Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
72 - 190
اس عبارت سے واضح کہ فقیہ ممدوح سے اس حالت کا سوال ہوا تھا کہ کسی کے دماغ سے ناک کی راہ خون جاری ہے اور کس طرح نہیں تھمتا اس حالت میں اس کی جان بچانے کو اگر خون یا بول سے لکھیں تو اجازت ہے یانہیں؟ فقیہ موصوف نے فرمایا اگر اس سے شفا ہو جانا معلوم ہو تو مضائقہ نہیں اور اس کی نظیر یہ بتائی گئی کہ پیاس سے جان جاتی ہو اور سوا شراب کے کوئی چیز موجود نہیں یا بھوک سے دم نکلتا ہو اور سوا مردار کے کچھ پاس نہیں تو اس وقت بمقدار جان بچانے کے شراب ومردار کے استعمال کی شرع مطہر نے رخصت دی ہے تو فقیہ موصوف کا یہ حکم حقیقۃ تین شرطوں سے مشروط تھا :

اول یہ کہ جان جانے کا خوف ہو، جیساکہ عبارت قاضی خان فلا یرقا دمہ (اس کا خون بند نہ ہو۔ت) سے ظاہر ہے اور اسی ردالمحتار میں کہ اس کا نام بھی معترض نے گن دیا۔
عبارت یوں ہے :
نص مافی الحاوی القدسی اذا سال الدم من انف انسان ولا ینقطع حتی یخشی علیہ الموت ۲؎۔
 (حاوی قدسی میں تصریح فرمائی) یعنی خون ناک سے جاری ہے اور نہیں تھمتا یہاں تک کہ اس کے مرجانے کا اندیشہ ہو۔
(۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ   باب المیاہ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۴۰)
دوم اس تدبیر سے اسے شفا ہوجانا بھی معلوم ہو جیسا کہ عبارت قاضی خاں لوکان فیہ شفاء ۱؎ (اگر اس میں شفا ء معلوم ہو۔ ت) سے ظاہر،
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں     کتاب الحظروالاباحۃ     نولکشور لکھنؤ        ۴ /۷۸۰)
اور اسی ردالمحتار میں بعد عبارت مذکورہ ہے : وقد علم انہ لو کتب ینقطع ۱؎ بتحقیق معلوم ہو کہ لکھا جائے تو خون منقطع ہوجائے گا
 (۲؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ   باب المیاہ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۴۰)
سوم اس کے سوا کوئی اور تدبیر شفا نہ ہو جیساکہ عبارت قاضی خاں حال الاضطرار سے ظاہر،
اور اس ردالمحتار میں ہے :
فی النھایۃ عن الذخیرۃ یجوز ان علم فیہ شفاء ولم یعلم دواء اٰخر ۳؎۔
 (نہایہ میں ذخیرہ کے حوالے سے ہے) جب جائز ہے کہ اس سے شفا ہوجانا معلوم ہو اور دوسری کوئی دوا نہ معلوم ہو۔
 (۳؎ردالمحتار         کتاب الطہارۃ     باب المیاہ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۴۰)
اسی میں ہے :
ھذا لمصرح فی عبارۃ النھایۃ کما مرولیس فی عبارۃ الحاوی الا انہ یفاد من قولہ کما رخص الخ لان حل الخمر والمیتۃ حیث لم یوجد مایقدم مقامھما ۲؎۔
عبارت نہایہ میں یہ تصریح کی گئی جیسا کہ بیان گزر چکا ، لیکن عبارت حاوی قدسی میں یہ تصریح موجود نہیں مگر یہ کہ اس کے قول ''کما رخص'' سے افادہ کیا جائےا لخ اس لئے کہ شراب اور مردار (وہاں) حلال ہیں جہاں کوئی نعم البدل نہ پایا جائے لہذا بصورت دیگر وہ حلال نہیں (ت)
 (۴؎ردالمحتار         کتاب الطہارۃ     باب المیاہ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۴۰)
اہل انصاف غور کریں کہ جو حکم ان تین شرطوں کے ساتھ مشروط ہو جن کے بعد اس میں اصلا استبداد نہیں کہ الضرورات تبیح المحظورات (ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں۔ ت) شرع وعقل وعرف سب کا مجمع علیہ قاعدہ ہے ان تمام شرائط کو اڑا کر مطلقا یوں کہہ دینا کہ ان کتابوں میں لکھا ہے کہ قرآن شریف کی آیت کا پیشاب سے لکھنا جائز ہے کون سی ایمان وامانت ودین ودیانت کا مقتضا ہے یہ تو ایسا ہوا کہ کوئی کافر نصرانی یہودی بک دے کہ قرآن مجید میں سور کھانا حلال لکھا ہے۔ اور ثبوت میں یہ آیت پیش کرے کہ : فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ ۱؎۔ پھر کوئی بیقرار ہوگیا بشرطیکہ بغاوت اور زیادتی کرنیوالا نہ ہو تو اس پر (مردار کھالینے کا) کوئی گناہ نہیں۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم      ۲ /۱۷۳)
