Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ)
62 - 190
وکذا الطبل قال المحقق العینی والطبل انما کان منھیا اذا کان للھو اما لغیرہ فلا بأس کطبل الغزاۃ والعرس ۱؎ وقد صح ضرب الدف لیلۃ العرس وفی الاعیادعند النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واکد ذلک بما رواہ احمد و الترمذی عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال فصل مابین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح ۲؎ وبما رواہ النسائی عن عامر بن سعد قال دخلت علی قرظۃ وابی مسعود الانصاری فی عرس واذا جوار یغنین فقلت انتما صاحبا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ومن اھل بدر یفعل ھذا عندکم فقال  اجلس ان شئت فاسمع معنا وان شنت اذھب رخص لنا فی اللھو عند العرس ۱؎۔ وفی خزانۃ المفتین لا بأس بان یکون لیلۃ العرس دف یضرب للشہرۃ و اعلان النکاح۔ وقال الفقیۃ ابواللیث ھذا اذالم یکن علیہ جلاجل اما اذا کان فیکرہ کذا فی الظھیریۃ ۲؎
اور طبلہ بھی اسی طرح ہے محقق عینی نے فرمایا: طبلہ اس وقت منع ہے جب لہو ولعب کے لئے ہو اگر اس مقصد کے لئے نہ ہو تو کوئی حرج نہیں جیسے اگر اعلان جہاد کے لئے یا شادی وغیرہ کے موقع پر اس کا استعمال اور شادی والی رات دف بجانا جائز ہے اور عید کے مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے روبرو دف بجائی گئی اور اس کی تاکید کی گئی اس حدیث سے جو امام احمد اور امام ترمذی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت کی آپ نے ارشادفرمایا حلال اور حرام میں فر ق نکاح میں دف بجانے اور گیت گانے سے ہے، اور وہ حدیث جس کو امام نسائی نے عامر بن سعد سے روایت کیا ہے انھوں نے فرمایا میں ایک شادی میں قرظہ اور ابومسعود انصاری کے ہاں گیا وہاں چند بچیاں گیت گارہی تھیں میں نے (یہ منظر دیکھ کر) کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اے بدری ساتھیو! تمھارے ہاں یہ کام ہورہاہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر مرضی ہو تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر تم بھی سنو اور اگر مرضی نہیں ہے تو یہاں سے چلے جاؤ (اور ہمیں نہ ٹوکو) کیونکہ ہمیں شادیوں کے مواقع پر کھیل کود کی رخصت دی گئی ہے۔ اور خزانۃ المفتین میں ہے کہ شادی والی رات اعلان نکاح اور شہرت کے لئے اگر دف بجائی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، فقیہ ابواللیث نے فرمایا کہ یہ جواز اس وقت ہے یا اس صورت میں ہے کہ جب دف کی آواز گھنٹی کی جھنکار جیسی ہو لیکن وہ آواز اگر گھنٹی کے مشابہ اور جھنکار والی ہو تو اس کے استعمال (یعنی دف بجانا) مکروہ ہے، یونہی فتاوٰی ظہیریہ میں بھی ہے اھ۔
 (۱؎)

(۲؎ جامع الترمذی ابواب النکاح باب ماجاء فی اعلان النکاح     امین کمپنی دہلی        ۱/ ۱۲۹)

(مسند احمد بن حنبل     حدیث محمد بن حاطب رضی اﷲ تعالٰی عنہ     المکتب الاسلامی بیروت    ۳/ ۴۱۸ و ۴/ ۲۵۹)

(۱؎ سنن النسائی         کتاب النکاح اللہو والغناء عند العِرس     نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی        ۲/ ۹۲)

