتا بلکہ قرض لے کر صرف کیا جاتا اور اس کا معاوضہ اپنے مال سے دیا جاتاہے اوراگر ایسا ہے جب تو اس کے جواز میں اصلا شبہ نہیں اور اس امر میں کہ یہ صرف اپنے مال سے نہیں قرض سے ہے اس کا قول مقبول ومسموع ہے کما نص علیہ فی الہندیۃ من الکراھیۃ وغیرھا وبیناہ فی فتاونا جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری بحث کراہت وغیرہ میں اس کی تصریح ہے اور ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کو بیان کیا ہے۔ ت) اور اگر یہ صورت نہ ہو بلکہ وہ تیل یا چراغ بعینہٖ انھیں اجرت افعال محرمہ میں ملے ہیں تو حرام ہیں، اسی طرح اگر اپنے حرام مال سے یوں خریدے کہ وہ مال حرم بائع کے سامنے پیش کیا کہ اس کے عوض مثلا تیل دے دے اس نے دے دیا اس نے وہی مال حرام ثمن میں دیا جب بھی امام کرخی کے قول مفتٰی بہ پر وہ خرید کی ہوئی چیز حرام وخبیث اور اگر ایسا نہیں بلکہ مطلقا تیل وغیرہ بغیر کسی مال حرام کے دکھائے خریدا اگر قیمت دیتے وقت وہی مال حرام دیا جیسا کہ غالب خرید وفروخت کا یہی دستور ہے تو دو قول مصحح ومفتٰی بہ پر وہ چیزخرید کردہ حلال ہے۔
کما بینہ فی الدرالمختار واوضحہ الامام عبدالغنی النابلسی فی الحدیقۃ الندیۃ وفصلناہ فی الحظر من فتاوٰنا۔
جیسا کہ درمختار میں اس کا بیان فرمایا اور امام عبدالغنی نابلسی نے اس کو ''الحدیقۃ الندیہ'' میں واضح فرمایا اور ہم نے اپنے فتاوٰی کی بحث حضر واباحت میں اس کو مفصل بیان کردیا ہے (ت)

اور اگر حالت معلوم نہ ہو تو فتوٰی جواز اور تقوٰی احتراز۔
کما افادہ فی الھندیۃ عن الذخیرۃ عن الامام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ واوضحنا فی فتاوٰنا بما یتعین المراجعۃ الیہ۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری بحوالہ ذخیرہ امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کا افادہ پیش کیا اور ہم نے اپنے فتاوٰی میں اسے ایسے طریقہ سے واضح کیا کہ اس کی طرف مراجعت سے وہ متعین ہوجاتاہے، اور اللہ تعالٰی پاک برتر اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (ت)
Flag Counter