Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
71 - 190
مسئلہ ۱۰۹ : از اوجین محلہ مرزا واڑی مرسلہ شیخ آفتاب حسین وشیخ حامد علی صاحبان ۲۱ محرم الحرام ۱۳۱۵ھ

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم الحمد اﷲ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی رسول محمد والہ واصحابہ اجمعین۔
اللہ تعالٰی کے مقدس نام سے شروع جو بیحد رحم کرنے والا مہربان ہے، سب تعریف اس اللہ تعالٰی کے لئے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے اور درود وسلام اس کے رسول مقبول پر ہو اور ان کی تمام اولاد اور ساتھیوں پر۔ (ت)
اما بعد گزارش خاکسار یہ کہ چند مسئلہ کتب فقہیہ امام اعظم صاحب علیہ الرحمۃ مثل ہدایہ شرح وقایہ وفتاوی قاضی خاں ودرمختار وردالمحتار وفتاوٰی علمگیری وفتاوٰی برہنہ وفتاوٰی سراجیہ خلاف حدیث رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں من جملہ مسائل خلافیہ کے ایک یہ مسئلہ اس میں لکھا ہے کہ قرآن شریف کی آیت کا پیشاب سے لکھنا جائز ہے میں اس کا ثبوت دے سکتا ہوں یہ عبارت کتب مذکورہ میں ہے یا اتہام؟ اس کے حق میں کیا حکم ہے؟ بیان فرمادیں۔ (محمد رفیع الدین)
الجواب : الحمد ﷲ رب العالمین وافضل الصلٰوۃ واکمل السلام علی سید المرسلین سیدنا ومولانا محمد والہٖ واصحابہ وعلماء امتہ و مجتہدی ملتہ اجمعین اٰمین۔
تمام خوبیاں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو پرورش کرنے والا ہے تمام جہانوں کی، اور سب سے بہتر درود اور سب سے کامل سلام رسولوں کے سردار پر ہو جو ہمارے آقا ومولا محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہیں، اور ان کی آل اصحاب، علمائے امت اور مجتہدین مذہب ان سب پر (بالواسطہ) درود وسلام ہو۔ آمین،

اقول :  وباللہ التوفیق (میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتاہوں، ت) معترض نے اس عبارت میں متعدد طور پر دھوکے دینے سے کام لیا ہے۔

اولا ایہام کیا کہ ہدایہ وغیرہ سب کتب مذکورہ میں یہ مسئلہ لکھا ہے۔ حالانکہ نہ ہدایہ میں اس کا پتا نہ شرع وقایہ میں نشان، نہ درمختار میں وجود، نہ عالمگیری میں ذکر بول موجود، یہ سب معترض صاحب مغالطہ دہی ہے فتاوی برہنہ فقیر کے پاس نہیں۔ نہ وہ کوئی معتبر کتابوں میں معدود۔

ثانیا سراجیہ میں اس کے بعد صراحۃ لکھ دیا لکن لم ینقل ۱؎ مگر یہ منقول نہ ہوا، اسی طرح ردالمحتار ۲؎ میں نقل فرمایا۔ تو ان کی طرف حکم جواز کی نسبت کردینی محض افترا ہے حکم کسی شرط پر مشروط کرکے وجود شرط حکم کو تسلیم نہ کرنا ہے نہ کہ حکم دینا کما لایخفی علی جاھل فضلا عن فاضل (جیسا کہ کسی ان پڑھ سے بھی پوشیدہ نہیں چہ جائیکہ کسی فاضل سے پوشیدہ ہو۔ ت)
 (۱؎ فتاوٰی سراجیہ     کتاب الکراھیۃ  باب التداوی والعلاج     نولکشور لکھنؤ    ص۷۵)

(۲؎ ردالمحتار         کتاب الطھارۃ      باب  المیاہ      داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۱۴۰)
ثالثا فتاوٰی قاضی خاں میں صاف بتادیا کہ یہ مسئلہ نہ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد ہے نہ ان کے اصحاب کا، نہ شاگردان کا نہ شاگردان شاگرد کے کسی شاگرد کا، بلکہ شیخ ابوبکر اسکاف بلخی کا قول ہے کہ چوتھی صدی کے مشائخ سے تھے وہ بھی نہ اس طور پر جس طرح معترض نے بیان کیا جیسا کہ عنقریب آتا ہے تو اس کے باعث یہ ایہام کرنا کہ فقہ امام اعظم کا یہ حکم ہے صحیح فریب دہی ہے۔
رابعا فتاوٰی قاضی خان کی عبارت یہ ہے :
الذی رعف فلا یرقا دمہ فاراد ان یکتب بدمہ علی جبھتہ شیئا من القراٰن ، قال ابوبکر الاسکاف رحمہ اﷲ تعالٰی یجوز قیل لوکنت بالبول، قال لوکان فیہ شفاء لابأس بہ قیل لوکتب علی جلد میتۃ قال ان کان فیہ شفاء جاز وعن ابی نصر بن سلام رحمہ اﷲ تعالٰی معنی قولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام ان اﷲ لم یجعل شفاء کم فیما حرم علیکم انما قال ذٰلک فی الاشیاء التی لایکون فیہ شفاء فاما اذا کان فیہا شفاء فلا بأس بہ قال الاتری ان العطشان یحل لہ شرب الخمر حال الاضطرار ۱؎۔
جس شخص کی نکسیر آئے کہ خون بند نہ ہو پھر اس نے اپنے خون سے قرآن مجید کا کوئی حصہ اپنی پیشانی پر لکھنے کا ارادہ کیا ہو (تو شرعا کیا حکم ہے) ابوبکر اسکاف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ جائز ہے۔ پھر ان سے پوچھا گیا اگر پیشاب سے لکھے (تو پھر کیا حکم ہے) فرمایا اگر اس میں شفاء معلوم ہو تو کچھ حرج نہیں، پھر کہا گیا کہ اگر مردار کی کھال پر لکھے، توفرمایا اگر اس میں بھی شفاء معلوم ہو تو جائز ہے۔ ابوالنصر بن سلام رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ارشاد کہ '' بے شک اللہ تعالٰی نے جو کچھ تم پر حرام فرمایا ہے اس میں تمھارے لئے شفا نہیں رکھی'' کا مفہوم یہ ہےکہ یہ ان چیزوں سے متعلق ہے جن میں فی الواقع شفاء نہیں لیکن جن میں شفا موجود ہے تو ان کے استعمال میں کیا حرج ہے کیا تم دیکھتے نہیں کہ پیا سے آدمی کے لئے اضطراری حالت میں شراب کا پینا بھی حلال ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں     کتا ب الحظروالاباحۃ     نولکشور لکھنؤ    ۴ /۷۸۰)
Flag Counter