Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
68 - 190
اور زن وشو میں جدائی ڈالنا شیطان کا کام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: لیس منا من خبب امرأۃ علی زوجھا رواہ ابوداؤد والحاکم بسند صحیح عن ابی ھریرۃ والطبرانی فی الصغیر عن ابن عمر وفی الاوسط کابی یعلی الراوی بسند صحیح عن ابن عباس رضی اﷲ عنھم۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
وہ آدمی ہم میں سے نہیں کہ جو دغا بازی سے عورت کو شوہر کے خلاف کردے۔ ابوداؤد اور حاکم نے صحیح سند سے اس کو حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ۔ اور امام طبرانی نے معجم صغیر میں عبداللہ ابن عمر سے اور معجم اوسط میں ابویعلٰی کی طرح صحیح سند سے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ۔ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۳؎ سنن ابی داؤد     کتاب الادب باب فی من خبب مملوکا الخ     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/ ۳۴۷)

(المستدرک للحاکم     کتاب الطلاق        دارالفکر بیروت    ۲/ ۱۹۶)

(معجم الاوسط للطبرانی     حدیث ۸۰۱۸     مکتبہ المعارف الریاض        ۹/ ۱۲)
مسئلہ ۱۰۵: از ناتھ دوارہ    ریاست اودےپور     ملک میواڑ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص صاحب علم امر ونہی سے واقف ہیں مگر وہ شخص نہ کبھی رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہیں اور نہ کبھی نماز پڑھتے ہیں، جمعہ کے روز بطور ریا کاری مسجد میں آکر جمعہ ادا کرتے ہیں تو اس شخص کے واسطے کیاحکم ہے۔ اس شخص کو کیا کہنا چاہئے ؟ اور مسلمانوں کو اس کے ساتھ کیا برتاؤ لازم ہے۔ اس کا جواب مع حدیث وفقہ کے مرقوم فرمائیں کہ اللہ تعالٰی آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
الجواب : وہ شخص سخت فاسق فاجر مستحق جہنم ہے۔ مسلمانوں کو اس سے احتراز چاہئے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۰۶: از پوسٹ آفس موضع شرشدی ضلع نواکھالی بنگال مرسلہ سید عبدالرحمن صاحب یکم ذی الحجہ ۱۳۳۹ھ

قبلہ من مدظلہ بعد سلام وقدمبوسی عرض ہے ایک شخص نے چار پائے وطی کیا اس پر ایک عالم نے کہا کہ تم اتنے روپیہ بطور زجر کے اداکرو تاکہ آئندہ کوئی آدمی مرتکب گناہ نہ ہو اس سے روپیہ لے کرمسجد کے لئے چٹائی خرید کر دیا گیا اب وہ شرعا درست ہے یانہیں؟ بینوا (بیان فرمائیے۔ ت) فتوٰی کی عبارت ذرا لمبا اور فتوٰی لمبا ہونے سے عوام زیادہ اعتبار کرتا ہے، چونکہ اس وطی کے لئے کفارہ کاحکم نہیں ہے۔ اگر کفارہ ہوتا بیشک غریب کا حق تھا یہ روپیہ زجراً یا عبرتا لیا گیا ہے اور وہ نیک کام میں صرف کیا گیا بعض اس پر معترض ہیں، امید ہے حضور عالی جس طرح درست ہو ایسا تحریر فرما کر ایک فتوٰی بہت جلد بیرنگ روانہ فرمادیں۔ چارپائے کو حسب شرع جیسا کرنا ہے کیا گیا ہے اس پرکوئی معترض نہیں صرف اس سے جو روپیہ لیا گیا اس کو مسجد میں صرف کیا گیا ہے اس پر اعتراض ہے کہ کفارہ مسجد میں خرچ نہیں ہوسکتا ہے جناب عالی! حسب مناسب سوال تحریر فرماکر اس کے جواب جواب بدلیل کتب فقہ تحریر فرماکر بہت جلد روانہ بیرنگ کریں تاکہ رفع فساد ہو بہت جلد درکار ہے جس طرح درست ہو مسجد کے لئے خرچ کرنا  درست ہے تحریر فرمادیں کیونکہ اس کام میں کفارہ واجب نہیں ایک روپیہ بطور استادی خدمت کے روانہ کیا جاتا ہے دس پانچ عالم کا مہر ودستخط کرادیں۔ سوال جس پیرا میں حضور تجویز کریں مگر وہ روپیہ مسجد کے خرچ میں درست ہونا درکار ہے۔ حضور تو بحرالعلوم ہیں جن کا اسم گرامی تمام جہاں میں مشہور ہے بیرنگ روانہ کرنے سے جلد مل جائے گا مگر لفافہ پر کاتب کانام ضروری ہے ورنہ ڈاک والا روانہ نہیں کرتا ہے۔
الجواب : وہ روپیہ کہ اس شخص سے زجرا لیا گیا حرام ہے کہ تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل حرام۔ 

