Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
63 - 190
اما الجلاجل فمن اللھو الباطل و النھی عنھا مشھور وفی ز برالصدور مزبور وذٰلک لما فیھا من التطریب وقد کرھواضرب الساذج علی ھیئۃ الطرب فکیف بمابہ فی نفسہ معیب وقد قدم الفاضل المجیب عن العلامۃ الشامی عن الفتاوی السراجیۃ ان ھذا ای جواز ضرب الدف فی العرس اذا لم تکن لہ جلاجل ولم یضرب علی ھیئۃ التطرب ۱؎ اھ ولم یثبت وجودھا فی الدفوف فی زمن الحدیث والرسالۃ بل ھو لھو حدیث اخترعہ بعدہ اھل اللعب والبطالۃ فی المرقاۃ شرح المشکوٰۃ (فجعلت جویر یات لنا) بالتصغیر قیل المراد بھن بنات الانصار لا المملوکات (یضربن بالدف) قیل تلک البنات لم یکن بالغات حد الشھوۃ وکان دفھن غیر مصحوب بالجلاجل، قال اکمل الدین المراد بہ الدف الذی کان فی زمن المتقدمین واما ماعلیہ الجلاجل فینبغی ان یکون مکروھا بالاتفاق ۱؎ اھ ملخصا
رہا یہ کہ دف کی آواز گھنگھر و اور گھنٹی کی جھنکار کی طرح ہو تو یہ لہو باطل میں شمار ہے اور اس سے ممانعت مشہور ہے چنانچہ یہ سینوں کی تختیوں پرلکھا ہوا ہے اس لئے کہ اس میں خوش آوازی اور سر یلا پن ہے۔ حالانکہ فقہائے کرام نے کسی سادہ چیز کو گانے کی شکل اورہیئت پر بجانے کو مکرہ قراردیا ہے پھر اس کا کیا کہنا جو بذاتہٖ عیب دار ہو، چنانچہ فاضل مجیب علامہ شامی سے بحوالہ فتاوٰی سراجیہ پہلے نقل کیا ہے کہ شادی میں دف بجانے کا جواز اس شرط سے مشروط ہے کہ اس میں ٹن ٹن کی آواز نہ ہو اور وہ گانے کی ہیت پر بھی نہ بجایا جائے اور حدیث اور رسالت کے زمانے میں دف کے لئے ٹن ٹن کی سریلی آواز نہ تھی بلکہ یہ کھیل تماشے کی باتیں زمانہ رسالت کے بعد ارباب باطل نے ایجاد واختراع کرلیں چنانچہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے کہ ہمارے ہاں چند چھوٹی بچیاں تھیں جو دف بجا رہی تھیں، یہاں حدیث میں لفظ جویریات ہے جو جویریہ کی جمع اور صیغہ تصغیر ہے کہا گیا کہ ان سے انصار کی چھوٹی بچیاں مراد ہیں لہذا باندیاں مراد نہیں، اور یہ بھی کہا گیا کہ مکمل جوان نہ تھیں اور ان کی دف کی آواز سریلی اور ٹن ٹن والی نہ تھی، چنانچہ علامہ اکمل الدین نے فرمایا ان کی دف سے زمانہ متقدمین کی دف مراد ہے۔رہی وہ دف کہ جس کی گھنٹی جیسی آواز اور جھنکار ہو تو وہ بالاتفاق مکروہ ہے (ملخص پورا ہوگیا)
(۱؎ ردالمحتار         کتاب الحظروالاباحۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۲۲۳)

