فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۳(کتاب الحظر والاباحۃ) |
مسئلہ ۹۶: از شاہجہانپور محلہ خلیل مرسلہ مولوی ریاست علی خاں صاحب واز رامپور خانقاہ مولینا ارشاد حسین مرسلہ مولوی سلامت اﷲ صاحب غرہ محرم الحرام ۱۳۲۳ھ ماقولکم ایھا العلماء الکرام رحمکم اﷲ فی ھذا المرام ان ضرب الدف و البنادیق فی العرس لغرض اعلان النکاح اوفخریۃ ھل یجوز عند الشرع ام ، لا۔ بینوا بمسند الکتاب توجروا یوم الحساب۔
اے علماء کرام اللہ تعالٰی تم پر رحم وکرم فرمائے، اس مسئلہ میں تم کیا فرماتے ہو کہ شادی میں اعلان نکاح کی غرض سے دف بجانا جائز ہے یا نہیں؟ اور بندوقوں سے ہوائی فائرنگ کرنا خواہ اعلان نکاح کے لئے ہو یا فخریہ طور پر ہو کیسا ہے؟ کتاب وسنت کے حوالے سے بیان فرماؤ تاکہ بروز حساب اللہ تعالٰی کے ہاں اجر وثواب پاؤ۔ (ت)
خلاصۃ جواب المولوی ریاست علی خان
یجوز ضرب الدف بلا جلاجل و البنادیق بغرض اعلان النکاح ولا یجوز فخریۃ ولا تطربا فی الحدیث اضربوا علیہ الدفوف وضرب المدفع یجوز لاعلان افطار الصوم ولزوم الصوم واختتام وقت سحری ووقت نصف النہار وغیرہا کما ھو معتاد مروج فی اکثر بلاد الاسلام خصوصا فی مکۃ المعظمۃ فعلی ھذا ای تامل فی جواز ضرب البنادیق لغرض اعلان النکاح لانہ مامور باعلان عن لسان صاحب الشرع و فی ردالمحتار ان المدفع یفید غلبۃ الظن وان کان ضاربہ فاسقا لان العادۃ ان الموقت یذھب الی دارالحکم اٰخر النھار فیعین لہ وقت ضربہ فیغلب بھذہ القرائن عدم الخفاء وعدم قصد الافساد والا لزم تاثیم الناس وایضا فیہ والظاھر انہ یلزم اھل القری الصوم بسماع المدافع من المصر لانہ علامۃ ظاھرۃ تفید غلبۃ الظن حجۃ موجبۃ للعمل ۲؎ فثبت ان ضرب المدافع مروج مشروع، وایضا فی ردالمحتار الۃ اللھو لیست محرمۃ لعینھا بل لقصد اللھو منھا اما من سامعھا اومن المشتغل بھا ۱؎ اھ قلت وحرمۃ الاٰت اللھو لقصد اللھو فی غیر العِرسِ واما فی العرس فاللھو مباح من حدیث عائشہ زفت امرأۃ الی رجل من الانصار فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ماکان معکم لھو فان الانصار لیعجبھم اللھو رواہ البخاری ۲؎ وھذ اعلی تسلیم ان البنادیق من الاٰت اللھو والا فلا شناعۃ فیھا من قبل، واﷲ سبحانہ اعلم۔
اعلان نکاح کی غرض سے دف بجانا جائز ہے جبکہ اس کی آواز گھنگھرو اور گھنٹی کی جھنکار کے ساتھ نہ ہو یا اس کے مشابہ نہ ہو، اسی طرح ہوائی فائرنگ بھی جائز ہے مگر فخر وغرر کے طو رپر جائز نہیں، چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ نکاح کی تشہیر کے لئے دف بجایا کرو روزہ کے وقت کے آغاز کا اعلان کرنے کے لئے سحری کے وقت، روزہ افطاری کے وقت اور دوپہر وغیرہ کے وقت توپ کا گولہ چھوڑنا جائز ہے جیسا کہ اکثر اسلامی ممالک اور مدائن میں معمول ہے بالخصوص مکہ مکرمہ میں یہ طریقہ رائج ہے پس اس بناء پر تشہیر نکاح کے لئے فائرنگ وغیرہ کے جوازکے بارے میں کیا اشکال ہوسکتا ہے (یعنی یہ بلا شبہہ جائز ہے ۔ مترجم) کیونکہ صاحب شرع کی زبان سے اس کے اعلان کا حکم ہے، فتاوٰی شامی میں ہے توپ کا گولہ مفید غلبہ ظن ہے اگر چہ توپ چلانے والا فاسق ہو اس لئے عادۃ اس کا م پر مقرر آدمی دن کے آخری حصے میں دار قضا کی طرف جاتا ہے پھر اس کے لئے چھوڑنے کا وقت مقرر کیا جاتاہے لہذا ان قرائن کی وجہ سے غلطی کا ارتکاب نہ ہونے اور فساد پھیلانے کا ارادہ نہ ہونے کا غالب گمان ہوتا ہے ورنہ لوگوں کا گناہگار ہونا لازم آئے گا، اور اسی میں یہ بھی مذکور ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ دیہات والے اگر شہر کی طرف سے توپ کے گولے کی آواز (بطور اعلان شہادت رؤیت چاند) سنیں تو ان پر روزہ رکھنا لازم ہوجائے گا اس لئے کہ یہ ایک ظاہری علامت ہے جو غلبہ ظن کا فائدہ دیتی ہے اور غلبہ ظن ایک ایسی دلیل ہے جو عمل کرنا واجب کردیتی ہے لہذا ثابت ہوا کہ اس مقصد کے لئے توپیں چلانا مباح اور جائز ہے نیز فتاوٰی شامی میں ہے کہ کھیل کود کے آلات فی نفسہ حرام نہیں بلکہ کھیل تماشے کے ارادے سے ان کا استعمال کرنا حرام ہے خواہ ''قصد لہو'' سامع کی طرف سے ہو یا انھیں استعمال کرنے اور ان سے شغل رکھنے والے کی طرف سے ہو اھ، میں کہتاہوں آلات لہو کی حرمت ۔ لہو ولعب کے قصد سے موقع شادی کے علاوہ ہے۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو ان کا استعمال حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وجہ سے مباح ہے، چنانچہ ام المومنین نے ارشاد فرمایا کہ ایک عورت کو (تیار کرکے) ایک انصاری کے پاس بھیجا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا : کیا تمھارے پاس کھیل کود کا سامان نہیں تھا کیونکہ انصار کو کھیل کود سے خوشی ہوتی ہے، امام بخاری نے اس کو روایت کیا ہے اور یہ اس بناء پر ہے کہ اگر یہ تسلیم کرلیں کہ بندوقوں سے فائرنگ وغیرہ ''آلات لہو'' میں شامل ہے ورنہ اس سے پہلے ان میں کوئی قباحت نہیں، اور اللہ تعالٰی پاک سب کچھ اچھی طرح جاننے والا ہے (جواب مولوی ریاست علی خان مکمل ہوگیا ہے)
(۱؎ردالمحتار کتاب الصوم باب مایفسد الصوم داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۱۰۶) (۲؎ردالمحتار کتاب الصوم باب مایفسد الصوم داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۹۱) (۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۲۳) (۲؎ صحیح البخاری کتاب النکاح باب النسوۃ اللاتی تہدین المرأۃ الی زوجھا الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۷۵)
خلاصہ جواب الشاہ سلامت اﷲ فی تائیدہ
لاریب فی جواز ضرب الدف لاعلان النکاح بل فی سنتہ فی الفتاوی الغیاثیۃ ضرب الدف فی النکاح اعلان وتشہیرا سنۃ و یجب ان یکون بلاسنجات وجلا جل ۳؎ اھ
اعلان نکاح کے لئے دف بجانا کے جواز بلکہ اس کے سنت ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔
فتاوٰی غیاثیہ میں ہے: نکاح کے موقعہ پر دف اس کے اعلان اور تشہیر کے لئے سنت ہے اور ضروری ہے کہ دف کی آواز گھنگھرو ٹلیوں کے مشابہ زور دار نہ ہو اھ۔
(۳؎ فتاوٰی غیاثیہ کتاب الاستحسان الفصل الرابع مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۱۰۹)