فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۹۷: از مدراس جنتا دھاری دسگ شب گرامیں اسٹریٹ مرسلہ مولوی حاجی سید عبدالغفار صاحب بنگلوری۔ پھولوں کا سہرا جس میں نلکیاں اور پنی وغیرہ نہ ہو جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان کرو تاکہ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب : پھولوں کا سہرا جیسا سوال میں مذکور رسوم دنیویہ سے ا یک رسم ہے جس کی ممانعت شرع مطہر سے ثابت نہیں نہ شرع میں اس کے کرنے کا حکم آیا ہے تو مثل اور تمام عادات ورسوم مباحہ کے مباح رہے گا شرع شریف کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جس چیز کو خدا ورسول اچھا بتائیں وہ اچھی ہے اور جسے برافرمائیں وہ بری ہے اور جس سے سکوت فرمائیں یعنی شرع سے نہ اس کی خوبی نکلے نہ برائی وہ اباحت اصلیہ پر رہتی ہے کہ اس کے فعل وترک میں ثواب نہ عقاب، یہ قاعدہ ہمیشہ یاد رکھنے کا ہے کہ اکثر جگہ کام آئے گا آجکل مخالفین اہلسنت نے یہ روش اختیار کرلی ہے۔ جس چیز کو چاہا شرک، حرام، بدعت، ضلالت کہنا شروع کردیا اگر چہ وہ فعل صحابہ کرام یا تابعین عظام یا ائمہ اعلام سے ثابت ہو، اگر چہ وہ فعل اس نیک بات کے عموم واطلاق میں داخل ہو جس کی خوبیاں صریح قرآن مجید وحدیث شریف میں مذکور ہیں پھر سہرے وغیرہ رسمی باتوں کی تو کیا حقیقت ہے اور اس پر طرہ یہ ہوتا ہے کہ اہلسنت سے پوچھتے ہیں تم جو ان چیزوں کو جائز بتاتے ہو قرآن وحدیث میں کہاں جائز لکھا ہے حالانکہ ان کو اپنی خوش فہمی سے اتنی خبر نہیں کہ جائز کہنے والا دلیل خاص کا محتاج نہیں، جو ناجائز کہے وہ قرآن حدیث میں دکھائے کہ ان افعال کو کہاں ناجائز کہا ہے۔ کیا اہلسنت پر لازم ہے کہ وہ جس چیز کو جائز ومباح بتائیں اس کی خاص صورت کا حکم صریح قرآن مجید واحادیث شریف میں دکھائیں اور تم پر کچھ ضرور نہیں کہ جس چیز کو حرام بدعت گمراہی کہو خاص اس کی نسبت ان حکموں کی تصریح کتاب وسنت میں دکھادو۔ ان امور کی قدرے تفصیل مسئلہ قیام میں فقیر نے ذکر کی اور تحقیق کامل تصانیف علمائے اہلسنت میں ہے۔ شکر اﷲ تعالٰی مساعیھم الجمیلۃ۔ جب یہ قاعدہ شرعیہ معلوم ہولیا تو سہرے کا حکم خود ہی کھل گیا۔ اب جو ناجائز ، حرام، بدعت، ضلالت بتائے وہ خود قرآن مجید وحدیث شریف سے ثابت کر دکھائے ورنہ جان برادر! شرع تمھاری زبان کا نام نہیں کہ جسے چاہو بے دلیل حرام وممنوع کہہ دو، اور سفہائے مخالفین جو اس قسم کے مسائل میں حدیث من احدث فی امرنا ۱؎ وغیرہ پیش کرتے ہیں محض بے محل واغوائے جہال کہ اس قدر تو طائفہ اسمعیلہ کو بھی مسلم کہ بدعت ضلالت وہی ہے جو بات دین میں نئی پیدا ہو اور دنیوی رسوم وعادت پر حکم بدعت نہیں ہوسکتا مثلا انگرکھا پہننا، پلاؤ کھانا یا دولھا کو جامہ پہنانا، دلہن کو پالکی میں بٹھانا، اسی طرح سہرا کہ اسے بھی کوئی دینی بات سمجھ کر نہیں کرتا، نہ بغرض ثواب کیا جاتاہے بلکہ سب ایک رسم ہی جان کر کرتے ہیں ہاں اگر کوئی جاہل اجہل ایسا ہو کہ اسے دینی بات جانے تو اس کی اس بیہودہ سمجھ پر اعتراض صحیح ہے اسی طرح سہرے کے باب میں حدیث من تشبہ بقوم فھو منھم ۲؎ (جو کسی قسم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہوجائے گا۔ ت)