تنویر الابصار میں ہے :
التعزیر تأدیب دون الحد واکثرہ تسعۃ و ثلاثون سوطا ویکون بہ وبالصفح لا باخذ مال فی المذھب ۱؎۔
تعزیر ادب سکھانا ہے جو حد سے کم سزا ہے اس میں زیادہ سے زیادہ انتالیس ۳۹ کوڑے ہیں اور یہ کوڑے یا مکے مارنے سے ادا ہوتی ہے۔ معتمد مذہب میں اس میں مال لینا نہیں۔ (ت)
 (۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار         کتاب الحدود باب التعزیر         مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۳۲۶)
بحرالرائق ودرمختار وردالمحتار میں ہے : افاد فی البزازیۃ ان معنی التعزیر باخذ المال علی القول بہ امساک شیئ من مالہ منہ مدۃ لینزجر ثم یعیدہ الحاکم الیہ لا ان یاخذہ الحاکم لنفسہ او بیت المال کما یتوھمہ الظلمۃ اذا لایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی وفی شرح الآثار (اللامام الطحاوی رحمہ اﷲ تعالٰی) التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ ۲؎۔
فتاوٰی بزازیہ میں یہ افادہ پیش فرمایا کہ مال لے کر تعزیر قائم کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ مجرم کے مال میں سے کچھ مدت کے لئے مال حاکم اپنے پاس رکھ لے تاکہ وہ جرائم سے باز آجائے ۔ پھر سدھر جانے پر حاکم وہ مال اس کولوٹا دے یہ مطلب نہیں کہ حاکم اپنی ذات کے لئے یا بیت المال کے لئے مال جرمانہ اس سے وصول کرے جیسا کہ بعض ظالموں نے وہم کیا ہے کیونکہ مسلمانوں میں سے کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی سبب شرعی کے کسی کا مال حاصل کرے، اور شرح آثار امام طحاوی رحمہ اللہ تعالٰی میں ہے کہ مالی تعزیر شروع اسلام میں تھی پھر منسوخ ہوگئی۔ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار         کتاب الحدود باب التعزیر      داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۷۹۔ ۱۷۸)
اور مسجد میں اس روپے کا صرف کرنا حرام۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اﷲ طیب لایقبل الا الطیب۔ رواہ الترمذی ۱؎ وغیرہ عن سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
یقینا اللہ پاک ہے وہ سوائے پاک کے کسی چیز کو قبول نہیں فرماتاہے ۔ امام ترمذی وغیرہ نے سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت فرمایا ہے۔ (ت)
 (۱؎ السنن الکبرٰی         کتاب صلوٰۃ الاستسقاء دارصادر بیروت  ۳/ ۳۴۵)
اللہ عزوجل فرماتا ہے :
لیمیز اﷲ الخبیث من الطیب ۲؎۔
اس لئے کہ اللہ گندے کو ستھرے سے جدا فرمادے (ت)
 (۲؎ القرآن الکریم    ۸/ ۳۷)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
علی الید مااخذت حتی تودیہ، رواہ الامام ۳؎ احمد فی مسندہ والائمۃ ابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ فی سننھم و الحاکم فی صحیحہ المستدرک عن سمرۃ بن جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ بسند حسن۔
جو کچھ ہاتھ نے لیا اس پر ضروری ہے کہ اسے ادا کردے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں اور دوسرے ائمہ ابوداؤد ، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اس کو روایت کیا ہے، اور حاکم نے اپنی صحیح مستدرک میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے بسند حسن اس کو روایت فرمایا ہے۔ (ت)
 (۳؎ جامع الترمذی     کتاب البیوع باب ماجاء ان العاریۃ موداۃ    امین کمپنی دہلی        ۱/ ۱۵۲)

(مسند احمد بن حنبل     عن سمرۃ بن جندب             المکتب الاسلامی بیروت    ۵ /۸)
رہیں وہ چٹائیاں کہ اس روپیہ سے خرید کر مسجد میں دیں ان پر اگر عقد ونقد جمع نہ ہوئے تھے تومسجد میں ان کا لینا اور استعمال کرنا اور ان پر نماز پڑھنا سب درست ہے اس میں کچھ حرج نہیں عقد ونقد جمع ہونے کے یہ معنی کہ وہی خبیث روپیہ بائع کو دکھا کر کہا ہو کہ اس روپے کے بدلے چٹائیاں دے دے، یہ اس روپیہ پر عقد ہوا پھر وہی روپیہ ثمن میں دے دیا گیا ہو یہ اس روپے کا نقد ہوا، ظاہر کہ یہاں خرید وفروخت میں ایسا بہت نادر ہے غالبا چیز مانگتے ہیں کہ ایک روپیہ کے یہ دے دو پھر زر ثمن ادا کرتے ہیں یہ اگر اس مال خبیث سے ہوا ہو تو اس کا صرف نقد ہوا اس پر عقد نہ ہوا اور اس صورت میں ان چٹائیوں میں کوئی خباثت نہ آئی اور مسجد پر ان کا وقف صحیح ہوگیا اور وہ دینے والے کو واپس نہیں دی جاسکتیں جب تک مسجد میں قابل استعمال ہیں۔
Flag Counter