فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
اما ضرب بندقۃ الرصاص لاعلان النکاح فلا شک ان الاعلان مطلوب فیہ مندوب الیہ فصلا بین النکاح والسفاح الذی یکتم ولا یعلم والمقصود اعلام الاباعد والا قاصی فان الحضور یعلمونہ بالحضور ولذا امر بضرب الدفوف واضطراب الاصوات علی وجہ المعروف فان العلم للقاضی انما یحصل بما ھو متعارف عندھم وقد شملہ قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فصل مابین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح ۱؎ ، رواہ الائمۃ احمد والترمذی و النسائی وابن ماجۃ وابن حبان والحاکم عن محمد بن حاطب الجمحی رضی اﷲ تعالٰی حسنہ الترمذی و صححہ ابن حبان والدارقطنی والحاکم وابن طاھر فلم یخص بالدف بل اطلق الصوتوغایر بالعطف والبندقۃ صوت یحصل بہ الاعلام بل ادخل فی المرام قال القاری ابن الملک المراد الترغیب الی اعلان امرالنکاح بحیث لایخفی علی الاباعد قال فی شرح السنۃ معناہ اعلان النکاح واضطراب الصوت بہ والذکر فی الناس کما یقال فلان قد ذھب صوتہ فی الناس ۱؎ اھ فالنھی مفقود ویفید المقصود فالجواز موجود المنع مردود و ھل لاحد ان ینھی عما لم ینہ عنہ اﷲ ورسولہ جل جلالہ وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
رہی یہ بات کہ قلعی کی رائفل سے نکاح کی تشہیر اور اعلان کرنا تو یہ مطلوب و مندوب ہے تاکہ نکاح اور بد کاری میں امتیاز ہوجائے کیونکہ بدکاری کو چھپا یا جاتاہے بتایا اورظاہر نہیں کیا جاتا، جبکہ نکاح کی تشہیر کی جاتی ہے کیونکہ اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ انتہائی دور والے لوگ بھی آگاہ ہوجائیں کیونکہ قریب کے لوگ تو قرب وجوار میں ہونے کی وجہ سے اس معاملے کو بخوبی جانتے ہیں اس لئے دف بجانے اور آوازوں کے پھیلانے کا حکم طریقہ معروف کے مطابق دیا گیا ہے تاکہ قاضی کے لئے حصول علم اس کے مطابق ہوجائے جولوگوں میں متعارف ہے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد اس کو شامل ہے کہ حلال حرام میں فرق نکاح کے موقع پر اعلان کرنے اور دف بجانے سے ہے۔ چنانچہ ائمہ کرام مثلا احمد، نسائی، ترمذی ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے محمد بن حاطب جمحی کے حوالے سے اسے روایت کیا ہے امام ترمذی نے اس کی تحسین فرمائی۔ ابن حبان ، دارقطنی ، حاکم اور ابن طاہر نے اس کو صحیح قرار دیا ہے لہذا اعلان نکاح کو شارع نے دف بجانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا بلکہ صورت کو مطلق رکھا گیا اور دونوں میں حرف ''و'' تغایر کے لئے بڑھا یاگیا اور رائفل سے ایسی آواز پیدا ہوتی ہے کہ جس سے آگاہی نصیب ہوتی ہے بلکہ اسے مقصود میں زیادہ دخل ہے۔ ملا علی قاری نے فرمایا علامہ ابن ملک نے کہا کہ اس سے امر نکاح کے اعلان کرنے کی رغبت مقصود ہے تاکہ دور دراز والے لوگوں پر یہ معاملہ پوشیدہ نہ رہے۔ شرح السنۃ میں فرمایا گیا کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نکاح کا اعلان اور اس کی آواز کی نشر واشاعت ہوجائے اور لوگوں میں اس کا تذکرہ ہو جیسے کہا جاتاہے کہ فلاں شخص کی آواز لوگوں میں پھیل گئی اور ان تک پہنچ گئی، خلاصہ کلام یہ کہ نہی مفقود اور افادہ مقصود ہے اور جواز موجود اور ممانعت مردود ہے کیا کسی کے لئے گنجائش ہے کہ جس کام سے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول گرامی منع نہ فرمائیں اس سے لوگوں کو روکے ہر گز ایسا نہیں ہوسکتا، اللہ تعالٰی کی شان عظیم ہے اور اس کے رسول کریم پر اس کی طرف سے ہدیہ درود وتسلیم ہو،
