Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
70 - 190
فی ردالمحتار الاظھر والاحوط القول الثالث ای کراہتہ فی التفسیر دون غیرہ ۲؂ وتمامہ فیہ عن السراج عن الایضاح لا یجوز مس موضع القراٰن منھا ۳؎ الخ۔
ردالمحتار (فتاوٰی شامی) میں ہے کہ زیادہ ظاہر اور زیادہ احتیاط تیسرے قول میں ہے یعنی کتب تفسیر کو بے وضو ہاتھ نہ لگانا جبکہ دوسری کتابوں کوہاتھ لگانے میں کراہت نہیں الخ اور اس کی پوری بحث ردالمحتار میں سراج بواسطہ ایضاح سے منقول ہے کتابوں میں جہاں قرآن مجید کا کوئی حصہ لکھا ہو وہاں ہاتھ لگانا جائز نہیں الخ (ت)
 (۲؎ردالمحتار     کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت  ۱/ ۱۱۹)

(۳؎ردالمحتار     کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۱۱۸ و ۱۱۹)
اور بسم اﷲ کہ شروع پرلکھتے ہیں غالبا اس سے تبرک وافتتاح تحریر مراد ہوتا ہے۔ نہ کتابت آیات قرآنیہ، اور ایسی جگہ تغییر قصد سے تغییر حکم ہوجاتاہے ولہذا جنب کو آیات دعا وثنا نہ نیت قرآن بلکہ بہ نیت ذکر ودعا پڑھنا جائز ہے۔
فی الدرالمختار لو قصد الدعاء والثناءاوافتتاح امر حل فی الاصح حتی لو قصد بالفاتحۃ الثناء فی الجنازۃ لم یکرہ ۱؎ الخ ملخصا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے اگر تسمیہ وغیرہا سے دعا، ثناءیا کسی کام کے شروع کرنے کا ارادہ کیا جائے تو زیادہ صحیح قول میں جنبی اس کو پڑھ سکتا ہے یہاں تک کہ فرمایا کہ نماز جنازہ میں فاتحہ سے ثناء کا ارادہ کیا جائے تو نماز جنازہ میں فاتحہ کا پڑھنا مکروہ نہیں الخ ملخصا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ درمختار  کتاب الطہارۃ   مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۳۳)
مسئلہ ۱۰۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین وحامیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص متدین متبع سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پارہائے کہنہ فرسودہ قرآن شریف اور قواعد بغدادی او ر قواعد ابجد کو جو لڑکوں کے دست مالش سے پھٹے ہوئے تھے اس مصلحت سے کہ ان کی بے ادبی نہ ہو اور پاؤں کے تلے نہ آئیں بدون قصد توہین کے بسند حدیث بخاری کے جو باب جمع القرآن میں انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے:
امربما سواہ من القراٰن فی کل صحیفۃ اومصحف ان یحرق ۲؎۔
قرآن مجید کے موجودہ متعارف نسخہ کے علاوہ باقی ہر صحیفہ یا مصحف موجود تھا سب کے متعلق خلیفہ سوم نے جلادئیے جانے کاحکم جاری کیا (ت)
 (۲؎ صحیح البخاری     کتاب فضائل لقرآن     باب جمع القرآن     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۷۴۶)
ان کو جلادیا آیا یہ شخص اہل سنت کے نزدیک بلحاظ مصلحت وسند مذکور وادلہ شرعیہ کے صواب پر ہے یا خطا پر ؟ کتب معتبرہ سے جواب فرمائیں۔ بینوا توجروا۔
الجواب:  احراق مصحف بوسیدہ وغیر منتفع علماء میں مختلف فیہ ہے اور فتوٰی اس پر ہے کہ جائز نہیں۔
قال فی الفتاوٰی العالمگیریۃ المصحف اذا صارخلقا وتعذرت القراء ۃ منہ لایحرق بالنار اشار الشیبانی الی ھذا فی السیر الکبیر وبہ ناخذ کما فی الذخیرۃ ۱؎۔
