Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
73 - 190
کان نبی من الانبیاء یخط فمن وافق خطہ فذاک رواہ مسلم ۲؎ فی صحیحہ واحمد ابودؤد والنسائی عن معاویۃ بن الحکم رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بعض انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کچھ خط کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں ان کے خطوں سے موافق ہوں وہ ٹھیک ہے (امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں امام محمد ، ابوداؤد اور نسائی نے معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کو روایت کیا ہے۔ ت)
 (۲؎ صحیح مسلم     کتاب المساجد باب تحریم الکلام فی الصلٰوۃ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۰۳)
اب اس حدیث سے ٹھہرادینا کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے رمل پھینکنے کی اجازت دی ہے حالانکہ حدیث صراحۃ مفید ممانعت ہے کہ جب حضورا قدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کا جواز مواقف خط انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام سے مشروط فرمایا اور وہ معلوم نہیں تو جواز بھی نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب الصلٰوۃ باب تحریم الکلام میں زیر حدیث مذکور فرماتے ہیں :
معناہ من وافق خطہ فھو مباح لہ ولکن لاطریق لنا الی العلم الیقینی بالموافقۃ فلا یباح والمقصود انہ حرام لانہ لایباح الابیقین بالموافقۃ ولیس لنا یقین بھا ۱؎۔
حدیث پاک کا مفہو م اور مراد یہ ہے کہ جس آدمی کی لکیریں بعض انبیاء کرام کی لکیروں کے موافق ہوجائیں تو اس کے لئے (علم رمل) مباح ہے لیکن حصول موافقت کے لئے ہمارے پاس یقینی علم تک رسائی کاکوئی راستہ نہیں لیکن علم مذکور (ہمارے لئے) مباح نہیں اور مقصد یہ ہے کہ وہ حرام ہے کیونکہ یقینی موافقت کے بغیر وہ مباح نہیں ہوسکتا اور یقنی موافقت کا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ (ت)
 (۱؎ شرح صحیح البخاری للنوعی مع صحیح مسلم     کتا ب المساجد باب تحریم الکلام فی الصلٰوۃ        ۱ /۲۰۳)
یعنی مقصود حدیث تحریم رمل ہےکہ اباحت بشرط موافقت ہے۔ اور وہ نامعلوم تو اباحت معدوم ۔ علامہ علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں :
حاصلہ ان فی ھذا لزمان حرام لان الموافقۃ معدومۃ او موھومۃ ۲؎۔
یعنی حاصل حدیث یہ ہے کہ رمل اس شریعت میں حرام ہے کہ موافقت معدوم ہے یا موہوم۔
 (۲؂ مرقاۃ المفاتیح   شرح مشکوٰۃ االمصابیح     کتاب الصلٰوۃ  باب مالایجوز من العمل الخ     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۳ /۶۴)
اسی میں امام ابن حجر سے انھوں نے اکثر علماء سے نقل فرمایا :
لایستدل بھذا الحدیث علی اباحتہ لانہ علق الاذن فیہ علیہ موافقۃ خط ذٰلک النبی صلی موافقۃ غیر معلومۃ فاتضح تحریمہ ۳؎۔
یعنی اس حدیث سے رمل کی اباحت پر استدلال نہ کیا جائے کہ اس میں تو اجازت ان نبی کے خط سے موافقت پر موقوف فرمائی ہے اور یہ موافقت معلوم نہیں تو اس کا حرام ہونا روشن ہوگیا۔
 (۳؎مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ االمصابیح     کتاب الصلٰوۃ   باب مالایجوز من العمل الخ         مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۳ /۶۴)
بعینہٖ یہی حالت اس قول علماء کی ہے کہ جب اجازت کتابت علم شفا سے مشروط فرماتے ہیں اور وہ معدوم یا موہوم ہو تو اباحت معدوم۔
ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ ولی التوفیق ثم بعد کتا بتی لھذا المحل الشامی نقل عن البحر عن الفتح مانصہ واھل الطب یثبتون لبن البنت نقعا لوجع العین واختلف المشائخ فیہ قیل لا یجوز وقیل یجوز العلم انہ یزول بہ الرمد ولا یخفی ان حقیقۃ العلم متعذرۃ فالمراد اذا غلب علی الظن والاظھر معنی المنع ۱؎ اھ
