فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۱۰۲: ا ز امرتسر سید بڈھے شاہ صاحب ۲۳ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ جنھوں نے زنا کاری اور ناچنا گانا اپنا پیشہ بنا رکھا ہے بلکہ پیشہ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس فعل شنیع پر اصرار کئے بیٹھے ہیں اور اسی پر ان کی عمر گزرتی ہے اور اس زنا کی آمدنی پر ان کا کھانا پینا پہننا اور تمام امور ہوتے ہیں اہل اسلام کو ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے ان کے ساتھ میل جول بات چیت کرنا ان کے یہاں سے کچھ کھانا پینا یا ان کی خیرات صدقات سے کچھ حاصل کرنا یا ان کا کوئی کام کرنا اس کی اجرت لینا یا ان کا جنازہ پڑھنا یا شریک جنازہ ہونا یا انھیں غسل دینا یا ان کے ہاتھ کوئی چیز اس آمدنی کے عوض فروخت کرنا یا ان سے خریدنا وغیرہ وغیرہ شرعا کیا حکم رکھتاہے؟
الجواب : ان سے میل جول نہ چاہئے،
قال اﷲ تعالٰی واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: اگر تمھیں شیطان کسی بھلاوے میں ڈال دے تو پھر یاد آجانے کے بعد کبھی ظالموں کے پاس نہ بیٹھو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶/ ۶۸)
بلکہ اور بہت فاسقوں سے اس بارے میں ان کا حکم اشد ہے کہ ان سے ملنے میں آدمی متہم ہوتا ہے اور موضع تہمت سے بچنے کا حکم مؤکد ہے۔
حدیث میں ہے :
من کان یؤمن باﷲ والیوم الاخر فلا یقفن مواقع التھم ۲؎۔
جو کوئی اللہ تعالٰی اور دن قیامت پر یقین رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مقامات تہمت میں نہ ٹھہرے (ت)
(۲؎ مراقی الفلاح علی ہامش حاشیۃ الطحطاوی باب ادراک الفریضۃ نورمحمد کارخانہ کراچی ص۲۴۹)
زنا وغنا پر جو مال حاصل کیا جاتا ہے وہ ان لوگوں کی ملک نہیں ہوتا ان کے ہاتھ میں مثل مغصوب ہوتا ہے کما صرح بہ فی الفتاوی العالمگیریۃ وغیرھا (جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری اور دوسرے فتاوی میں اس کی تصریح کردی گئی ہے۔ت)نہ اس کا اجرت میں لینا جائز نہ کسی چیز کی قیمت میں لینا جائز ، صدقہ وہدیہ تو دوسری بات ہے بلکہ وہ جو کچھ کسی فقیر کو دے اسے خیرات کہنا حرام ہے۔ اس پر امید ثواب رکھنے کو علماء نےکفر لکھا ہے۔ اور جو مال بعینہٖ انھوں نے ان حرام افعال کے عوض حاصل کیا اس کا خریدنا بھی حرام اس کا کھانا بھی حرام، ہاں اگر یہ مال انھوں نے خریدا ہو اگر چہ اپنے زر حرام سے اور اس پر عقد ونقد جمع نہ ہوئے ہوں یعنی یہ نہ ہوا ہو کہ وہ حرام روپیہ دکھا کر کہا کہ اس کے عوض دے دے اور وہی روپیہ ثمن میں دے دیا کہ یوں تو جو کچھ وہ خریدیں وہ بھی حرام ہے علی ماقالہ الامام الکرخی علیہ الفتوٰی (اس بناء پر جو کچھ امام کرخی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا اور اسی پر فتوٰی ہے۔ ت) ہاں اگر یوں ہوا مثلا کہا ایک روپیہ کی فلاں چیز دے دے اس نے دے دی اس نے اپنا زر حرام ثمن میں دیا تو اگر چہ اسے ثمن میں صرف کرنا حرام تھا مگر جو چیز خریدی وہ حرام نہ ہوئی ایسی خریدی ہوئی چیز کا ان سے خریدنا جائز ہے اور ناج وغیرہ اس طور پر خرید کر پکایا ہو تو اس کا کھانا بھی حرام نہیں مگر ان کے یہاں کھانا پینا ویسے ہی ممنوع ہے۔ رہا جنازہ اور ا سکی نماز ، اگر یہ لوگ مسلمان ہوں تو ضرور فرض ہے۔