(۱؎ جامع الترمذی ابواب النکاح باب ماجاء فی اعلان النکاح امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۲۹) (سنن النسائی کتاب النکاح اعلان النکاح بالصوت الخ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲/ ۹۰) (سنن ابن ماجہ ابواب النکاح اعلان النکاح بالصوت الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۳۸) (مسند احمد بن حنبل حدیث محمد بن حاطب رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۴۱۸ و ۴/ ۲۵۹) (۱؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب النکاح باب اعلان النکاح الفصل الثانی مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۶/ ۳۱۴)
اما زعم بعض جھلۃ الوھابیۃ ولعمری مافی الوھابیۃ الا الجھلۃ انہ اسراف و الاسراف حرام فجھل منھم بمعنی الاسراف واعظم منہ ان اجھلھم تلا فی تحریمہ ایۃ ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین ۱؎'' ولم یدرالمسکین مافی الانفاق فی غرض محمود وفی مذموم او فی عبث من بون مبین ولو کان کل انفاق شیئ فی غرض مباح بل ومحمود اسرافا مذموما اذا امکن حصولہ باقل منہ لکان کل توسع فی مأکل او مشرب او منکح او مرکب اوملبس او مسکن حراما وھو خلاف الاجماع والنصوص الصریحۃ بغیر نزاع وھذا ربنا عزوجل قائلا ''قل من حرم زینۃ اﷲ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق ۲؎''
رہا بعض جاہل وہابیوں کا یہ خیال کہ یہ اسراف ہے (مجھے اپنی بقا کی قسم وہابیوں میں سوائے جہالت کے کچھ نہیں، لہذا قول وہابیہ کہ یہ اسراف ہے اور اسراف حرام ہے۔ توان کا یہ قول معنی اسراف سے جہالت ہے اور اس سے بھی عظیم جہالت ان کے بڑے جاہل سے صادر ہوئی اس نے کام کی حرمت میں قرآن مجید کی آیۃ مبارک پڑھ لی ''بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں'' اور وہ بیچارہ یہ نہ سمجھا کہ اچھی اور بری غرض اور بے فائدہ کام میں خرچ کرنے میں کتنا واضح اور کھلا فرق ہے اگر ہر خرچ کرنا مباح کام میں بلکہ اچھی غرض میں اسراف اور مذموم ہوتا تو جب اسی کا اس سے معمولی درجہ میں بھی حصول ممکن ہوتا پھر کھانے، پینے، نکاح کرنے، سواری، لباس اور جائے سکونت اور ان سب میں وسعت اختیار کرناحرام ہو تا حالانکہ یہ اتفاق امت کے بالکل خلاف ہے اور صریح نصوص اس میں بغیر کسی نزاع کے وارد ہیں۔ غور کیجئے کہ ہمارا پروردگار عزت وعظمت کا مالک اپنے محبوب کریم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمارہا ہے، فرما دیجئے کس نے حرام کردی اللہ تعالٰی کی وہ زیب و زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے ظاہر فرمائی اور وہ پاکیزہ کھانے کی چیزیں۔
(۱؎ القرآن الکریم ۱۷/ ۲۷) (۲؎القرآن الکریم ۷/ ۳۲)
وھذا نبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ والہ وسلم قائلا ان اﷲ تعالٰی یحب ان یرٰی اثر نعمتہ علی عبدہ رواہ الترمذی ۱؎ و حسنہ والحاکم وصححہ عن عبداﷲ ابن عمرو بن العاص رضی اﷲ تعالٰی عنہما مع قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی الحدیث الصحیح بحسب ابن اٰدم القیمات یقمن صلبہ ۲؎ الحدیث، وجعل لمن ابی التثلیث وقد اجمعوا علی جوازہ حتی الشبع،
