عمل المولد الذی استحسناہ فانہ لیس فیہ شیئ سوی قرأۃ القراٰن واطعام الطعام وذٰلک خیر وبروقربۃ ۴؎۔
میلاد شریف منانا کہ جس کو ہم نے مستحسن قرار دیا ہے اس میں قرآن مجید کی تلاوت (ذکر خدا وذکر رسول) اور کھانا کھلانے کے اہتمام کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اور یہ کام تو کار خیر ہے اورنیکی وقربت الٰہی کا ذیعہ ہے۔ (ت)
(۴؎الحاوی للفتاوٰی بحوالہ سیرت الشامی حسن المقصد فی عمل المولد دارالکتب بیروت ۱/ ۱۹۵)
غرض اس مجلس ملائک مانس کے مجلس شادی ہونے کے سبب اس میں قرأت پنج آیت پرانکار محض بے معنی ہے۔
نعم حیث یکون منھا اھداؤ ثوابھا للحضرۃ العلیۃ النبویۃ علیہ افضل الصلٰوۃ والسلام والتحیۃ فھذا و ان کان مما نازع فیہ ابن تیمیۃ ووافقہ بعض لکن الحق الصحیح ماعلیہ الجمہور من جواز ذٰلک منھم الامام الاجل تقی الدین علی بن عبدالکافی السبکی والامام البارزی والامام ابن عقیلی الحنبلی والامام الاجل العارف باﷲ علی ابن الموفق والامام ابوالعباس محمد بن اسحق السراج النیشاپوری و الامام سلطان العلماء عزالدین بن عبدالسلام والامام ابن حجر المکی کما فی عقود الدریۃ والامام النویری والامام شہاب الدین احمد بن الشلبی الحنفی کما فی ردالمحتار وشیخ الاسلام القایاتی والامام شرف الدین المناوی والامام کمال الدین محمد بن الھمام المحقق المجتھد کما یستفاد منہ الامام العارف باﷲ ابوالمواھب سیدی محمد الشاذلی والامام العارف عبدالوھاب الشعرانی کما سیأتی وغیرھم من العلماء الاجلۃ المتقدمین والمتأخرین رحمۃ اﷲ علیھم اجمعین۔
ہاں البتہ جہاں آیات مبارک کا ثواب بطور ہدیہ بارگاہ عالیہ نبویہ میں پہنچا نا مقصو دہو، اس میں اگر چہ حافظ ابن تیمیہ اور ان کے بعض موافقین نے نزاع اور اختلاف کیا ہے مگر حق اور صحیح بات یہی ہے جس پر ائمہ جمہور قائم ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کلام پاک کا ثواب پہنچانا جائز ہے۔ جن بزرگوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے ان میں (۱)جلیل القدر امام تقی الدین علی بن عبدالکافی سبکی (شافعی) ہیں (۲) امام بارزی (۳) امام ابن عقیلی حنبلی (۴) امام کبیر عارف باللہ علی بن موفق (۵) ابوالعباس امام محمد بن اسحق سراج نیشاپوری (۶) سلطان العلماء امام عزالدین بن عبدالسلام (۷) امام ابن حجر مکی جیسا کہ عقود الدریہ میں ہے۔ (۸) امام نویری (۹) امام شہاب الدین احمد بن شلبی حنفی جیسا کہ فتاوٰی شامی میں ہے (۱۰) شیخ الاسلام امام قایانی (۱۱) امام شرف الدین مناوی (۱۲) امام کمال الدین محمد ابن ہمام محقق ومجتہد جیسا کہ ان کے کلام سے مستفاد ہوتاہے (۱۳) عارف باللہ امام ابوالمواہب سیدی محمد شاذلی (۱۴) امام عارف عبدالوہاب شعرانی جیسا کہ عنقریب ذکر ہوگا۔ ان کے علاوہ دیگر جلیل القدر علماء کرام متقدمین ومتأخرین ہیں۔ اللہ تعالٰی ان سب پر فردا فردا رحمت فرمائے۔ (ت)
فتاوٰی حدیثیہ امام ابن حجر مکی میں ہے :
مایفعلہ الناس الاٰن من سوالھم من اﷲ تعالٰی ان یوصل مثل ثواب مایقرؤون الی النبی علیہ الصلٰوۃ والسلام وآلہ وصحبہ وتابعیھم حسن لا اعتراض علیہ خلاف لمن زعمہ کما بینتہ فی افتاء طویل غیرھذا اقول وزیادہ لفظ مثل علی مذھب الشافعیہ اما عند نافلا حاجۃ الیھا کما قدعرفت فی موضعہ ۱؎۔
اب جو کچھ لوگ کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی سے سوال کیا جاتاہے کہ جوکچھ وہ پڑھتے ہیں اللہ تعالٰی اس کی مثل کا ثواب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ، ان کی سب اولاد، ان کے سب ساتھیوں اور ان کے تابعین کو پہنچادے، تویہ ایک اچھا طریقہ ہے پس اس پر کسی اعتراض اور اشکال کی گنجائش نہیں، البتہ اختلاف اس میں اس نے کیا ہے جس نے اس کو جائز نہیں سمجھا جیسا کہ اس کے علاوہ میں نے ایک طویل فتوٰی میں اس کو بیان کیا ہے_________میں کہتاہوں لفظ ''مثل'' کا اضافہ شوافع کے مذہب کے مطابق ہے ورنہ ہمارے نزدیک اس اضافہ کی کوئی ضرورت نہیں جیسا کہ تم اپنی جگہ اس کو پہچان چکے ہو۔ (ت)