(۱؎صحیح البخاری کتاب الصلح ۱/ ۳۷۱ و صحیح مسلم کتاب الاقضیہ ۲/ ۷۷) (۲؎ سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب فی لبس الشہرۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۳۰۳)
پیش کرنا اور یہ کہنا کہ ہندو بھی سہرا باندھتے ہیں تو ان سے مشابہت نکلے گی محض غلط کہ حدیث میں لفظ تشبہ مذکور ہے اور اس کے معنی اپنے آپ کو کسی کے مشابہ بنانا تو حقیقۃً یاحکما قصد مشابہت پایا جانا ضرور ہے۔ مثلا ایک شخص کوئی فعل خاص اس نیت سے کرے کہ کفار کی سی شکل پیدا ہو اگر چہ وہ یہ ارادہ نہ کرے مگروہ فعل شعار کفار اور ان کی علامت خاصہ ہو جس سے وہ پہچانے جاتے ہوں، جیسے سر پر چوٹیاں،ماتھے پر ٹیکہ، گلے میں جینوا، الٹے پردے کا انگرکھا و علی ہذا القیاس ، تو بیشک ان صورتوں میں ذم ووعید وارد، اور حدیث "من تشبہ" اس پر صادق، نہ یہ کہ مطلقا کسی بات میں اشتراک موجب ممانعت ہو، یوں تو انگر کھا ہم بھی پہنتے ہیں ہندو بھی پہنتے ہیں پھر کیا اس وجہ سے انگر کھا پہننا ہم پر حرام ہوجائے گا اور اگر پردے کا فرق کفایت کرے تو کیا نلکیوں اور پنی کا نہ ہونا اور اس سہرے کی صورت ان کے سہرے سے جد اہونا کافی نہ ہوگا، اصل بات یہ ہے کہ بربنائے تشبہ کسی فعل کی ممانعت اسی وقت صحیح ہے کہ جب فاعل کا قصد مشابہت ہو یا وہ فعل اہل باطل کاشعار وعلامت خاصہ ہو جس کے سبب سے وہ پہچانے جاتے ہوں، یااگر خود اس فعل کی مذمت شرع مطہر سے ثابت ہو تو برا کہا جائے گا ورنہ ہرگز نہیں اور سہرا ان سب باتوں سے پاک ہے۔ یہ قاعدہ بھی ضرور یاد رکھنے کا ہے جس سے مخالفین کے اکثر اوہام کا علاج ہوتا ہے۔
درمختار میں بحرالرائق سے منقول:
التشبہ بھم لا یکرہ فی کل شیئ بل فی المذموم وفیما یقصد بہ التشبہ ۱؎۔
اہل کتاب سے تشبہ ہر چیز میں مکروہ نہیں بلکہ بری بات میں اور وہاں کہ ان سے مشابہت کا قصد کیا جائے۔
(۱؎ الدرالمختار باب یفسد الصلوٰۃ الخ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۰)
مولٰنا علی قاری شرح فقہ اکبر امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں فرماتے ہیں:
انا ممنوعون عن التشبیہ بالکفرۃ واھل البدعۃ فی شعارھم ، لا منھیون عن کل بدعۃ ولو کانت مباحۃ سواء کانت من افعال اھل السنۃ اومن افعال الکفرۃ واھل البدعۃ فالمدار علی الشعار ۱؎۔
ہم کو یہ منع ہے کہ کفار واہل بدعت کے شعار میں تشبہ کریں نہ یہ کہ ہر بدعت منع ہو اگر چہ مباح ہو اب چاہے وہ اہلسنت کے افعال سے ہو یا کفارو مبتدعین کے فعلوں سے تو مدار کار شعار پر ہے۔
(۱؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر فصل فی الکفر صریحا وکنایۃ مصطفی البابی مصر ص۱۸۵)
بالجملہ خلاصہ یہ ہے کہ سہرا نہ شرعا منع نہ شرعا ضروری یا مستحب، بلکہ ایک دنیوی رسم ہے۔ کی تو کیا، نہ کی توکیا، اس کے سوا جو کوئی اسے حرام گناہ بدعت ضلالت بتائے وہ سخت جھوٹا، بر سر باطل اور جو اسے ضروری لازم اور ترک کو شرعا موجب تشنیع جانے وہ نرا جاہل۔ واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ کتبہ عبدہ المذنب الفقیر احمد رضا البریلوی عفی عنہ رسالہ ھادی الناس فی رسوم الاعراس ختم ہوا