ہمارے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلا شبہہ اللہ تعالٰی اس بات کو پسندفرماتا ہے کہ اپنے کسی بندے پر آثار نعمت دیکھے، چنانچہ امام ترمذی نے اس کو روایت کرکے اس کی تحسین فرمائی، اور حاکم نے اس کو عبداللہ بن عمرو سے روایت کیا اور اس کو صحیح قرار دیا ۔ اس کے باوجود کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حدیث صحیح میں یہ ارشاد موجود ہے ابن آدم کے لئے غذا کے چند لقمے کا فی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں (الحدیث) ۔ یہ اس کے لئے مقرر فرمایا جس نے تین لقموں کا انکار کیا،
(۱؎ جامع الترمذی ابواب الادب باب ماجاء ان اﷲ یحب ان یری اثرہ الخ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۰۵) (المستدرک للحاکم کتاب الاطعمۃ باب ماجاء ان اﷲ یحب ان یری اثرہ الخ دارالفکر بیروت ۴/ ۱۳۵) (۲؎ جامع الترمذی ابواب الزہد باب ماجاء فی کراہیۃ کثرۃ الاکل امین کمپنی دہلی ۲/ ۶۰) (سنن ابن ماجہ ابواب الاطعمہ باب الاقتصار فی الاکل ایچ ایم سعید کراچی ص۲۴۸) (الترغیب والترھیب الترہیب من الامعان فی الشبع مصطفی البابی مصر ۳/ ۱۳۶)
و انت تری ھؤلاء الناھین المجترین علی اﷲ تعالٰی بما تصف السنتھم الکذب ۳؎۔ ان ھذا حرام وھذا ممنوع یاکلون الالوان ویلبسون الرقاق ویفعلون یفعلون ولو اجترأوا بعشر ما انفقوا لکفٰی وضرب الدف ایضا لا یخلو عن نفقۃ اما ثمن واما اجرۃ ولعلہ قد یفوق ثمن البارود وانما السرف الصرف الی غرض لایحمد وتعدی القصد وتجاوز الحد فانظر ان ھذا من ذٰلک واﷲ یتولی ھداک نعم من اراد التفاخر فذٰلک الحرام جملۃ واحدۃ ان اﷲ لایحب من کان مختالا فخورا ۱؎ والاختصاص لھذا بالدف والبندقۃ بل لو تلاقراٰن ونوی التفاخر لکان حراما محظورا والتالی اٰثما موزورا کما لایخفی فھذا ما عندنا فی الباب و ربنا سبحانہ اعلم بالصواب وصلی اﷲ تعالٰی علی سیدنا ومولٰنا والال والاصحاب اٰمین۔
تم دیکھتے ہو کہ ان روکنے والوں اللہ تعالٰی پر جرأت کرنے والوں کو ایسی چیز سے جو ان کی زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ یہ حرام ہے اور یہ منع ہے کہ لوگ رنگا رنگ کھانے کھاتے ہیں باریک اور پتلا لباس پہنتے ہیں اور یہ اور وہ کرتے ہیں۔ کاش وہ لوگ اس دسویں حصے پر اکتفا کرتے جو انھوں نے خرچ کیا تو کافی تھا۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ دف بجانا بھی خرچ سے خالی نہیں یا تو دف خریدنے پر خرچ آئے گا یا بجانے کی اجرت دینی پڑے گی اور شاید بارود کی قیمت سے زیادہ ہو، اور خالص اسراف یہ ہے کہ ایسی غرض کے لئے خرچ کیا جائے جس میں کوئی حسن و خرابی اور فائدہ نہ ہو اور یہ میا نہ روی سے متجاوز ہو لہذا غور کیجئے کہ یہ کہاں اور وہ کہاں (بلکہ دونوں میں واضح فرق ہے) اور اللہ تعالٰی تیری ہدایت کا مالک ہے۔ ہاں اگر کسی نے آپس کے خرچ کرنے سے فخر کرنے کا ارادہ کیا تو یہ بالکل حرام ہے کیونکہ اللہ تعالٰی اترانے والے فخر کرنیوالے کو پسندنہیں کرتا، لہذا حرمت کا دف اور بندوق سے کوئی اختصاص نہیں بلکہ اگر آپس میں تفاخر سے تلاوت کلام پاک کی جائے تو یہ بھی حرام اور ممنوع ہے۔ پس اس صور ت میں تلاوت کرنے والا گنہ گار اور گناہ برداشتہ ہوگا جیسا کہ مخفی نہیں لہذا اس باب میں ہماری یہی تحقیق ہے۔ اور ہمارا پاک پروردگارراہ صواب کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ہمارے آقا وسردار اور ان کی آل اولاد وصحابہ پر اللہ تعالٰی کی خصوصی باران رحمت ہو۔ آمین! (ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۴/ ۳۶) (۱؎ القرآن الکریم ۴/ ۳۶)