یونہی تحقیق کرنی چاہئے اور اللہ تعالٰی ہی توفیق کا مالک ہے۔ پھر میں نے یہ جگہ لکھنے کے بعد فتاوٰی شامی کو دیکھا اس میں بحرالرائق بحوالہ فتح القدیر نقل کیا کہ جس کی اس نے تصریح فرمائی کہ اہل طب نے لڑکی کے دودھ کو درد کے لئے مفید قراردیا ہے اور مشائخ کرام نے اس میں اختلاف کیا ہے __________ چنانچہ کہاگیا ہے کہ یہ جائز نہیں، اور یہ بھی کہا گیا کہ جائز ہے۔ جبکہ یہ علم ہوجائے کہ ا سے درد چشم زائل ہوجائے گا لیکن یہ پوشیدہ نہیں کہ حقیقت علم تک رسائی مشکل ہے اور مراد یہ ہے کہ جب غالب گمان ہو ورنہ یہی منع کا مفہوم ہے۔ اھ
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب النکاح     باب الرضاع    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۴۰۴)
اقول :  وانت تعلم ان لاوجہ فیما نحن فیہ بغلبۃ الظن ایضا فھو معنی المنع قطعا وھذا عین مافھمت وﷲ الحمد۔
اقول : (میں کہتاہوں) کہ تم جانتے ہو کہ یہاں غلبہ ظن کی کوئی وجہ نہیں لہذا یہی قطعی طور پر مفہوم منع ہے اور یہ بعینہٖ وہی ہے جس کو میں نے سمجھا، اور خدا ہی کے لئے تمام خوبیاں ہیں۔ (ت)

سادسا طرہ یہ کہ معترض نے چوتھی صدی کے ایک فقیہ کاقول بہزاران عیار سب شرائط اڑا کر طرح طرح کی تہمت وبہتان کے ساتھ فقیہ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ پر بزعم خود اعتراض جمانے کے لئے نقل کیا، اور اسی درمختار و ردالمحتار وقاضی خاں وعالمگیری وغیرہا عامہ کتب معتمدہ مذہب متون و شروح وفتاوٰی میں جوخود ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اصل مذہب کہ ظاہرالروایۃ ومعتمد فی المذہب ہے اور اس پر تصریحات کثیرہ ہیں وہ سب اڑا گیا کہ بے علم بیچاروں کو دھوکے دے کہ امام الائمہ امام اعظم  معاذ اللہ ایسے موحش حکم دیتے تھے  معترض اگر کچھ پڑھا لکھا ہے اور اس نے ان کتابوں کے نام کسی سن کریا رجمایا بالغیب آنکھیں بند کرکے نہ لکھ دے تو ایمان سے کہے کہ اسی درمختار میں یہیں یعنی کتاب الطہارۃ میں یہ عبارت تو نہ تھی اختلف فی التداوی بالحرام وظاھر المذھب المنع ۲؎ حرام چیز دواء استعمال کرنے میں اختلاف ہے اور ہمارے ائمہ کا اصل مذہب ظاہر الروایۃ کہ جائز نہیں۔
 (۲؎ الدالمختار     کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۳۸)
اسی درمختارکتاب الرضاع میں یہ عبارت تو نہ تھی :
فی البحر لا یجوز التداوی بالمحرم فی ظاھر المذھب ۱؎۔
یعنی بحرالرائق میں ہےکہ مذہب حنفی ظاہر الروایہ میں حرام چیز سے علاج کرنا جائز نہیں۔
 (۱؎ درمختار     کتاب النکاح باب الرضاع    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۲۱۲)
اسی درمختار میں کتاب الحظروالاباحۃمیں یہ عبارت تو نہ تھی:
جاز الحقنہ للتداوی بطاھر لا بنجس وکذا کل تداو  لا یجوز ۲؎۔
حقنہ بغرض دوا پاک چیز سے جائز ہے ناپاک سے نہیں، اسی طرح کوئی علاج ناپاک چیز سے جائز نہیں۔
 (۲؎ درمختار     کتاب الحظروالاباحۃ    فصل فی البیع    مطبع مجتبائی دہلی  ۲ /۲۴۲)
اسی ردالمحتار میں بحوالہ درمنتقی قول جواز ذکر کرکے یہ تو نہ تھا کہ المذھب خلافۃ ۳؎ مذہب حنفی اسی قول کے جواز کے خلاف ہے۔
(۳؎ ردالمحتار  کتاب الحظروالاباحۃ    فصل فی البیع     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۴۹)
اسی عالمگیری میں یہ عبارت تو نہ تھی :
تکرہ ابوال الابل ولحم الفرس للتداوی کذا فی الجامع الصغیر ۴؎۔
اونٹ کا پیشاب اور گھوڑے کا گوشت دوا میں بھی مکروہ ہے ایسا ہی جامع صغیر میں امام محمد میں ہے۔
 (۴؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الکراھیۃ  البا ب الثامن عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۵۵)
اسی میں یہ تو نہ تھا :
قال لہ الطیب الحاذق علتک لا تندفع الا باکل القنفذ اوالحیۃ اودواء یحل فیہ الحیۃ لایحل اکلہ ۵؎۔
  یعنی ساہی یا سانپ یا ایسی دوا جس میں سانپ ڈالا جائے علاج کے لئے بھی کھانا حلال نہیں۔ اگر چہ حکم حاذق کہے کہ تیرا مرض بغیر اس کے نہ جائے گا۔
 (۵؎فتاوٰی ہندیہ     کتاب الکراھیۃ البا ب الثامن عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۵۵)
Flag Counter