حدیث میں ارشاد ہوا:
الصلوٰۃ واجبۃ علیکم علی کل مسلم یموت براکان اوفاجرا وان ھو عمل الکبائر ۱؎۔
تم پر ہر مسلمان کے جنازے کی نماز فرض ہے وہ نیک ہو یا بد اگر چہ اس نے کبیرہ گناہ کئے ہوں۔
(۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی الفزدمع المۃ الجور آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۳۴۳)
مگر اس قسم کے جو پیشہ ور لوگ ہیں ان کا ایمان سلامت رہنا بہت دشوار معلوم ہوتا ہے ان کے یہاں کی رسم سنی گئی ہے کہ جب لڑکی سے اول بار زنا کراتے ہیں اسے دلھن بناتے ہیں اور نیاز دلاتے ہیں اور مبارک سلامت ہوتی ہے ایسا ہے تو یقینا وہ سب کافر ہوجاتے ہیں ان پر نماز حرام ان کے جنازہ کی شرکت حرام ، نسأل اﷲ العفووالعافیہ (ہم اللہ تعالٰی سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۰۲ و ۱۰۴: از دبابوں کے تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ مرسلہ محمد قاسم صاحب مدرس مدرسہ ۶ شعبان ۱۳۳۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ: (۱) زید نے بکر کو زنا کی تہمت لگائی۔ (۲) ایک عورت زانیہ اپنے گناہ سے ایک عالم متدین کے ہاتھ پر تائب ہوگئی ہے لیکن اب بھی چند ایک آدمی اسی کی برادری میں سے اس کو گزشتہ گناہ کے ساتھ منسوب کرتے ہیں اور میرا سمجھ کر اس کو اس کے خاوند کے گھر میں آباد نہیں ہونے دیتے حالانکہ اس کا خاوند اس کے آباد کرنے میں راضی ہے۔ ایسے اشخاص کے واسطے از روئے شرع شریف کیا حکم ہے؟
الجواب (۱) مسلمان کو زنا کی تہمت بے ثبوت شرع لگانے والا فاسق مردود الشہادۃ، اسی کوڑوں کا شرعاً سزاوار ہے یہاں دنیا میں نہیں ہوسکتے، آخرت میں استحقاق عذاب نار ہے۔ (۲) گناہ سے توبہ کرنے والے کو اگلے گناہ سے عیب لگانا سخت حرام ہے ایسے کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ مرے گا جب تک خود اس گناہ کا مرتکب نہ ہو،
اخرج الترمذی وحسنہ عن معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من عیر اخاہ بذنب لم یمت حتی یعملہ ۱؎ قال المناوی المرادمن ذنب قد تاب منہ کما فسرہ بہ ابن منیع ۲؎ اھ، وقد جاء کذا مقیدا فی روایۃ ذکرھا فی الشرعۃ قالہ فی الحدیقۃ الندیہ۔
امام ترمذی نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت فرمائی جبکہ امام ترمذی نے اس حدیث کی تحسین فرمائی جو کوئی اپنے بھائی کو کسی گزشتہ گناہ پر عار دلائے وہ نہ مرے گا مگر جبکہ خود اس گناہ کا مرتکب ہو، امام مناوی نے فرمایا کہ حدیث پاک میں گناہ سے وہ گناہ مراد ہے جس سے کرنے والے نے توبہ کرڈالی ، جیسا کہ ابن منیع نے اس کی وضاحت فرمائی اھ۔ اور ایک دوسری روایت میں ذنب کے ساتھ قید مذکور ہے جس کو شرعۃ الاسلام میں نقل فرمایا۔ چنانچہ حدیقہ ندیہ میں اس کو بیان فرمایا۔(ت)
(۱؎ جامع الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۷۳) (۲؎ التیسیر شرح جامع الصغیر تحت حدیث من عیر اخاہ الخ مکتبہ امام الشافعی ریاض ۲/ ۴۳۲)