یا کوئی مردود نیچری یُوں جَھک کمارے کہ کفر کے بول بولنا اللہ تعالٰی نے جائز فرمادیا ہے اور سند میں یہ آیت سناد ے کہ:
الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان ۲؎۔
مگر اس کو کلمہ کفر کہنے کی اجازت ہے کہ جس کو مجبور کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو۔ (ت)
 (۲؎القرآن الکریم    ۱۶/ ۱۰۶)
ان مفتری کذابوں سے یہی کہا جائے گا کہ قرآن عظیم نے تو سوئر کھانا اور کلمہ کفر بکنا قطعی حرام کئے ہیں یہ تیرا محض افتراء وبہتان ہے، ہاں دم نکلتا ہو اور کچھ اور میسر نہیں تو جان بچانے کو حرام چیز کھانے کی اجازت دینی یا کوئی ظالم بغیر کفر کے ظاہر کئے مارے ڈالتا ہو یا آنکھیں پھوڑتا یا ہاتھ پاؤں کاٹتا ہو تو دل میں خاص ایمان کے ساتھ حفظ جسم وجان کے لئے کچھ ظاہر کرنے کی رخصت فرمائی یہ قطعا حق وعین رحمت ومصلحت ہے اور اسے تیرا اس طور پر تعبیر کرنا یقینا بہتان وصریح شرارت وخباثت ہے بعینہٖ یہی جواب ان غیر مقلد صاحبوں کے اعتراض کا سمجھ لیجئے۔

خامسا فقیر کہتا ہے غفر اللہ تعالٰی لہ اگر اللہ عزوجل نظر غائر وقت شناس نصیب فرمائے تو عندالتحقیق ا س کلام علماء کا مرجع ومآل صاف ممانعت ہے نہ تجویز واجازت کہ وہ شرط فرماتے ہیں کہ جب اس سے شفاء ہوجانا معلوم ہو حالانکہ اس علم کا کوئی ذریعہ نہیں، اگرعلم  بمعنی یقین لیجئے جب تو ظاہر کہ یقین تو ظاہر وواضح ومجرب ومعقول الا ثرداؤں میں بھی نہیں نہایت کارظن ہے۔
اسی ردالمحتار میں ہے :
قدعلمت ان قول الاطباء ولا یحصل بہ العلم ۳؎۔
بیشک تو نے جان لیا کہ طبیبوں کے قول سے علم حاصل نہیں ہوتا۔ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار   کتاب الطہارۃ باب المیاد   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۱۴۰)
اور اگر ظن کو بھی شامل کیجئے تو یہ لکھنا غایت درجہ از قبیل رقیہ ہوگا نہ از قبیل معالجات ورضحہ طبیہ اور علماء تصریح فرماتے ہیں کہ ایسے معالجات سے شفاء معلوم ہونا درکنار مظنون بھی نہیں صرف موہوم ہے۔
اسی عالمگیری میں فصول عمادی سے ہے :
الاسباب المزیلۃ للضرر تنقسم الی مقطوع بہ کالماء للعطش والخبز للجوع والی مظنون کا لفصد والحجامۃ وشرب المسھل وسائر ابواب الطب یعنی معالجۃ البرودۃ بالحرارۃ ومعالجۃ الحرارۃ بالبرودۃ وھی الاسباب الظاھرۃ فی الطب والی موھوم کالکی والرقیۃ ۱؎۔
جن اسباب سے ضرور دور ہوتاہے وہ دو قسم کے ہیں (۱) یقینی جیسے پانی پیاس دورکرنے کے لئے اور کھانا بھوک کو رفع کرنے کے لئے (۲) ظنی، جیسے خون نکلوانا، پچھنے لگوانا، جلاب آور دوا پینا اور دیگر ابواب طب یعنی سردی کا گرمی سے علاج کرنا، اور گرمی کا سردی سے، اور علم طب میں یہ ظاہری اسباب ہیں اور وہمی اسباب جیسے داغ لگانااور جھاڑ پھونک یعنی دم کرنا۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الکراھیۃ  الباب الثامن عشر   نورانی کتب خانہ پشاور  ۵ /۳۵۵)
تو دیکھو علمائے تصریح فرمائی کہ یہ لکھنا جائز جب ہو کہ اس سے شفاء معلوم ہو اور ساتھ ہی یہ بھی تصریح فرمائی کہ اس سے شفا ء معلوم نہیں تو کیا حاصل یہ نکلا کہ یہ لکھناجائز ہے یا یہ کہ ہر گز جائز نہیں صحیح حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے دربارہ رمل سوال ہوا ارشاد فرمایا :
Flag Counter