فتاوٰی عالمگیری میں فرمایا گیا جب مصحف پر انا اور بوسیدہ ہوجائے اور وہ پڑھے جانے کے لائق نہ رہے تب بھی اسے آگ میں نہ جلایا جائے، چنانچہ امام محمد شیبانی نے سیر کبیر میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے لہذا اسی کو ہم اختیار کرتے ہیں، کتاب ذخیرہ میں اس طرح مذکور ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ         کتاب الکراہیۃ البا ب الخامس     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۳۲۳)
بلکہ ایسے مصاحف کو پاک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کرنا چاہئے۔
فیھا ایضا المصحف اذا صار خلقا لایقرؤمنہ ویخاف ان یضیع یجعل فی خرقۃ طاھرۃ ویدفن ودفنہ اولی من وضعہ موضعا یخاف ان یقع علیہ النجاسۃ اونحو ذٰلک ویلحد لہ لانہ لو شق ودفن یحتاج الی اھالۃ التراب علیہ فی ذٰلک نوع تحقیر الا اذا جعل فوقہ سقف بحیث لایصل التراب الیہ فھو حسن ایضا کذا فی الغرائب ۲؎۔
اس میں بھی لکھا ہے جب مصحف بوسیدہ ہوجائے اور اسے نہ پڑھا جاسکے اور یہ اندیشہ ہو کہ کہیں گر کر بکھر جائے گا اور بے ادبی ہونے لگے گی تو اسے کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ دفن کردیا جائے اور اسے دفن کرنا زیادہ بہتر ہے بنسبت کسی ایسی جگہ رکھ دینے کے جہاں اسی پر گندگی پڑے اور آلودہ ہوجائے اور لاعلمی میں پاؤں کے نیچے روندا جانے لگے۔ نیز اس کی تدفین کے لئے صندوقچی قبر کی بجائے بغلی قبر بنائی جائے اس لئے کہ اگر صندوق نما قبر بنائی گئی تو دفن کرنے کے لئے اس پرمٹی ڈالنے کی ضرورت پیش آئے گی اور یہ عمل ایک لحاظ سے بے ادبی والا ہے ۔ ہاں اگر مصحف شریف کو قبر میں رکھ کر اوپر چھت بنادی جائے تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے اور نہ اس تک مٹی پہنچے تو بھی اچھی تدبیر ہے اسی طرح فتاوٰی الغرائب میں مذکور ہے۔ (ت)
 (۲؎فتاوٰی ہندیۃ         کتاب الکراہیۃ البا ب الخامس     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۳۲۳ )
اور صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے کہ احراق واقع ہوا کمافی حدیث البخاری (جیسا کہ بخاری کی حدیث میں ہے۔ ت) بغرض رفع فتنہ وفساد تھا اور بالکلیہ رفع اس کا اسی طریقہ پر منحصر کہ صورت دفن میں ان لوگوں سے جنھیں مصاحف محرقہ اور ان کی ترتیب خلاف واقع پر اصرار تھا احتمال اخراج تھا بخلاف مانحن فیہ کہ یہاں مقصود حفظ مصحف ہے۔ بے ادبی اور ضائع ہوجانے سے اور یہ امر طریقہ دفن میں کہ مختار علماء ہے کما امر بنھج احسن (جیساکہ اس کی تفصیل بہت اچھے انداز سے گزر چکی۔ ت) حاصل البتہ قواعد بغدادی وابجد اور سب کتب غیر منتفع بہا ماورائے مصحف کریم کو جلادینا بعد محو اسمائے باری عزاسمہ اور اسمائے رسل وملائکہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اجمعین کے جائز ہے
کما فی الدرالمختار الکتب التی لاینتفع بھا یمحی عنھا اسم اﷲ وملئکتہ ورسولہ ویحرق الباقی ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ عزاسمہ اتم۔
درمختار میں ہے وہ کتابیں اور کاغذات جن سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ہے ان سے اللہ تعالٰی اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کے مقدس نام کسی طرح مٹاکر باقی حصہ جلادیا جائے اللہ تعالٰی خوب جانتاہے اور اس کا علم سب سے زیادہ مکمل ہے جس کانام غالب اور باعزت ہے۔ (ت)
 (۱؎ درمختار     کتا ب الحظروالاباحۃ     باب البیع         مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۲۵۳)
Flag Counter