ذکر ابن حجر فی الفتاوٰی الفقھیہ ان الحافظ ابن تیمیۃ زعم منع اھداء ثواب القراء ۃ للنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لان جنابہ الرفیع لایتجری علیہ الابما اذن فیہ الا تری ان ابن عمر کان یعتمر عنہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عمرا بعدموتہ من غیر وصیۃ وحج ابن الموفق وھو فی طبقۃ الجنید عنہ سبعین حجۃ وختم ابن السراج عنہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اکثر من عشر الاف ختمۃ وضحی عنہ مثل ذٰلک اھ قلت و رأیت نحو ذٰلک بخط مفتی الحنفیۃ الشہاب احمد بن الشلبی شیخ البحر نقلا عن شرح الطیبۃ للنویری ومن جملۃ مانقلہ ان ابن عقیل من الحنابلۃ قال یستحب اھداؤھا لہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قلت واقول علماءنا لہ ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ یدخل فیہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فانہ احق بذٰلک حیث انقذنا من الضلالۃ ففی ذٰلک نوع شکر واھداء جمیل لہ والکامل قابل الزیادۃ الکمال ۱؎ الخ۔
علامہ ابن حجر نے اپنے فقہی فتاوٰی میں ذکر فرمایا حافظ ابن تیمیہ نے یہ گمان کیاہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو قراءت کے ثواب کا ہدیہ پیش کرنا منع ہے اس لئے کہ ان کی بلند پایہ ذات پر وہی جرأت کی جاسکتی ہے جس کی ان کے بارے میں اجازت دی گئی ہے [لیکن یہ نظریہ باطل ہے] کیا تم نہیں دیکھتے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے آپ کے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی وصیت کے بغیر آپ کے وصال کے آپ کی طرف سے کئی عمرے کئے، اور حضرت علی بن موفق جو طائفہ جنیدیہ میں سے ہیں، نے آپ کی طرف سے ستر حج ادا کئے، اور ابن سراج نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے دس ہزار سے زائد ختم قرآن مجید کئے اوردس ہزار سے زائد حضور کی طرف سے قربانیاں کیں، میں کہتاہوں کہ میں نے اس طرح مفتی احناف شہاب احمد بن شلبی صحاب بحرالرائق کے استاذ کے اپنے خط سے لکھا ہوا دیکھا ہے کہ جو انھوں نے ''طیبہ'' کی شرح امام نویری سے نقل فرمائی ہے جو کچھ انھوں نے نقل کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حنابلہ میں سے علامہ ابن عقیل نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تلاوت قرآن مجید کا ثواب بطور ہدیہ پیش کرنا مستحب ہے اھ، میں کہتاہوں ہمارے علمائے کرام کرام کا یہ فرمانا کہ آدمی کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے عمل صالح کا ثواب کسی دوسرے کردے سکتاہے [پس اس عموم میں] حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی داخل ہیں کیونکہ آپ اس کے زیادہ لائق اور مستحق ہیں کہ آپ نے ہمیں ہر نوع کی گمراہی سے بچایا اور چھڑایا، اس میں ایک گونہ شکر بھی پایاجاتا ہے اور یہ آپ کے لئے خوبصورت ہدیہ ہے اور کامل زیادت کمال کو قبول کرتاہے۔ الخ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ باب الجنائز داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۰۶ ۔ ۶۰۵)
لواقع الانوار فی طبقات الاخیار ذکر سیدی ابوالمواہب قدسی سرہ، میں ہے:
کان رضی اﷲ تعالٰی عنہ یقول رأیت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال لی انت تشفع لمائۃ الف قلت لہ بم استو جبت ذٰلک یا رسول اﷲ قال باعطائک لی ثواب الصلاۃ علی ۱؎۔
حضرت ابوالمواہب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے تھےکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا، حضور ااقدس نے مجھ سے فرمایا کہ قیامت کے دن تم ایک لاکھ بندوں کی شفاعت کرو گے، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم ! میں کیسے اس قابل ہوا! ارشاد ہوا: تم مجھ پر جو درود پڑھتے ہو اس کا ثواب مجھے دے ڈالتے ہو (یہ شان اس اس نیک اور اعلٰی عمل کا نتیجہ ہے)۔ (ت)
(۱؎لواقح الانوار فی طبقات الاخیار ذکر الشیخ محمد ابوالمواہب مصطفی البابی مصر ۱/ ۷۳و ۷۵)