(۲؎ خزانہ المفتین     کتاب الکراہیۃ         قلمی نسخہ                ۲/ ۲۱۱)
اقول: اطلاق الاحادیث ینادی بجوازہ مع الجلاجل ایضا ولعل القول بالکراہۃ لعلۃ اخری وقد ظھر من کلام المحقق العینی ان دف العرس وطبلہ لیسا داخلین فی اللھو ولو کانا جاز ایضا فی النکاح بنص الحدیث کما افادہ الفاضل المجیب وقد منا التصریح بذٰلک فی روایۃ النسائی وکذا لاشبھۃ فی جواز ضرب البنادیق والمدافع فی العرس وامثالہ۔
میں کہتاہوں کہ حدیثوں کا علی الاطلاق وارد ہونا اس بات کا اعلان کررہا ہے کہ ''جلاجل'' گھنٹی کی جھنکار جیسی آواز ہونے کے باوجود اس کا استعمال جائز ہے اور کراہت والا قول شاید کسی دوسری وجہ سے ہو نیز محقق عینی کے کلام سے ظاہر ہوا کہ شادی میں دف اور طبلہ بجانا لہو میں شمار نہیں ہوتااور اگر شمار ہو بھی تو نص حدیث کی وجہ سے ان کا استعمال جائز ہے اور کراہت والا قول شاید کسی دوسری وجہ سے ہو، نیز محقق عینی کے کلام سے ظاہر ہوا کہ شادی میں دف اور طبلہ بجانا لہو میں شمار نہیں ہوتا اور اگر شمار ہو بھی تو نص حدیث کی وجہ سے ان کا استعمال جائز ہے جیسا کہ فاضل مجیب نے افادہ پیش کیا ہے اور روایت نسائی کے حوالہ سے ہم نے اس کی تصریح قبل ازیں کردی ہے اور اسی طرح شادی وغیرہ میں بندوقوں سے فائرنگ کرنے اور توپ سے گولہ باری کرنے کے جواز میں بھی کوئی شبہہ نہیں۔
الجواب : اللھم لک الحمد والیک الصمد صل علی حبیبک النور مانح السرور وعلی الہ وصحبہ الی یوم النشور ضرب الدف لاعلان النکاح واظھار السرور فی مستحبات الافراح جائز ومباح مافیہ جناح بل مندوب ومطلوب بالقصد المحبوب لکن یکرہ للرجال بکل حال وانما جواز للنساء علی ماقالہ فحول العلماء وانما ینبغی لنحو الجواری من الاماء و الذراری دون السردات ذوات الھیأت۔
اے اللہ! تیرے ہی لئے سب تعریف ہے اور تیری ہی طرف بندوں کا قصد ہے اور اپنے مبارک حبیب پر رحمت بھیج جو خوشی عطا کرنیوالے شرانگیز کاموں سے روکنے والے اور قیامت کے دن تک ان کی آل اور ساتھیوں پر نزول رحمت ہو۔ ہاں اعلان نکاح اور اظہار خوشی کے لئے مستحب مواقع میں دف بجانا جائز اور مباح ہے بلکہ اچھے ارادے سے مندوب ومطلوب ہے لیکن مردوں کے لئے ناپسند یدہ ہے البتہ عورتوں کے لئے جائز ہے جیسا کہ اکابر علماء نے ارشاد فرمایا۔ اسی طرح چھوٹی بچیوں کے لئے خواہ آزاد ہوں یا لونڈیاں دف بجانا جائز ہے نہ کہ ان معزز شکل وشباہت رکھنے والی خواتین کے لئے۔
فی الدرالمختار جاز ضرب الدف فیہ ۱؎ اھ یرید العرس قال فی ردالمحتار جواز ضرب الدف فیہ خاص بالنساء کما فی البحر عن المعراج بعد ذکرہ انہ مباح فی النکاح ومافی معناہ من حادث سرور قال وھو مکروہ للرجال علی کل حال للتشبہ بالنساء ۱؎ اھ ،
چنانچہ درمختار میں ہے۔ شادیوں میں دف بجانا جائز ہے۔ علامہ شامی نے اپنے فتاوٰی میں لکھا ہے کہ شادیوں میں دف بجانا عورتوں کے ساتھ خاص ہے اس لئے کہ البحرالرائق میں معراج الدرایہ کے حوالے سے منقول ہے کہ اس مسئلہ کے ذکر کرنے کے بعد کہ نکاح اور اس جیسی خوشی کے موقع پر اگر چہ دف بجانا مباح ہے لیکن ہر حال میں مردوں کے لئے مکروہ ہے کیونکہ اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت پیدا ہوتی ہے اھ
 (۱؎ الدرالمختار         کتاب الشہادت باب قبول الشہادۃ         مطبع مجتبائی دہلی        ۲/ ۹۶)

(۱؎ ردالمحتار     کتاب الشہادات با ب قبول الشہادۃ         داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۸۲)
واخرج ابن حبان فی صحیحہ عن ام المومنین الصدیقۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا قالت کانت عندی جاریۃ من الانصار زوجتھا فقال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا عائشہ الا تغنین فان ھذا الحی من الانصار یحبون الغناء ۲؎،قالت القاری قال التورپشتی یحتمل ان یکون علی خطاب الغیبۃ بجماعۃ النساء والمراد منھن من تبعھا فی ذٰلک من الاماء والسفلۃ فان الحرائر لیستنکفن من ذٰلک وان یکون علی خطاب الحضور لھن ویکون من اضافۃ الفعل الی الاٰمربہ والاٰذن فیہ قلت ویؤیدہ الروایۃ الاتیہ ارسلتم معھا من تغنی ۳؎ الخ
چنانچہ ابن حبان نے اپنی صحیح میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حوالے سے تخریج فرمائی مائی صاحبہ نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس قبیلہ انصار کی ایک بچی تھی میں نے اپنی نگرانی میں اس کی شادی کرائی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم گاتی نہیں ہو کیونکہ انصار تو گانے کو پسند کرتے ہیں۔ ملا علی قاری نے فرمایا کہ محدث تو رپشتی نے کہا یہاں اس لفظ ''تغنین'' میں احتمال ہے کہ غیبت کے طریقے پر عورتوں کی جماعت سے خطاب ہو اور ان سے وہ باندیاں اور معمولی عورتیں مراد ہوں جو اس بچی کے ساتھ بارات میں گئیں اس لئے کہ آزاد عورتیں اس کام سے نفرت کرتی تھیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لفظ صیغہ حاضر کے طریقہ پر ہو جس کی مخاطب عورتیں ہوں اور فعل کی اضافت آمر اور اجازت دینے والے کی طرف ہو، میں کہتاہوں کہ آئندہ کی روایت اس کی تائید کرتی ہے جس کے یہ الفاظ ہیں کیا تم نے دلھن کے ساتھ کسی گویّا عورت کو بھیجا ہے؟
(۲؎ موارد الظمان زوائد ابن حبان باب الغناء واللعب فی العرس حدیث ۲۰۲۱    المطبعۃ السلفیہ      ص۴۹۴)

(مشکوٰۃ المصابیح     بحوالہ ابن حبان فی صحیحہ کتاب النکاح باب اعلان النکاح         مطبع مجتبائی دہلی    ص۲۷۲)

(۳؎ مرقاۃ المفاتیح     کتاب النکاح باب اعلان النکاح الفصل الثانی         مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۶/ ۳۱۴)
Flag Counter