(۱؎ مرقات المفاتیح     کتاب النکاح باب اعلان الفصل الاول     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۶/ ۳۰۱)
ولا یذھبن عنک ان اللھو حقیقتہ حرام کلھا دقھا وجلتھا اما ماابیح فی العرس ونحوہ من ضرب الدف وانشاد الاشعار المباحۃ بہ القصد المباح اوالمندوب لاللتلھی واللعب المعیوب فانما سمی لھوا صورۃ کما سمیت السنن الثلث ملاعبۃ الفرس والمرأۃ والرمی بذٰلک لذٰلک بالضرورۃ فلا منا فاۃ بین حدیث قرظۃ بن کعب وابی مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہما وقول المحقق العینی وغیرہ انما کان منھیا اذا کان للھو اما لغیرہ فلا باس کطبل الغزاۃ والعرس ۲؎۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ درحقیقت ہر لہو حرام ہے خواہ آلات لہو کی آواز باریک ہو یا موٹی، رہی یہ بات کہ شادی وغیرہ کے موقع پر دف بجانا مباح ہے اور مندوب ارادے سے جائز اشعار پڑھنا بشرطیکہ معیوب طریقے پر نہ ہو، تو ان تمام باتوں کے مباح ہونے کا حکم ہے البتہ اسے صورۃً لہو کہا گیا جیسا کہ تین کاموں کو (یعنی عورت اور گھوڑے سے کھیلنا اور تیز اندازی کرنا) جو درحقیقت سنت ہیں، اسی وجہ سے اس ضرورت کی بناء پر انھیں لہو کا نام دیا گیا لہذا قرظہ بن کعب اور ابومسعود بدری رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث اورمحقق عینی وغیرہ کے کلام میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ دف بجانے کا جواز اس صورت میں ہے کہ جب بطور لہو نہ ہو ورنہ منع ہے۔ اس کی مثال جیسے غازیوں کا طبلہ اور شادیوں میں دف بجانا ہے۔  (۲؎)
قال فی ردالمحتار نقلا عن الکفایۃ شرح الہدایۃ اللھو حرام بالنص قال علیہ الصلوٰۃ والسلام لھو المؤمن باطل الا فی ثلث تادیبہ فرسہ وفی روایۃ ملاعبتہ بفرسہ ورمیہ عن قوسہ وملاعبتہ مع اھلہ ۱؎ اھ
علامہ شامی نے کفایہ شرح ہدایہ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ نص کی بنیاد پر لہو حرام ہے چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ تین کھیلوں کے علاوہ مسلمان کا ہر کھیل باطل ہے: (۱) گھوڑےکو ادب سکھانا یعنی جہاد کے لئے تیار کرنا، ایک دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے کہ اپنے گھوڑے سے کھیلنا (۲) کمان سے تیر اندازی کرنا (۳) اپنی بیوی سے کھیلنا اھ،
 (۱؎ ردالمحتار         کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع         داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۲۲۲)
قلت رواہ الحاکم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بلفظ کل شیئ من لھو الدنیا باطل الاثلثۃ انتضالک بقوسک وتادیبک فرسک وملا عبتک اھلک فانھا من الحق ھذا مختصر وقال صحیح علی شرط مسلم ۲؎۔ ونازعہ الذھبی وصحح ابو حاتم و ابوزرعۃ ارسلہ من طریق محمد بن عجلان عن عبداﷲ بن عبدالرحمن بن ابی حسین قال بلغنی ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال فذکرہ فی نصب ۳؎ الرایۃ ۔
میں کہتاہوں کہ امام حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حدیث مذکور کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے: سوائے تین کھیلوں کے دنیا کا ہر کھیل باطل ہے (۱) اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا، (۲) اپنے گھوڑے کو شائستگی سکھانا، (۳) اپنی گھر والی یعنی اہلیہ کے ساتھ کھیلنا، یہ تینوں جائز ہیں ۔ یہ حدیث مختصر ہے۔ حاکم نے کہا کہ یہ شرط مسلم کے مطابق صحیح ہے۔ علامہ ذہبی نے اس میں نزاع کیا ہے پھر ابوحاتم نے اور ابوزرعہ نے اس کے ارسال کو صحیح قرار دیا ہے جو محمد بن عجلان کے طریقے سے عبداﷲ بن عبدالرحمن بن ابی حسین سے  مروی ہے چنانچہ اس نے کہا کہ مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا پھر اس نے حدیث مذکور بیان کی، نصب الرایۃ میں یہی کہا گیا ہے
 (۲؎ المستدرک للحاکم     کتاب الجہاد                 دارالفکر بیروت        ۲/ ۹۵)

(۳؎ نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ کتا ب الکراہیۃ فصل فی البیع         المکتبۃ الاسلامیہ ریاض        ۴/ ۲۷۴)
قلت محمد صدوق من رجال مسلم (عبداﷲ ثقۃ عالم من رجال الستۃ کلاھما من صغار التابعین فالحدیث صحیح علی اصولنا علی ان النسائی روی بسند حسن عن جابر بن عبداﷲ وجابر بن عمیر رضی اﷲ تعالٰی عنہم عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال کل شیئ لیس من ذکر اﷲ فھو لھو ولعب الا ان یکون اربعۃ ملاعبۃ الرجل امرأتہ وتادیب الرجل فرسہ ومشی الرجل بین الغرضین وتعلیم الرجل السباحۃ ۱؎ واخرج الطبرانی فی الاوسط عن امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کل لھو یکرہ الا ملا عبۃ الرجل امرأتہ ومشیہ بین الھدفین وتعلیمہ فرسہ ۲؎۔ فالحدیث صحیح لاشک وکان ھذا ھو مراد الفاضلین الکاملین ذوی الریاسۃ والسلامۃ النفاسۃ والکرامۃ المجیب والمؤید باباحۃ اللہوفی العرس،
میں کہتاہوں کہ محمد نامی راوی سچا ہے، مسلم کے رجال میں سے ہے عبداللہ راوی ثقہ اورعالم ہے، صحاح ستہ کے رجال میں سے ہے دونوں اشخاص مذکور چھوٹے تابعین میں سے ہیں لہذا حدیث ہمارے اصول وقواعد کے مطابق صحیح ہے اس کے علاوہ امام نسائی نے اچھی سند کے ساتھ اسے جابر بن عبداللہ اور جابر بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہم کے حوالے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت کیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا: ''ہر وہ چیز جس میں ذکر الٰہی نہ ہو وہ کھیل اور تماشہ ہے لیکن چار چیزیں اس سے مستثنٰی ہیں (۱) مرد کا اپنی بیوی سے کھیلنا (۲) اپنے گھوڑے کو شائستگی سیکھانا (۳) مرد کا دونشانوں کے درمیان چلنا (۴) تیرا کی سیکھنا، اما م طبرانی نے ''الاوسط'' میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ تخریج فرمائی کہ ہر کھیل مکروہ ہے سوائے تین کاموں کے (۱) مرد کا اپنی بیوی سے کھیلنا (۲) تیر اندازی کے دونشانوں کے درمیان چلنا (۳) اپنے گھوڑے کو سکھانا لہذا حدیث بلا شبہہ صحیح ہے اور دو فاضلوں کاملوں کی ، شادی کے لہو مباح ہونے سے یہی مراد ہے جو ریاست سلامت نفاست کرامت والے ہیں ایک جواب دینے والا اور دوسرا اس کی تائید کرنے والا ہے۔
 (۱؎ کنز العمال بحوالہ ن النسائی عن جابر بن عبداللہ وجابر بن عمیر حدیث ۴۰۶۱۲     موسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۵/ ۲۱۱)

(۲؎ المعجم الاوسط         حدیث ۷۱۷۹             مکتبۃ المعارف ریاض    ۸/ ۹۰)
Flag Counter