جیسا کہ اگر کسی نے کوئی غلام غصب کیا (یعنی کسی سے اس کا غلام زبردستی چھین لیا) پھر اسے مزدوری پر لگایا(اور ٹھیکہ پر دیا ) اورغلہ ہو تو پھر اجرت اور غلہ دونوں خیرات کردے جیسا کہ کسی نے غصب کردہ چیز یا امانت میں (بغیر اجازت مالک) کچھ تصرف کیا (بایں طور کہ اسے فروخت کردیا) اور اس سے نفع کمایا اگروہ متعین ہو اور اس کے تعین کی صورت اشارہ ہے اور امانت یا غصب کردہ دراہم سے اسے خریدنا ہے (یعنی عقد اور نقد دونوں میں زر حرام جمع ہو تو پھر وہ خرید کردہ چیز حرام ہوگی۔ پس اس کا استعمال کرناجائز نہ ہوگا) پس تعین بالاشارہ اور خرید میں وہی حرام نقدی ہو تو اس حاصل شدہ نفع کو خیرات کردے) اوراگر اوپر والی صورت مذکورہ نہ ہو تو پھر اس کی تین صورتیں ہیں:
(۱) عقد کے وقت زر حرام کی طرف اشارہ کیا مگر ادائیگی کے وقت کوئی اور نقدی دے دی۔
(۲) بوقت عقد کسی اور مال کی طرف اشارہ کیا مگر ادائیگی کے وقت وہی مال حرام دے دیا۔
(۳) عقد کرتے وقت ثمن میں اطلاق (یعنی بغیر کسی قید لگانے کے کہہ دیا کہ اتنی رقم فلاں چیز دے دو) لیکن ثمن دیتے وقت وہی زرحرام دے دیا۔
پس ان تینوں صورتوں میں خیرات نہ کرے (کیونکہ حرمت نہیں پیدا ہوئی جیسا کہ ظاہر ہے) اور اسی قول پر فتوٰی دیا جاتاہے۔ (ت)
(۱؎درمختار کتاب الغصب مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۰۶۔ ۲۰۵)
اوریہی قول قابل فتوٰی ہے۔ چنانچہ ذخیرہ وغیرہ میں یہی ارشاد فرمایا جیسا کہ جامع الرموز (قہستانی )میں مذکور ہے۔ الغرر ۔ المختصر، الوقایہ اور الاصلاح میں یہی روش اور طرز اختیار فرمائی، اور یعقوبیہ میں المحیط سے یہی منقول ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت۹)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الغصب داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۲۱)
آداب
مجلس وعظ، مسجد، قبلہ، اذان واقامت، تلاوت، سجدہ تلاوت، درودوسلام، خطبہ، اورادووظائف، عملیات، سفر، استخارہ، فال، جماع، سفارش، مصحف، کتب اور سونے وغیرہ امور سے متعلق آداب
مسئلہ ۱۰۷: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اللہ تعالٰی فرماتاہے:
لایمسہ الا المطھرون۱ ؎۔
اسے نہ چھوئیں مگر پاکیزہ لوگ۔ (ت)
اور بعض علماء چارپائی پر لیٹے یا بیٹھے ہوتے ہیں اور لڑکے کتابیں لئے ہوئے جن میں بسم اﷲ شریف و دیگر آیات قرآنیہ ہوتی ہیں نیچے چٹائی پر بیٹھے رہتے ہیں، پس یہ فعل کیسا ہے؟ اور وہ کتابیں قابل تعظیم ہیں یا نہیں؟ اور شروع پر بسم اللہ لکھنے سے کلام الناس ہوجاتی ہے یا کلام اللہ؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر پاؤ۔ ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۵۶/ ۷۹)
الجواب: ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ نفس حروف قابل ادب ہیں اگر چہ جدا جدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وصلی پر خواہ ان میں کوئی برا نام لکھا ہو جیسے فرعون، ابوجہل وغیرہما، تاہم حرفوں کی تعظیم کی جائے اگر چہ ان کافروں کانام لائق اہانت وتذلیل ہے۔
فی الہندیہ اذا کتب اسم فرعون اوکتب ابوجھل علی غرض یکرہ ان یرموا الیہ لان لتلک الحروف حرمۃ کذ ا فی السراجیۃ ۱؎۔
فتاوٰی ہندیہ میں ہے جب فرعون اور ابوجہل وغیرہ کے نام کسی غرض کے لئے لکھے جائیں تو مکروہ ہے کہ انھیں کہیں پھونک دیں اس لئے کہ ان حروف کی عزت وتوقیر ہے جیسا کہ ''سراجیہ '' میں مذکور ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃ الباب الخامس نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۲۳)
اور تصریح فرماتے ہیں کہ کتاب پر دوات رکھنا منع ہے مگر جب لکھتے وقت ضرورت ہو۔
فی الدرالمختار یکرہ وضع المقلمۃ علی الکتاب الاللکتابۃ ۲؎ ملخصا ، فی ردالمحتار قولہ الاللکتابۃ الظاھر ان ذٰلک عند الحاجۃ الی الوضع ۳؎ اھ۔
(۲؎ درمختار کتاب الطہارت مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۳)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الطہارت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۱۹)
درمختار میں ہے کتاب پر دوات رکھنا مکروہ ہے مگر جبکہ لکھنے کی حاجت ہو تو اس وقت ایسا کرنا جائز ہے۔ اھ ملخصا۔ ردالمحتار میں مصنف درمختار کے قول ''الا للکتابۃ'' کے ذیل میں فرمایا ظاہر یہ ہے کہ جب تک رکھنے کی ضرورت ہو اس وقت تک اجازت ہے۔ اھ (ت)
اور تصریح فرماتے ہیں کہ اگر کسی صندوق یاا لماری میں کتابیں رکھی ہوں تو ادب یہ ہے کہ اس کے اوپر کپڑے نہ رکھے جائیں۔
فی العالمگیریۃ:
حانوت اوتابوت فیہ کتب فالادب ان لایضع الثیاب فوقہ ۴؎۔
کسی صندوق یا الماری میں کتابیں رکھی ہوں تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ان پر کپڑے نہ رکھے (ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃ الباب الخامس نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۲۴)
تو کیونکر ادب ہوگا کہ کتابیں نیچے رکھی ہوں اور آپ اوپر بیٹھیں کیا ایسے لوگوں کو بے ادبی کی شامت سے خوف نہیں ، حروف تہجی خود کلام اللہ ہیں کہ ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئے۔
کما فی ردالمحتار ۱؎ للعلامۃ الشامی عن سیدی عبدالغنی النابلسی عن کتاب الاشارات فی علم القرآء ت للامام القسطلانی رحمہم اﷲ تعالٰی۔
جیسا کہ علامہ فتاوی شامی میں سیدی عبدالغنی نابلسی کے حوالے سے ''کتاب الاشارات فی علم القراءت'' میں امام قسطلانی رحمہم اللہ تعالٰی سے مروی ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۲۰)
البتہ کتب دینیہ کو بے وضو ہاتھ لگانے کے بارے میں علماء مختلف ہیں بعض علماء مطلقا جائز فرماتے ہیں اور بعض مطلقا مکروہ اور بعض تفصیل کرتے ہیں کہ کتب تفسیر میں مکروہ اور غیر جائز بشرطیکہ ان میں جہاں کوئی آیت لکھی ہو خاص اس پر ہاتھ نہ رکھے اس کی ممانعت میں کوئی کلام نہیں اور یہی تفصیل زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